۲۱ اکتوبر کو بعد نماز مغرب جامع مسجد گارڈن ٹاؤن گوجرانوالہ میں درس قرآن کریم کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کا یہ پروگرام جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کی طرف سے درسِ قرآن کریم کے عنوان سے ہے جبکہ اس کے اشتہار میں سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے جمعیت اہل سنت کی سرگرمیوں کا بھی ذکر ہے اس لیے اس حوالہ سے کچھ گزارشات پیش کروں گا کہ جب معاشرہ میں کچھ لوگ کسی اجتماعی آزمائش کا شکار ہو کر بے سہارا ہو جائیں اور ان کو زندگی کا نظام قائم رکھنے کے لیے امداد و تعاون کی ضرورت پڑ جائے تو ملک کے دیگر شہریوں کو کیا کرنا چاہیے اور ان کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، بخاری شریف میں روایت ہے کہ ایک بار عید الاضحٰی کے خطبہ میں نبی کریمؐ نے قربانی کرنے والوں پر یہ پابندی لگا دی کہ تین دن کے بعد کسی کے گھر میں گوشت موجود نہیں رہنا چاہیے، مقصد یہ تھا کہ اپنے لیے ذخیرہ کرنے کی بجائے لوگوں کو کھلا دیں۔ صحابہ کرامؓ نے اس ہدایت پر عمل کیا اور تین دن میں گوشت ختم کر دیا۔ اگلے سال عید الاضحٰی کے موقع پر خطبہ کے دوران کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! کیا پچھلے سال والی پابندی قائم ہے یا ختم ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ پابندی صرف گزشتہ سال کے لیے تھی اب وہ باقی نہیں ہے اس لیے گوشت کھانے اور کھلانے کے ساتھ ذخیرہ بھی کر سکتے ہو۔ پھر آپؐ نے گزشتہ سال والی پابندی کی وجہ بیان فرمائی کہ مدینہ منورہ میں کچھ خاندان مہاجرین کے آ کر آباد ہوئے تھے جو ضرورت مند تھے اس لیے ان کی وجہ سے میں نے پابندی لگا دی تھی کہ ذخیرہ کرنے کی بجائے گوشت ان کو کھلاؤ تاکہ وہ محروم نہ رہیں۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات یہ بھی روایت کا حصہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدریؓ نے گزشتہ سال پابندی کا یہ حکم خود سنا تھا جبکہ اگلے سال پابندی ختم ہونے کے اعلان کے وقت وہ موجود نہیں تھے بلکہ سفر پر تھے جس کی وجہ سے وہ پابندی ختم ہونے کا اعلان نہیں سن سکے تھے۔ چند روز کے بعد سفر سے واپس آئے تو گھر والوں نے گوشت پکا رکھا تھا، پوچھنے پر بتایا کہ قربانی کا گوشت بچا رکھا تھا وہ پکایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ نے کہا کہ اس پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی لگا دی تھی جو میں نے خود سنی تھی، اس لیے میں یہ کھانا نہیں کھاؤں گا۔ گھر والوں نے پابندی ختم ہو جانے کا بتایا تو فرمایا کہ میں اس کی تصدیق کروں گا۔ چنانچہ جب تسلی ہو گئی تب کھانا کھایا۔
یہاں ایک بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ شرعی احکام و مسائل میں فقہی اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک صحابی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات سنی اور اس عمل کو اختیار کر لیا، بعد میں حضورؐ نے وہ حکم تبدیل فرما دیا تو وہ صحابیؓ اس کے بارے میں نہ جان سکے اس لیے وہ اسی سابقہ عمل پر قائم رہے، جبکہ جن حضرات نے دوسرا حکم سنا وہ اس پر عمل پیرا ہو گئے۔ اس طرح ایک مسئلہ میں صحابہ کرامؓ کا عمل مختلف ہو گیا اور فقہی اختلاف کی وجہ بن گیا۔
دوسری بات یہ کہ معاشرہ میں اگر کچھ ضرورت مند افراد اپنی ضروریات خود پوری نہیں کر سکتے تو باقی لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انہیں ضروریات کی فراہمی کا اہتمام کریں، بلکہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ضرورت مند لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باقی لوگوں کو ہدایت کرے، اور وہ اس کے لیے شہریوں پر ضرورت کے مطابق پابندی لگانے کا حق بھی رکھتی ہے۔ البتہ اس کے لیے حکومتی اقدامات کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے بلکہ لوگوں کو ازخود اس کا اہتمام کرنا چاہیے جیسا کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بے گھر اور بے سہارا ہو جانے والوں کے لیے ملک بھر کے دینی و رفاہی اداروں نے رضاکارانہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ رہنی چاہیے کہ اب تک سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کے لیے جو کام ہوا ہے وہ بہت خوش آئند ہے مگر اس کی حیثیت وقتی امداد اور فرسٹ ایڈ کی ہے جبکہ بحالی کا اصل کام ابھی باقی ہے اور وہ چند دن کی بات نہیں ہے بلکہ اس میں کافی عرصہ لگ جائے گا جس کے لیے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو اس کے لیے مسلسل اور مربوط محنت کرنا ہو گی۔
اس قسم کی اجتماعی آزمائشوں میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ یمن سے آ کر مدینہ منورہ میں آباد ہونے والے اشعری قوم کے خاندانوں کی نبی اکرمؐ نے مختلف حوالوں سے تعریف کی ہے۔ ایک تو یہ کہ اشعری حضرات کو فقہاء اور قراء کے نام سے یاد کیا جاتا تھا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں، جبکہ ان میں سے حضرت ابو موسٰی اشعریؓ قرآن کریم کے بڑے قاریوں میں سے تھے جن کی خود حضورؐ نے بھی تعریف فرمائی ہے۔ ایک بار حضرت ابو موسٰی اشعریؓ سے قرآن کریم کی تلاوت سن کر آپؐ نے فرمایا کہ ابو موسٰی! تجھے تو اللہ تعالیٰ نے لحن داؤدی عطا فرما دیا ہے۔ اس خاندان کی ایک اور بات کی بھی نبی کریمؐ نے تعریف فرمائی کہ یہ جب کسی اجتماعی آزمائش کا شکار ہوتے ہیں کہ اور ضروریات زندگی کی کمی کا مسئلہ ہو جاتا ہے تو سب اشعری اپنے اثاثے اکٹھے کر کے آپس میں برابر تقسیم کر لیتے ہیں جس سے ضروریات بھی کسی حد تک پوری ہو جاتی ہیں اور ایک دوسرے پر برتری کا ماحول بھی نہیں بنتا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ مجھے اشعریوں کی یہ عادت اچھی لگتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے کچھ لوگ ضرورت مند اور بے سہارا ہو جائیں تو نارمل زندگی گزارنے اور سہولیات سے بہرہ ور لوگوں کو چاہیے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ شریک کریں اور مل جل کر ایک دوسرے کی ضروریات پوری کریں۔
قرآن کریم نے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کو ان کا حق بتایا ہے، ایک جگہ فرمایا کہ ’’وفی اموالھم حق للسائل والمحروم‘‘ مالداروں کے مال میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔ سائل اس ضرورت مند کو کہتے ہیں جو اپنی ضرورت کا اظہار کر کے سوال کرتا ہے، جبکہ محروم اس شخص کو کہا گیا ہے جو ضرورت مند تو ہے مگر اپنی ضرورت کا اظہار کر کے کسی سے سوال نہیں کرتا۔ اسی طرح ایک جگہ فرمایا ’’واٰت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل‘‘ یتیموں اور قریبی رشتہ داروں اور مسافروں کو ان کا حق دو۔ گویا یہ ان کا حق ہے اور جب اس عمل کے اجر و ثواب کا اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے وعدہ کیا ہے تو یہ ان پر کوئی احسان بھی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو متاثرہ، بے سہارا، ضرورت مند اور مستحق افراد کی امداد اور بحالی کے لیے اپنے اپنے دائرہ میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔