۲۳ جون کا دن کراچی میں گزرا اور خاصا مصروف گزرا۔ مولانا جمیل الرحمن فاروقی اور مولانا مفتی حماد اللہ وحید کے ہمراہ جامعہ اشرف المدارس میں حاضری دی۔ شیخ العلماء حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات پر ان کے فرزند و جانشین مولانا حکیم محمد مظہر اور دیگر حضرات سے تعزیت کی اور حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی قبر پر فاتحہ خوانی اور دعا کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ حکیم صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے دور کے اکابر صوفیاء کرام اور بزرگان دین میں سے تھے۔ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی جوت جگانا ان کا زندگی بھر کا مشن تھا۔ جذب و سلوک کا حسین امتزاج اپنے مزاج میں رکھتے تھے اور ان کی مجلس باغ و بہار کا منظر ہوتی تھی، بعض مجالس میں ان کی صحبت کا فیض اٹھانے کا شرف حاصل کر چکا ہوں اور برس ہا برس گزر جانے کے باوجود ان مجلسوں کی یاد قلب و ذہن میں تازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کے متوسلین و متعلقین کو ان کی حسین یادیں اور روایات تازہ رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
تحریک اسلامی پاکستان نے کراچی میں اس روز اپنے سالانہ اجلاس کی آخری نشست کو پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے عمومی نشست کی حیثیت دے رکھی تھی، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب سید منور حسن، تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر جناب عاکف سعید، تحریک اسلامی پاکستان کے امیر جناب حافظ زاہد حسین کے علاوہ مجھے بھی اس میں اظہار خیال کرنا تھا اور میری کراچی حاضری اسی گفتگو کے لیے خصوصی دعوت پر ہوئی تھی۔ پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک نفاذِ اسلام کی جدوجہد کن مراحل سے گزری ہے اور خود اس جدوجہد پر کیا کیا مراحل گزرے ہیں، ان پر سب نے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی اور اپنے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا۔ اس بات پر سب متفق تھے کہ اس قسم کی مجالس کا وقتاً فوقتاً منعقد ہونا ضروری ہے اور اس امر کا جائزہ لیتے رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ گزشتہ چھ عشروں سے زیادہ عرصہ پر محیط دور میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے موثر طور پر پیش رفت نہ کرنے کے اسباب کیا ہیں اور آئندہ ان اسباب و عوامل سے بچتے ہوئے نفاذِ اسلام کی تحریک کو کامیابی کی طرف گامزن کرنے کے امکانات کیا ہیں؟ اور اس سلسلہ میں دینی جماعتوں کو اپنی ترجیحات میں کیا تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ راقم الحروف نے بہت سی دیگر گزارشات کے ساتھ دو تین معروضات کا پھر سے اعادہ کیا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
- دینی جدوجہد کے حوالہ سے اب تک مختلف مکاتب فکر نے مشترکہ طور پر جو محنت بھی کی ہے وہ کامیاب رہی ہے اور دینی حلقوں کی اجتماعی تحریکی قوت نے ہمیشہ اپنے مقاصد کی طرف پیش رفت کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم عقیدۂ ختم نبوت، ناموس رسالتؐ اور دیگر دینی مقاصد کے لیے جب بھی اکٹھے ہوئے ہیں رد عمل میں ہوئے ہیں اور تحفظات کے حوالہ سے ہم نے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کیا ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم ری ایکشن میں متحد ہونے کے ساتھ ساتھ ایکشن میں بھی متحد ہوں اور نفاذِ اسلام کو مقصد بنا کر مثبت طور پر اس کے لیے تحریک چلائیں۔
- نفاذِ شریعت کے سلسلہ میں قومی یا بین الاقوامی سطح پر جو رکاوٹیں ہیں ان کی نشان دہی ضروری ہے اور سنی سنائی باتوں کی بجائے ٹھوس حقائق کی بنیاد پر رائے عامہ کو اس سلسلہ میں بیدار کرنا اور ان رکاوٹوں سے اجتماعی طور پر نبرد آزما ہونے کا ذوق پیدا کرنا ضروری ہے۔
- نفاذِ اسلام کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد میں مسلسل پسپائی یا بریک کے باعث اس عظیم مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانے کا جو جذبہ پیدا ہوگیا ہے اسے حکمت عملی کے ساتھ صحیح رخ پر لانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانا اور ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول پیدا کرنا شرعاً اور قانوناً کسی لحاظ سے بھی صحیح طرز عمل نہیں ہے، لیکن صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ جن عوامل نے ہتھیار اٹھانے والوں کو اس پر مجبور کیا ہے انہیں سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کو مفاہمت اور حکمت و دانش کے ساتھ صحیح رخ پر لانے کی محنت بھی ضروری ہے، اور غلط طریق کار سے لوگوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ صحیح طریق کار کا عملی اہتمام و اظہار بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
- میری رائے میں نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے، لیکن اس عظیم مقصد کے لیے صرف پارلیمانی سیاست پر قناعت کر لینا بھی صحیح طرز عمل نہیں ہے بلکہ اصل راستہ یہ ہے کہ پارلیمانی سیاست کو قانون ساز اداروں میں اہل دین کی موثر نمائندگی کی حد تک ضروری سمجھا جائے لیکن اس کے ساتھ عوامی دباؤ، تحریکی قوت اور سٹریٹ پاور کا بھی اس حد تک اہتمام کیا جائے کہ ہماری پارلیمانی قوت رائے عامہ کی مضبوط پشت پناہی کے ساتھ قانون ساز اداروں کو نفاذِ شریعت کے لیے قانون سازی پر آمادہ کر سکے۔
تحریک اسلامی پاکستان کی اس فکری نشست میں شرکت کے بعد جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن میں حاضری دی، ہمارے محترم بزرگ اور پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی کچھ دنوں سے علیل اور صاحبِ فراش ہیں، ان کی عیادت کے ساتھ ساتھ مختلف امور پر ان سے تبادلۂ خیالات کیا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے راہ نما مولانا عبد الکریم عابد کا گزشتہ دنوں گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، ان کے مدرسہ جامعہ مدنیہ گلشن اقبال میں حاضر ہو کر ان کی بیمار پرسی کی اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا۔
جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے مہتمم مولانا مفتی محی الدین ہمارے پرانے اور بزرگ ساتھی ہیں، انہوں نے ’’نصرت ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ویلفیئر کا ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے اور اس روز پچھلے پہر بچوں میں وھیل چیئرز تقسیم کرنے کی تقریب تھی جس سے محترم جناب سید منور حسن، پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد، پروفیسر ڈاکٹر سعید اللہ، مولانا مفتی ابو ذر اور مولانا مفتی محی الدین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ یہ تقریب چونکہ مسجد ابوبکرؓ میں منعقد ہو رہی تھی اس لیے میں نے بطور خاص عرض کیا کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کا مزاج اور ذوق یہ تھا کہ جب انہوں نے مکہ مکرمہ کے کفار کے مظالم سے تنگ آکر ایک بار ہجرت کا ارادہ کیا بلکہ پروگرام بنا کر ہجرت کے سفر پر روانہ ہوگئے تو کفار کے ایک قبیلہ بنو قارہ کے سردار ابن الدغنہ انہیں راستے سے یہ کہہ کر واپس لائے کہ آپ جیسے سماجی خدمت گزاروں کا شہر چھوڑ دینا لوگوں کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ ابن الدغنہ نے قریش کے سرداروں کو سمجھایا کہ جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے، محتاجوں کو کما کر کھلاتا ہے، ضرورت مندوں کے کام آتا ہے، بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتا ہے اور ناگہانی حادثات میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے، ایسے شخص کو اس قدر تنگ کیوں کرتے ہو کہ وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔
اس لیے سماجی خدمت جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوق و مزاج تو تھی ہی، آپ کے جانشین حضرت ابوبکرؓ کا ذوق و مزاج بھی یہی تھا۔
کراچی میں تحریک اسلامی پاکستان کی دعوت پر ایک دن کے لیے حاضری ہوئی تھی مگر یہ دوستوں کی محبت و شفقت ہے کہ مختلف دینی مراکز میں متعدد بزرگوں اور احباب کے ساتھ ملاقاتوں اور دینی تقریبات میں شرکت کا شرف حاصل ہوگیا اور ایک مصروف دن گزار کر شام سات بجے لاہور کی طرف پرواز کرگیا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔