دینی قیادتوں کو اعتماد میں لیے بغیر محکمہ تعلیم کی سرگرمیاں
متحدہ علماء کونسل پاکستان نے محکمہ تعلیم کی طرف سے دینی مدارس کی متوازی رجسٹریشن اور اوقاف ایکٹ کے تحت دینی قیادتوں کو اعتماد میں لیے بغیر محکمہ اوقاف کی سرگرمیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور محکمہ تعلیم سے مطالبہ کیا ہے کہ دینی قیادتوں کو اعتماد میں لے کر کام کو آگے بڑھایا جائے۔
یہ مطالبہ آج ۱۳ فروری ۲۰۲۳ء کو لاہور میں مولانا عبد الرؤف ملک کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی مشاورت میں کیا گیا جس میں مولانا زاہد الراشدی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا ڈاکٹر حافظ محمد سلیم، سردار محمد خان لغاری، مولانا حافظ محمد گلفام اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔
مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ علماء کونسل کے سیکرٹری جنرل سردار محمد خان لغاری نے کہا کہ اوقاف ایکٹ کے منظور ہونے کے بعد دینی قیادتوں نے اسے شرعی احکام اور مذہبی آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ جس پر اس قانون پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا اور حکومت کے ساتھ مذاکرات میں طے پایا تھا کہ اس قانون پر دینی قیادتوں کو اعتماد میں لے کر نظرثانی کی جائے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا، اور مختلف مقامات پر اوقاف ایکٹ کے تحت کارروائیاں کی جا رہی ہیں جو قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اس طرح محکمہ تعلیم نے مختلف دینی مدارس کے حوالے سے ان کی انتظامیہ کو نظرانداز کر کے متوازی رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے دینی مدارس کا ماحول خلفشار کا شکار ہو رہا ہے اور مختلف نوعیت کے تنازعات کھڑے ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کا نوٹس لینا ضروری ہے اور دینی مدارس کے وفاقوں کو اس سلسلہ میں فوری توجہ کرنی چاہیے۔
مشاورتی اجلاس میں قومی اسمبلی میں توہین صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ پر سزا میں اضافہ کا قانون منظور ہونے کا خیرمقدم کیا گیا اور اسے دینی حلقوں کے مطالبہ کی طرف پیشرفت قرار دیتے ہوئے سینٹ آف پاکستان کے ارکان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھی جلد از جلد منظور کر کے قانونی شکل دیں۔
اجلاس میں طے پایا کہ متحدہ علماء کونسل کے مرکزی تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کی جائے گی اور صوبائی سطح پر بھی تنظیمیں قائم کی جائیں گی۔ جبکہ رمضان المبارک سے قبل قومی سطح پر تمام مسالک کے سرکردہ راہنماؤں کا مشترکہ کنونشن منعقد کیا جائے گا جس میں کونسل کے آئندہ لائحہ عمل اور پروگرام کا اعلان کیا جائے گا۔
دارالعلوم دیوبند کی لازوال خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
چکوال (بیورو رپورٹ) تفصیل کے مطابق بزم شیخ الہند گوجرانوالہ کے زیر اہتمام دارالعلوم دیوبند کے یومِ تاسیس کے موضوع پر فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے معروف عالمِ دین مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہمارے اکابر نے مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کو روکنے اور برصغیر کے مسلمانوں کے عقائد و افکار کے تحفظ اور ان کی دینی، فکری اور تعلیمی راہنمائی کے لیے ۳۰ مئی ۱۸۶۶ء کو دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے بقول حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ۱۸۵۷ء کی ناکامیوں خاص طور پر سیاسی، تعلیمی، معاشی، عسکری، معاشرتی، تہذیبی اور انتظامی ناکامیوں کی تلافی کے لیے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ اسی دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں نے اپنی جدوجہد، قربانیوں اور حکمتِ عملی سے انسانوں کو برصغیر میں انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی عظمت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال قبل برطانیہ کے ایک معروف اخبار ’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ نے ایک فیچر لکھا جس میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ مغرب جس بات کو ’’شر‘‘ قرار دے کر اسے ختم کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگائے ہوئے ہے، اس شر کے فروغ کے مراکز کون سے ہیں؟ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب کے نزدیک شر یہ ہے کہ سوسائٹی کی خواہشات کو آسمانی تعلیمات اور وحئ الٰہی کا پابند قرار دیا جائے۔ اور آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہو جانے اور انسانی خواہشات کی پیروی کو مغرب نے روشن خیالی قرار دے لیا ہے۔ جبکہ اسلام کا موقف اس سے بالکل متضاد ہے اور قرآن کریم نے ’’خیر‘‘ اسے قرار دیا ہے کہ انسانی سوسائٹی کو خواہشات کی پیروی سے نکال کر وحئ الٰہی کی پابندی کی طرف لایا جائے۔ اس وجہ سے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جو بات ہمارے نزدیک خیر ہے وہ مغرب کے ہاں شر شمار ہوتی ہے۔ اور جسے مغرب خیر کہتا ہے وہ ہمارے نزدیک سراسر شر ہے۔ اس لیے فکری اور تہذیبی محاذ پر ہمارا اور مغرب کا سمجھوتا ممکن ہی نہیں ہے۔
اس پس منظر میں مغرب کے دانشور جب شر کی اصطلاح کہتے ہیں تو اس سے ان کی مراد انسانی سوسائٹی کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ تعلق جوڑنا اور انسانوں کو خواہشات کی پیروی سے نکال کر وحئ الٰہی کی پابندی کا راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ اور چونکہ اس کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس ہیں اس لیے وہ مغرب کی سیکولر لابیوں کا سب سے بڑا نشانہ ہیں۔ چنانچہ دی انڈیپنڈنٹ نے مذکورہ فیچر میں اپنے تجزیہ کا نتیجہ یہ پیش کیا کہ جنوبی ایشیا کے دینی مدارس اس شر کے فروغ کے مراکز ہیں اور فیچر کی پیشانی پر وہ تصویریں شائع کیں کہ یہ شر ان مراکز کے بڑے سرچشمے ہیں۔ ایک تصویر دارالعلوم دیوبند کے دارالحدیث کی ہے اور دوسری بستی نظام الدین دہلی کے تبلیغی مرکز کی ہے۔ ہمارے بہت سے دوستوں نے برطانوی اخبار کے اس فیچر پر ناراضگی کا اظہار کیا جبکہ میں نے ان دنوں برمنگھم برطانیہ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس فیچر پر مذکورہ اخبار کا شکریہ ادا کیا کہ میرے نزدیک یہ فردِ جرم نہیں بلکہ تاریخ کا اعتراف ہے کہ مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اس کے مقابلے میں سب سے بڑا مورچہ دارالعلوم دیوبند ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے دارالعلوم اور اکابر دیوبند کا بڑی تفصیل کے ساتھ تذکرہ کرتے ہوئے ان کی خدمات پر روشنی ڈالی اور خراجِ تحسین پیش کیا۔ اور عہد کیا کہ ہم اپنے اکابر کے دینی، علمی، فکری اور سیاسی افکار سے راہنمائی لیتے رہیں گے۔ اس موقع پر گوجرانوالہ شہر کے علماء کرام کثیر تعداد میں موجود تھے، جن میں شیخ الحدیث حضرت مولانا داؤد احمد، مفتی جمیل احمد گجر، مولانا محمد جواد قاسمی، چوہدری بابر رضوان باجوہ، مولانا مراد اللہ خان، حافظ امجد محمود معاویہ، حافظ فیصل بلال حسان، مفتی محمد اسلم طارق، مولانا محمد ریاض جھنگوی، بزم شیخ الہند گوجرانوالہ کے مدیر حافظ خرم شہزاد، مولانا پیر احسان اللہ قاسمی، مولانا صبغت اللہ، مولانا فضل الہادی، مفتی محمد نعمان، مولانا نصر الدین خان عمر ،مولانا محمد اسامہ قاسم، عبد القادر عثمان، حافظ شاہد الرحمٰن ، حافظ عبد الجبار، مولانا محمد واجد معاویہ، حافظ محمد بن جمیل خان اور قاری ابوبکر صدیقی سمیت شہر بھر کے علماء کرام اور مذہبی کارکنان کی کثیر تعداد موجود تھی۔
حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی ایک گرانقدر نصیحت
۳ / اگست ۲۰۲۳ء کو بعد نماز مغرب مکی مسجد میاں چنوں ضلع خانیوال میں جمعیت علماء اسلام کے زیراہتمام علماء کرام اور کارکنوں کے تربیتی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ وہ ۱۹۶۲ء سے مسلسل جمعیت علماء اسلام پاکستان کے رکن چلے آ رہے ہیں، ہر نئی رکن سازی میں اس کی تجدید کرتے ہیں، اور اسی کے پرچم کے زیرسایہ دنیا سے رخصت ہونے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے ارشاد سے کیا کہ شیرانوالہ لاہور میں ایک بار علماء کرام اور جماعتی کارکنوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مفتی صاحبؒ نے کہا کہ ہم اپنے تعارف کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ جیسے اکابر کا نام لیتے ہیں۔ ہم ان کا نام لے کر تعارف تو اپنا کراتے ہیں مگر لوگوں نے انہیں نہیں دیکھا اور ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ ان بزرگوں کو ہمارے حوالے سے پہچانتے ہیں کہ جیسے یہ ہیں ان کے بزرگ بھی ویسے ہی ہوں گے۔ مولانا مفتی محمودؒ نے فرمایا کہ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری وجہ سے لوگ ان سے بدگمان نہ ہو جائیں۔ ہم اگر ان بزرگوں کی عزت میں اضافہ کا باعث نہیں بن سکتے تو کم از کم ان کے لیے بدنامی کا باعث تو نہ بنیں۔
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی یہ بات تب سے ذہن سے اس طرح چپکی ہوئی ہے کہ کوئی بھی جماعتی اور ملی کام کرتے وقت خودبخود ذہن کی اسکرین پر ابھرتی ہے اور راہنمائی کا باعث بنتی ہے۔
قادیانی جماعتوں کے حوالے سے حکمتِ عملی پر نظرثانی کی ضرورت
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے دفتر احرار دارالعلوم ختمِ نبوت چیچہ وطنی میں اپنے اعزاز میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قادیانی جب اپنے بارے میں دستوری فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں تو ان کی تمام جماعتوں اور اداروں کو خلافِ قانون قرار دینے کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں رہا ہے۔ اور یہ دستوری عملداری کا لازمی تقاضا ہے جس کے لیے تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو مشترکہ موقف اور لائحہ عمل طے کرنا چاہیے، ورنہ دستور و پارلیمنٹ کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کے بارے میں دستور و پارلیمنٹ کے تاریخی فیصلہ کو نصف صدی گزر رہی ہے، اس پر عملدرآمد کے معاملے میں پائے جانے والے کنفیوژن اور ادھورے پن کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا، اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنی نصف صدی سے چلی آنے والی حکمتِ عملی اور طریق کار پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ ۲۰۲۴ء کے پورے سال کو اس مباحثہ کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے اور اصحابِ فکر و دانش کو دعوت دینی چاہیے کہ ان اسباب کا تعین کریں جو اب تک اس صورتحال کا باعث بنے ہیں، اور دستوری فیصلہ پر صحیح عملدرآمد کے لیے تجاویز مرتب کریں۔
علاوہ ازیں انہوں نے سانحہ باجوڑ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ باجوڑ کا سانحہ کسی ایک جماعت یا طبقہ کے لیے نہیں پوری قوم کے لیے المناک سانحہ اور مستقبل کے حوالے سے وارننگ ہے جس کے پیغام کو بروقت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور سب دینی و سیاسی جماعتوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، یہ بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس کی روک تھام کے لیے قومی معاملات میں بیرونی مداخلت کا راستہ بند کرنا ضروری ہے جو قوم کے تمام طبقات کا فرض اور ذمہ داری ہے۔
مزید برآں انہوں نے شیخ الحدیث مولانا ارشاد احمد (کبیر والا) کی وفات پر اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ حضرت مولانا ارشاد احمد رحمہ اللہ ہمارے محترم بزرگ تھے، ان کی وفات تمام دینی جماعتوں کے لیے صدمہ اور رنج کا باعث ہے۔ ان کی دینی خدمات اور علمی کام نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور تمام لواحقین و تلامذہ کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔
استقبالیہ تقریب میں مفکر احرار الحاج عبد اللطیف خالد چیمہ اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ جبکہ صدارت مقامی صدر احرار چودھری انوار الحق نے کی۔ حکیم حافظ محمد قاسم، حافظ محمد عابد مسعود ڈوگر اور حافظ محمد احسن دانش نے بھی خطاب کیا۔ چیچہ وطنی پریس کلب کے سرپرست اعلیٰ رانا عبد اللطیف کی قیادت میں صحافیوں کے ایک وفد نے مولانا زاہد الراشدی سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کیا۔
آرٹیفیشل ماہرینِ معیشت
گذشتہ دنوں مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ معیشت میں بہتری کے حوالے سے بعض آرٹیفیشل ماہرینِ معیشت کے تبصرے پڑھ کر یہ کہاوت یاد آ جاتی ہے کہ ایک سخت گیر قرض خواہ نے مقروض سے قرض کی واپسی کا پُرزور مطالبہ کیا تو اس نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ خوش ہو جاؤ مسئلہ حل ہونے کو ہے۔ قرض خواہ نے پوچھا وہ کیسے؟ مقروض نے کہا کہ کپاس کی فصل تیار ہے، میں نے گھر کے سامنے کی گزرگاہ کے دونوں طرف کیکر کے درخت اسی لیے لگا رکھے ہیں کہ کپاس کے ریڑھے ادھر سے گزریں گے تو جو کپاس کانٹوں میں پھنس جائے گی اسے جمع کر کے بیچوں گا اور تمہارے قرض ادا کر دوں گا۔ یہ سن کر قرض خواہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ مقروض نے کہا کہ اب تو ہنسو گے ہی، قرض جو واپس ملنے والا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا استحکام
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل علامہ زاہد الراشدی صاحب نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا استحکام سیاسی، نظریاتی، جمہوری، معاشی اور جغرافیائی ہر حوالے سے ہماری قومی ضرورت اور ذمہ داری ہے۔ وطنِ عزیز کو ان حوالوں سے درپیش چیلنجز کا ادراک اور ان کی نشاندہی تمام دینی و سیاسی کارکنوں کا فریضہ ہے۔ اگست کا مہینہ اس قومی ضرورت کی طرف احساس دلا رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسلامی شناخت کے تحفظ، قومی وحدت کے ہر سطح پر اہتمام، جغرافیائی سرحدوں کی سلامتی، سیاسی خلفشار سے نجات، تہذیبی امتیاز کی پہچان و بقا، اور معاشی خودمختاری کے حصول کے لیے بھرپور محنت کی جائے۔ اور اگلی نسل کو اس کے شعور سے بہرہ ور کرنے کے لیے تعلیم، میڈیا، وعظ و خطابت اور لابنگ کے تمام ذرائع استعمال میں لائے جائیں۔ اگر اگست کے وسطی عشرہ کو مخصوص کر کے ان مقاصد کو اجاگر کرنے کے لیے عوامی بیانات، خطبات و دروس اور مضامین و مقالات کے ذریعے بطور خاص محنت کی جا سکے تو اس کارِخیر میں خاصی پیشرفت ہو سکتی ہے۔ اور ’’استحکامِ پاکستان فورم‘‘ ملک بھر کے تمام علمی، دینی اور سیاسی حلقوں سے اس سلسلہ میں خصوصی توجہ کی درخواست کرتا ہے۔
اسلامی نظام سے ہی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو سکتا ہے
متحدہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی صدر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ اسلامی نظام سے ہی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو سکتا ہے، غیر ملکی طاقتیں سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پیارے وطن عزیز میں افراتفری کا ماحول پیدا کر رہی ہیں۔ اسلام کے نام پر پاکستان بنا، جب تک یہاں اسلامی نظام نافذ نہیں ہو گا ہم بحرانوں سے نہیں نکل سکتے۔ اپنے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ ملک میں معاشی استحکام، جرائم کے خاتمہ کے لیے شرعی عدالتوں، سود سے پاک اقتصادی نظام کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ تمام دینی جماعتوں کو پوری یکسوئی کے ساتھ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تحریک شروع کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دیانتدار قیادت اور اسلام آباد کا عادلانہ نظام ہی موجودہ تمام مسائل کا حل ہے۔