بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی گفتگو کا عنوان ہے سیرۃ النبیؐ اور غیر مسلموں کے حقوق۔ نبوت سے پہلے تو مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں تھا، البتہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تئیس سالہ نبوی زندگی، یعنی تیرہ سالہ مکی اور دس سالہ مدنی زندگی میں آپؐ کا تین قسم کے کافروں کا سامنا ہوا اور تینوں کے ساتھ آپؐ کا معاملہ الگ الگ تھا:
- ایک وہ کافر تھے جو اسلام کے راستے کی رکاوٹ بھی تھے، مخالفت بھی کرتے تھے، آپؐ کو اور آپؐ کے صحابہؓ کو تیرہ سال بہت تنگ کیا اور دس سال بدر، احد اور خندق کی جنگوں میں آپؐ کا مقابلہ کیا۔ ان کافروں میں قریش، بنو ثقیف، اور بنو ہوازن شامل رہے ہیں۔ ان کو فقہاء کی اصطلاح میں ’’محارب کافر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ آپؐ کا طرز عمل مکی زندگی میں برداشت کرنے کا تھا اور مدنی زندگی میں مقابلہ کرنے کا تھا۔ مکی دور میں قرآن کریم کا یہ حکم تھا ’’کفوا ایدیکم‘‘ (سورہ النساء ۷۷) ہاتھ نہیں اٹھانا، برداشت کرنا ہے۔ حضرت خباب بن ارتؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرا مالک بہت زیادتیاں کرتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا صبر کرو۔ انہوں نے کہا برداشت سے باہر ہے۔ فرمایا صبر کرو۔ انہوں نے اپنی کمر سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ میرا حال دیکھیں، میرا مالک اسلام قبول کرنے کی سزا میں مجھے کوئلے جلا کر اوپر لٹا دیتا ہے اور اوپر بیٹھ جاتا ہے میرے جسم سے خون بہہ کر کوئلے بجھاتا ہے، میرے جسم میں پیپ پڑی ہوئی ہے۔
چنانچہ تیرہ سالہ مکی دور میں محارب کافروں سے آپؐ کا طرز عمل صبر، حوصلہ اور برداشت کا رہا۔ مدنی دور میں آٹھ سال مقابلہ ہوا چونکہ یہ حکم مل گیا تھا کہ ’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علٰی نصرھم لقدیر‘‘ (سورہ الحج ۷۸) تو بدر، احد اور خندق میں مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے کے نتیجے میں مکہ فتح ہو گیا۔ اس سے پہلے ساری عرب دنیا انتظار کر رہی تھی کہ اس مقابلے میں کون غالب آتا ہے، جو بھی غالب آئے گا ہم اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ فتح مکہ میں جب اس مقابلے کا فیصلہ ہو گیا اور بنو ہوازن نے بھی اس کے ساتھ ہی شکست کھائی، بنو ثقیف نے معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ ان محارب کافروں کے ساتھ حضورؐ نے صبر کا دور بھی گزارا ہے اور مقابلے کا دور بھی گزارا ہے۔
- کافروں کی دوسری قسم جو مقابلے پر نہیں تھے ان کے ساتھ آپؐ نے حالات کے مطابق گزارا کیا۔ مثال کے طور پر مدینہ میں آنے کے بعد جب تک یہودی مقابلے پر نہیں آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ نہیں چھیڑی، ان سے معاہدہ تھا کہ ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ بنو، اگر رکاوٹ بنو گے تو جنگ ہو گی، ویسے تم اپنی جگہ رہو، ہم اپنی جگہ رہتے ہیں۔ بلکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب آپؐ نے مدینہ میں اسلام کی پہلی ریاست قائم کی تو وہ ریاست یہود کے ساتھ مل کر قائم کی۔ حضورؐ نے جنگ کر کے، مقابلہ کر کے مدینہ کی ریاست نہیں بنائی بلکہ تین سال مذاکرات چلتے رہے ہیں، بیعتِ عقبہ اولٰی، بیعتِ عقبہ ثانیہ اور میثاق مدینہ۔ تین سال کے مذاکرات کے بعد آپؐ نے یہود، دیگر قبائل اور انصار کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست قائم کی۔ یہ ریاست کافروں پر غلبہ پا کر نہیں بلکہ ان کے اشتراک سے قائم ہو گئی تھی۔
یہودیوں نے بعد میں اپنی سازشوں کی مار کھائی ہے جس کی وجہ سے جلاوطن ہوئے اور پھر خیبر کی لڑائی ہوئی۔ ورنہ احزاب تک یہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہی تھے۔ خیبر میں یہودیوں کو شکست ہو گئی ، آپؐ نے ان کو جلاوطن کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ یہودی آئے اور عرض کیا کہ آپ نے فتح حاصل کر لی ہے، ہمارے علاقے اور زمینوں کے آپ مالک ہوگئے ہیں، اب ہم نے علاقہ چھوڑنا ہے، لیکن کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ ہمیں مزارع کے طور پر قبول فرما لیں۔ اصولاً یہودیوں کو وہ زمین چھوڑ کر جانا تھا کہ مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تھا، زمینیں مسلمان مجاہدین میں تقسیم بھی ہو گئی تھیں۔ آپؐ نے ان یہود کی پیشکش قبول فرما لی کہ ٹھیک ہے مزارع کے طور پر رہو گے لیکن جب تک ہم چاہیں گے، ہمیشہ کے لیے نہیں۔ مدت کا اختیار ہمارے پاس ہو گا، چنانچہ یہی اختیار حضرت عمرؓ نے استعمال کیا تھا جب انہوں نے اپنے دور میں یہود کو خیبر سے نکالنا چاہا تو یہود نے کہا کہ حضرت محمدؐ نے ہم سے معاہدہ کیا ہوا ہے، ہم مزارع ہیں، اس معاہدہ کو آپ کیسے توڑ سکتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے کہا، معاہدہ ہوا ہے لیکن معاہدے کا ایک جملہ مجھے یاد ہے جو تم نظر انداز کر رہے ہو۔ حضورؐ نے فرمایا تھا جب تک ہم چاہیں گے۔ یہ معاہدہ کب تک رہنا ہے یہ اختیار ہمارا ہو گا۔ یہ جملہ یاد ہے؟ انہوں نے تسلیم کیا کہ ہاں حضورؐ نے یہ جملہ بھی کہا تھا، پھر ان کو جلا وطن کر دیا۔ میں یہ بتا رہا ہوں کہ حضورؐ نے ان کی یہ پیشکش قبول فرمائی اور ان کو مزارع کے طور پر قبول کیا۔
یہودیوں کے ساتھ آپؐ نے معاملات کا آغاز لڑائی سے نہیں مذاکرات سے کیا۔ یہاں سے فقہاء نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ غیر محارب کافروں کے ساتھ معاہدہ کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ رہ بھی سکتے ہیں جب تک وہ مقابلے پر نہ آئیں۔ عیسائیوں کے ساتھ بھی آپؐ نے یہی معاملہ کیا۔ نجران کے عیسائی آپؐ کے ساتھ گفتگو کے لیے آئے، آپؐ سے مکالمہ و مناظرہ ہوا، مجادلہ ہوا، مباہلہ کی نوبت بھی آئی، لیکن بالآخر معاہدہ ہوا۔ عیسائی بھی اسلامی ریاست کا حصہ بنے اور آپؐ نے ان کو اسلامی ریاست کے شہری کے طور پر قبول کیا۔ معاہدہ میں شرطیں طے پائیں کہ یہ تم کرو گے اور یہ ہم کریں گے۔ یہ آپؐ کا معاملہ تھا دوسری قسم کے یعنی غیر محارب کفار کے ساتھ۔ ماحول کے مطابق آپؐ نے ان کے ساتھ صلح بھی رکھی، معاہدات بھی کیے، شراکت بھی کی۔
- کافروں کی تیسری قسم منافقین مدینہ کی تھی جن کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے ’’ومن الناس من یقول اٰمنّا باللہ وبالیوم الاٰخر وما ھم بمؤمنین‘‘ (سورہ البقرہ ۸) بعض لوگ ایمان کا دعوٰی تو کرتے ہیں لیکن وہ مومن نہیں ہیں۔ ’’وما ھم بمؤمنین‘‘ کا فتوٰی آج کے کسی دارالافتاء کا نہیں تھا بلکہ مفتی اعظم اللہ تعالٰی کا فتوٰی تھا۔ کافروں کی اس قسم کے ساتھ مدنی دور کے دس سال واسطہ رہا، ان کے ساتھ آپؐ کا طرز عمل بالکل مختلف تھا۔ شرارت تو یہ ہر موقع پر کرتے رہے، کیا کیا شرارتیں انہوں نے نہیں کیں۔ احد کے موقع پر بغاوت کی، (مسجد ضرار بنائی، حضورؐ کو قتل کرنے کے لیے گھات لگائی)، اور ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر تہمت سے بڑی کوئی شرارت ہو سکتی ہے؟ لیکن جناب نبی کریمؐ نے برداشت کیا، عبد اللہ بن ابی سامنے بیٹھا تھا۔ حضرت سعد بن معاذ نے کہا یارسول اللہؐ اجازت ہو تو اس کو قتل کر دوں؟ فرمایا، نہیں۔ چنانچہ آپؐ نے منافقین سے محاذ آرائی نہیں کی، لڑائی نہیں کی۔ محارب کفار کے ساتھ دس سالہ مدنی دور میں حضورؐ کی ستائیس جنگیں ہوئی ہیں جو سال کی اوسطًا تین جنگیں بنتی ہیں، ہر چار مہینے بعد لڑائی، لیکن منافقین کے ساتھ ایک جنگ بھی نہیں لڑی۔ یہ گھر میں بیٹھے ہوئے کافر جن کو ’’وما ھم بمؤمنین‘‘ فرمایا گیا اور جن کے متعلق حکم ہوا ’’یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم‘‘ (سورہ التوبہ ۷۳) اے نبیؐ! کافروں سے بھی جہاد کرو اور منافقوں سے بھی جہاد کرو، اور ان پر سختی کرو۔ میں یہاں ایک سوال کیا کرتا ہوں کہ کافروں سے تو حضورؐ نے ستائیس جنگیں لڑی ہیں، منافقوں سے کون سی جنگ لڑی ہے؟ کسی ایک منافق کو قتل بھی ہونے دیا ہے؟ حضرت عمرؓ بار بار اجازت مانگتے کہ مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اتار دوں، حضرت خالد بن ولیدؓ نے تلوار نکال کر اجازت مانگی کہ اس منافق کی گردن میں اتارتا ہوں، لیکن آپؐ نے اجازت نہیں دی۔ اس قسم کے کافروں کے ساتھ حضورؐ کا الگ طرز عمل تھا۔ احد کی جنگ میں ایک ہزار میں سے سات سو میدان میں رہے، تین سو منافق غداری کر کے واپس آگئے تھے۔ گویا احد کی جنگ کے موقع پر منافقین اور مومنین کا تناسب تیس اور ستر فیصد تھا۔ بعد میں مسلمانوں کی اس پر آپس میں بحث ہوئی کہ ان منافقوں کے ساتھ لڑنا چاہیے یا نہیں۔ بعض کا کہنا تھا کہ نہیں لڑنا چاہیے، اللہ تعالٰی نے فرمایا ’’فمالکم فی المنافقین فئتین واللہ ارکسھم بما کسبوا‘‘ (سورہ النساء ۸۸) تمہیں ان سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے، تم چھوڑو میں خود سنبھال لوں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کلمہ گو کافروں کے ساتھ معاملہ الگ ہوتا ہے۔
میں کہا کرتا ہوں کہ جناب نبی کریمؐ نے ان منافقین سے بھی جنگ لڑی ہے لیکن تلوار کی نہیں بلکہ حکمت عملی کی جنگ لڑی ہے۔ حکمت عملی کے ساتھ ان کو بے اثر کر دیا۔ حضورؐ نے ان سے جنگ نہ لڑنے کی وجہ بھی خود بیان فرمائی ہے۔ بخاری کی روایت ہے، حضرت عمرؓ نے کسی موقع پر منافق کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی تو حضورؐ نے اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ محمد نے تو اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنا شروع کر دیا ہے، یہ بات اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بنے گی۔ لوگ تو انہیں مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ کلمہ پڑھتے ہیں اور ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔
حضورؐ نے دس سال میں کسی ایک منافق کو قتل نہیں ہونے دیا لیکن انہیں مورچہ بھی نہیں بنانے دیا، اپنے خلاف محاذ نہیں بنانے دیا۔ منافقین نے مسجد ضرار کی شکل میں خفیہ مورچہ بنانا چاہا جو آپؐ نے نہیں بنانے دیا۔ ’’والذین اتخذوا مسجدًا ضرارًا وکفرًا وتفریقًا بین المؤمنین وارصادًا لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل‘‘ (سورہ التوبہ ۱۰۷)۔ آپؐ نے محاذ اور مورچہ بھی منافقین کو نہیں بنانے دیا، محاذ آرائی اور لڑائی بھی نہیں کی، قتل بھی نہیں کرنے دیا۔ تین سو آدمیوں کی میدان جنگ سے غداری برداشت کی، حضرت عائشہؓ پر تہمت جیسی بات بھی برداشت کی، اجتماعی کوئی ایکشن نہیں لیا، مسجد ضرار نہیں بنانے دی بلکہ گرا دی لیکن بنانے والوں کے خلاف ایکشن نہیں لیا، البتہ اپنے ساتھ اعتماد میں بھی نہیں لیا اور ان کو کوئی حیثیت اختیار نہیں کرنے دی۔ یہ بڑی خوفناک سزا ہوتی ہے کہ مقابلے پر بھی نہیں آنے دینا اور ساتھ بھی نہیں ملانا۔ جس کو شاعر نے کہا ؎
ہم تو دشمن کو بھی کچھ ایسی سزا دیتے ہیں
ہاتھ اٹھاتے نہیں، نظروں سے گرا دیتے ہیںمنافقین کے ساتھ حضورؐ کی دس سالہ حکمت علمی کا خلاصہ یہی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ احد میں ہزار میں سے تین سو تھے یعنی تیس فیصد۔ لیکن جب حضورؐ دنیا سے رخصت ہوئے تو صرف تیرہ چودہ منافق تھے۔ تبوک سے واپسی پر انہوں نے حضورؐ کا راستہ روکا تھا جو چہرے لپیٹے ہوئے تھے، حضورؐ کو شہید کرنا چاہتے تھے، ناکام ہوگئے۔ اس وقت حضورؐ کے ساتھ صرف حضرت حذیفہؓ تھے ان کو حضورؐ نے ان سب کے نام بتائے، اس شرط پر کہ ان کے نام کسی اور کو نہیں بتانے۔ تو اس وقت بظاہر یہ چودہ منافق رہ گئے تھے جن کا علم صرف حضرت حذیفہؓ کو تھا اور کسی کو ان کا پتہ بھی نہیں تھا۔ حضرت عمرؓ نے حذیفہؓ پر بہت زور لگایا کہ مجھے ان کے نام بتائیں۔ کوئی علامت، نشانی، کوئی اشارہ ہی دے دیں۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا، رسول اللہ سے وعدہ کیا ہوا ہے، آپ کو کیسے بتا سکتا ہوں۔ حتٰی کہ حضرت عمرؓ کا معمول بن گیا تھا کہ کسی عام آدمی کا جنازہ ہوتا تو جنازہ گاہ میں جاتے، وہاں دیکھتے کہ حضرت حذیفہؓ جنازے میں ہیں یا نہیں، اگر وہ موجود ہوتے تو تسلی سے جنازہ پڑھاتے، ورنہ واپس آجاتے اور جنازہ نہ پڑھاتے، بلکہ کہتے خود ہی پڑھ لو اس لیے کہ مبادا یہ ان چودہ منافقین میں سے نہ ہو۔
یہ تھی آپؐ کی حکمت عملی جس کی بنا پر منافقین کو سوسائٹی میں غیر مؤثر کر کے دھیرے دھیرے سے ایسے غائب کیا کہ نظر بھی نہیں آئے کہ کدھر گئے، اس کو کہتے ہیں ڈپلومیسی اور حکمت عملی کی جنگ۔
جناب نبی کریمؐ کو ان تین قسم کے کافروں سے واسطہ رہا۔ محارب کافروں سے حضورؐ نے مقابلہ کیا اور آخر تک شکست دی۔ غیر محارب کافروں سے آپؐ نے معاہدے بھی کیے، صلح بھی کی، اکٹھے بھی رہے۔ جبکہ کلمہ گو کافروں کو نہ محاذ آرائی کرنے دی اور نہ ان کو اپنی صفوں میں جگہ دی، ان کو حکمت عملی کے ساتھ ناکام بنایا۔ چنانچہ خلفاء راشدین کے پورے زمانے میں کسی ایک آدمی کا سراغ بھی نہیں ملتا جسے منافقین میں شمار کیا جائے۔ اس دور میں منافقین کا کوئی واقعہ منقول نہیں ہے۔ آپؐ نے منافقین کو کیسے صاف کیا، اس طرح کہ وہ سارے مسلمان ہو گئے، حضورؐ کے طرز عمل کے باعث اسلام لے آئے۔ حضورؐ نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ وہ سب معاشرے میں تحلیل ہوگئے اور ان کا وجود ختم ہو گیا۔ آج میں نے یہ بیان کیا کہ حضورؐ کو تئیس سالہ دور نبوی میں تین قسم کے کافروں کا سامنا کرنا پڑا اور تینوں قسموں کے ساتھ حضورؐ کا معاملہ الگ الگ تھا۔