بھٹو گورنمنٹ نے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک جتنے پینترے بدلے ہیں اور سوشلزم، جمہوریت اور اسلام کے نام سے جس طرح عوام کو بے وقوف بنانے کی مسلسل کوشش کی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اس فریب کار گروہ کا آخری حربہ ’’اسلام‘‘ ہے۔ بھٹو صاحب نے لاہور میں ۱۸ اپریل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی اصلاحات کا اعلان کیا، اور دوسرے دن اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ بھٹو صاحب کے اس ’’اسلامی انقلاب‘‘ کی نوید قوم کو سنائی گئی۔ لیکن پاکستان کے باشعور عوام نے تبسم زیر لب کے ساتھ اس پر جس ردعمل کا اظہار کیا اس پر ایک فارسی شاعر کا شعر یاد آ گیا جس نے کہا تھا کہ ؎
من انداز قدت رامی شناسم
بھٹو صاحب اور ان کے حواری ’’اسلامی نظام‘‘ کی طرف اپنی اس پیش قدمی کا ڈھول ابھی پیٹ رہے تھے کہ خود بھٹو صاحب کی کابینہ کے ایک رکن مسٹر یحیٰی بختیار نے غبارے سے ساری ہوا خارج کر دی۔ اور اب بھٹو صاحب کا ’’اسلامی انقلاب‘‘ منہ لٹکائے یحیٰی بختیار صاحب کی عقل کا ماتم کر رہا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ آئین میں ساتویں ترمیم کو سندھ کے ایک معزز قانون دان نے ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور ملک کے معروف قانون دان جناب خالد اسحاق صاحب نے مستغیث کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے عدالتِ عالیہ سے گزارش کی کہ
’’آئین میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے اسلام کی رو سے جو بنیادی حقوق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دیے ہیں انہیں کسی آئینی ترمیم کے ذریعہ منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
خالد اسحاق صاحب کا نکتہ بڑا جاندار تھا جس کا حکومتِ پاکستان کے وکیل اور بھٹو کابینہ کے رکن مسٹر یحیٰی بختیار سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ بالآخر بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور یحیٰی بختیار عدالتِ عالیہ کے سامنے یوں گویا ہوئے کہ
’’آئین کی شق نمبر ۲ میں اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے، وہ ایک رسمی بات ہے۔ اس کا معنٰی یہ نہیں کہ کوئی ایسا قانون بنایا نہیں جا سکتا یا ایسی ترمیم کی نہیں جا سکتی جو اسلام کے منافی ہے۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲۲ مئی ۱۹۷۷ء)