انسانی معاشرہ اور مسلم سوسائٹی پر ”مولوی“ کے احسانات

   
۱۱ نومبر ۲۰۰۶ء

میں ان دنوں چند روز کے لیے دوبئی آیا ہوا ہوں اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک پرانے دوست اور ساتھی محمد فاروق شیخ صاحب کے ہاں شارجہ میں قیام پذیر ہوں۔ خیال ہے کہ ۱۳ نومبر کو رات گوجرانوالہ واپس پہنچ جاؤں گا اور ۱۴ نومبر منگل کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ”دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے“ کے عنوان پر منعقد ہونے والی ورکشاپ میں شریک ہوں گا، جو صبح نو بجے سے رات آٹھ بجے تک جاری رہے گی اور اس میں مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی، پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر غلام رسول عدیم اور دیگر اہل دانش کے خطابات کے علاوہ ایک مستقل نشست دینی مدارس کے اساتذہ کی باہمی مشاورت اور تجاویز و آراء کے لیے مخصوص کی گئی ہے اور ان خطابات، تجاویز اور آراء کی روشنی میں مندرجہ بالا عنوان پر ایک رپورٹ مرتب کی جائے گی، جبکہ ۱۵ نومبر بدھ کو مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اسباق کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دوبئی، شارجہ اور عجمان وغیرہ کے اس سفر کے مشاہدات و تاثرات کے بارے میں آئندہ کالم میں کچھ عرض کر سکوں گا، سرِدست ایک مسئلہ پر چند گزارشات پیش کرنا چاہ رہا ہوں۔

آج صبح ایک چینل پر خبریں سن رہا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی ایک فکری نشست سے تحریک کے قائد جناب الطاف حسین کے خطاب کے چند جملے کانوں میں پڑے، جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں اور نظریاتی تحریکوں کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظریاتی تحریکیں اجتماعی مقاصد اور فکری اہداف کے لیے کام کرتی ہیں، جبکہ سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کا بنیادی ہدف اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ انہوں نے جدوجہد کے حوالہ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور سنتِ مبارکہ کا حوالہ دیا اور بتایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تکالیف برداشت کیں، خود محنت کی، مشقت اٹھائی اور جدوجہد کے تمام مراحل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ شریک عمل رہے۔ جناب الطاف حسین نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنتِ مبارکہ کا حوالہ دے کر اپنے خطاب میں اس کا جو نتیجہ نکالا ہے وہ یہ ہے کہ علماء کرام چونکہ ان کے بقول اس سنتِ مبارکہ پر عمل نہیں کر رہے، اس لیے مسلمانوں کو ان کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے اور ان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔

جہاں تک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور سنتِ مبارکہ کا تعلق ہے، جناب الطاف حسین یا کوئی بھی سیاسی لیڈر جب اس کا حوالہ دیتا ہے تو ہمیں اس پر خوشی ہوتی ہے اور میں تو ایسا کرنے والوں کے لیے مسلسل دعاگو رہتا ہوں، اس لیے کہ اس سے آج کے دور میں اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہاں آج بھی راہ نمائی کے لیے سب سے بڑا حوالہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی سیاستدان، دانش ور یا حکمران صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف بھی کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے حوالہ قرآن و سنت سے ہی تلاش کرنا پڑتا ہے اور قرآن و سنت کے کسی ارشاد کو اپنی خود ساختہ تعبیر و تشریح کے ساتھ دلیل کے طور پر پیش کرنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ یہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کا اعجاز ہے، جو آج کے اس دور میں بھی روزِ روشن کی طرح ساری دنیا کو دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کی باقی تمام اقوام راہ نمائی کے بارے میں خدا، رسول اور آسمانی تعلیمات کے حوالہ کو نہ صرف یہ کہ ترک کر چکی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر اسے دقیانوسیت کی علامت قرار دیا گیا ہے اور جدید فکر و دانش کے دعویدار اس کا مذاق اڑانے کو مہذب اور کلچرڈ کہلانے کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں جناب الطاف حسین یا کسی دوسرے سیکولر مسلمان لیڈر کی زبان سے راہ نمائی کے حوالہ کے طور پر قرآن کریم کی کوئی آیت یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد گرامی سننے میں آتا ہے تو دلی خوشی ہوتی ہے۔

البتہ جناب الطاف حسین کے مذکورہ خطاب کے اس پہلو کی تحسین کے ساتھ ساتھ ان کے اس ارشاد کے حوالہ سے دو گزارشات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کا تذکرہ، ان سے راہ نمائی حاصل کرنا اور ان کی پیروی کرنا بہت اچھی بات ہے اور ایک مسلمان کے ایمان کا سب سے اہم تقاضہ ہے۔ لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سینکڑوں مبارک سنتوں پر نظر ڈالی جائے اور ان میں سے جو بات مفید مطلب ہو یا جس سنت سے اپنا پہلے سے طے کردہ کوئی مقصد حاصل ہوتا ہو، اسے الگ کر کے بطور حوالہ اختیار کر لیا جائے اور پھر خود کو اور دوسرے لوگوں کو بھی یہ فریب دیا جائے کہ ہم تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کر رہے ہیں، بلکہ اسوۂ نبویؐ اور سنتِ رسولؐ پر عمل اور اس کی پیروی کا صحیح اور مطلوب طریقہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اور حیات مبارکہ کے مجموعی طرز عمل کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی اور معمولات کو ان کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے اور جہاں اپنا کوئی عمل یا طریقہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل یا طریقہ سے ہٹا ہوا نظر آئے، اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل یا طریقہ کی کوئی نئی تعبیر و تشریح کرنے اور اسے اپنے عمل یا طریقہ کے مطابق دکھانے کی بجائے اپنی غلطی اور کوتاہی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور سنت کو راہنما اور آئیڈیل ماننے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ اسے راہ نمائی کے معاملہ میں فائنل اتھارٹی تسلیم کیا جائے اور اپنے عمل اور معاملات کو اسی کے مطابق بنانے کے لیے سنت اور اسوہ کو تاویلوں اور نت نئی تشریحات کا نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے خود کو بدلنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔

ہمارے پاس جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسوۂ مبارکہ کی تعبیر و تشریح کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت کی صورت میں ایک صحیح معیار موجود ہے، اس لیے ہمیں نہ تو سنت نبویؐ کی تعبیر و تشریح کے لیے کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی خود سے کوئی نئی تعبیر و تشریح اختیار کرنے کی ہمارے پاس کوئی گنجائش یا اتھارٹی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد یا عمل کی جو تعبیر و تشریح صحابہ کرامؓ نے اپنے عمل اور کردار سے کر دی ہے وہی حتمی تعبیر ہے اور اسی کی پیروی دراصل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کی پیروی ہے۔

میں اس سلسلہ کے بیسیوں عملی مسائل میں سے ایک مسئلہ کے حوالہ سے جناب الطاف حسین کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو انہیں ایک ثقافت، تہذیب اور کلچر کا سامنا کرنا پڑا جو اس وقت کی غالب تہذیب تھی، حکمران کلچر تھا اور رولنگ ثقافت تھی، قوت و طاقت اور دولت و حشمت کے تمام وسائل اس کے ساتھ تھے اور اسے معاشرے پر عسکری اور سیاسی بالادستی بھی پوری طرح حاصل تھی، لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بالادست، طاقتور اور غالب تہذیب و ثقافت کو قبول کرنے یا اس کے ساتھ کسی بھی درجہ میں ایڈجسٹمنٹ اور مصالحت کرنے سے انکار کر دیا۔ شرک، سود، زنا، فحاشی، عریانی، جوا، لاٹری، بت پرستی، نجوم پرستی، کہانت، انسان پر انسان کی خدائی اور حکمرانی، ہم جنس پرستی اور شراب نوشی وغیرہ وغیرہ اس تہذیب و ثقافت کے لوازمات تھے، لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی بات کو بھی گوارا نہیں کیا اور اس طاقتور اور بالادست تہذیب و ثقافت کے ساتھ بار گینگ یا کسی بھی درجہ میں ایڈجسٹمنٹ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے مذکورہ بالا تمام اقدار کو نہ صرف یہ کہ یکسر مسترد کر دیا، بلکہ عرب معاشرہ میں ان کا مکمل خاتمہ کر کے یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے کہ ”خدا کی قسم! میں اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا ہوں۔“

آج کی بالادست تہذیب اور حکمران ثقافت کی اقدار و روایات بھی وہی ہیں جن کا ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت موجود و غالب جاہلی تہذیب و ثقافت کے حوالہ سے تذکرہ کیا ہے اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ طاقت و قوت، دولت و حشمت، غلبہ و اقتدار اور قہر و جبر کے تمام وسائل اس بالاتر اور غالب تہذیب و ثقافت کے ساتھ اور اس کی پشت پر ہیں، جبکہ مسلمان اس جاہلیت جدیدہ کا مقابلہ کرتے ہوئے اسی تہذیب و ثقافت پر قائم رہنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سال کی صبر آزما جدوجہد کے ساتھ غالب کیا تھا۔ اس لیے آج کے گلوبل اور عالمی ماحول میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسوۂ حسنہ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کو جاہلی اقدار و روایات پر مبنی مغربی تہذیب و ثقافت کے چنگل سے نکال کر اس تہذیب و ثقافت کی طرف واپس لایا جائے جس کا اَحیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس کا عملی نمونہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں اور خلافت راشدہ کے آئیڈیل دور کی صورت میں تاریخ کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ و موجود ہے۔

جناب الطاف حسین سے دوسری بات ”مولوی“ کے حوالہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ غریب آج ہر طرف سے چاند ماری کا نشانہ بنا ہوا ہے اور کسی شخص کے دانشور اور مفکر کہلانے کا سب سے بڑا معیار یہ بن گیا ہے کہ وہ مولوی کو کتنی گالیاں دے سکتا ہے اور اس کی تضحیک و توہین کے کتنے اسلوب اختیار کر سکتا ہے۔ الطاف حسین صاحب نے بھی یہی روش اختیار کی ہے اور ان کی اس بات کو میں ”مولوی“ کے لیے گالی سے کم تصور نہیں کرتا کہ ”وہ سنتِ رسولؐ پر عمل پیرا نہیں ہے، اس لیے راہ نمائی اور قیادت کا مستحق نہیں ہے۔“ آج کا مولوی بہت گناہ گار ہے اور اپنے دامن میں بے شمار کوتاہیوں اور کمزوریوں کو جمع کیے ہوئے ہے، لیکن دو باتوں کا کریڈٹ آج بھی اس کے پاس، بلکہ صرف اس کے پاس ہے:

  1. ایک یہ کہ وہ انسانی معاشرہ اور مسلم سوسائٹی میں آسمانی تعلیمات اور اسوۂ نبویؐ کی عملداری اور واپسی کا علمبردار ہے اور اس پر کسی درجہ میں کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
  2. اور دوسری بات یہ کہ وضع قطع، لباس، تراش و خراش ، شب و روز کے معمولات، رہن سہن اور عمومی معاشرتی ماحول میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کا کوئی عملی نمونہ کسی درجہ میں اگر کسی کے پاس موجود ہے تو وہ ”مولوی“ کے پاس ہے، جسے وہ طعن و تشنیع اور تحقیر و توہین کی چہار طرفہ سنگ باری کے ماحول میں بھی سینے سے لگائے ہوئے ہے۔

اس لیے آج کی دنیا کے نزدیک ”مولوی“ کا قصور یہ نہیں ہے کہ وہ سنتِ رسولؐ کا تارک ہے، بلکہ اس کا اصل قصور یہ ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا اور اسی کا علمبردار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter