ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالٰی کی وفات کی اچانک خبر ملک بھر کے علمی و فکری حلقوں کی طرح میرے لیے بھی بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ میں اس روز ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا۔ ایک روز قبل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہمراہ کلاچی گیا تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہنما مولانا قاضی عبد اللطیف کی وفات کے بعد وہاں نہیں جا سکا تھا، ان کے برادر بزرگ حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب مدظلہ اور دیگر اہل خاندان سے تعزیت کی اور رات کو ہم ڈیرہ اسماعیل خان آ گئے۔ ڈیرہ میں موبائل فون کی سروس سکیورٹی کے عنوان سے ایک عرصے سے بند ہے۔ اپنے پروگراموں سے فارغ ہو کر دوپہر کے وقت ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے روانہ ہوئے تو شہر سے باہر نکلتے ہی موبائل فون کی گھنٹی بجی اور ہمارے گوجرانوالہ کے ساتھی حافظ محمد یحیٰی میر نے اطلاع دی کہ آپ کے اسلام آباد والے دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کر گئے ہیں۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ان سے خبر کا ذریعہ پوچھا تو بتایا کہ ٹیلی وژن کے ایک چینل پر پٹی چل رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک دو دوستوں کو فون کیا تو انہوں نے تصدیق کر دی کہ ڈاکٹر صاحب کا صبح نماز فجر کے وقت انتقال ہو گیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جنازے کے بارے میں بتایا گیا کہ دو بجے اسلام آباد میں ہے۔ اس وقت ایک بجے دن کا وقت تھا، جنازے میں شریک نہ ہو سکنے کا صدمہ بھی ڈاکٹر غازی مرحوم کی اچانک جدائی کے غم کا ساتھی بن گیا۔
ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۳ اکتوبر کو ہمارے ہاں گوجرانوالہ تشریف آوری کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ الشریعہ اکادمی میں ’’دینی مدارس میں تدریس قرآن کریم کی اہمیت اور تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا پروگرام طے تھا جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ تھے اور تاریخ انہی کے مشورے سے طے ہوئی تھی۔ ہم اس سیمینار کی تیاری کر رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی تشریف آوری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ مزید چھوٹے چھوٹے پروگرام بھی ترتیب دے رہے تھے کہ اچانک انہیں مالک حقیقی کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ سارے پروگرام چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے خاندان سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حاصل کی اور دورۂ حدیث دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں کیا۔ ان کے حدیث کے استاذ صوبہ خیبر پختون خواہ کے معروف محدث حضرت مولانا عبد الرحمن المینویؒ اور قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے استاذ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ تھے۔ وہ اپنے استاذ محترم کی طرز پر مختلف یونیورسٹیوں میں چند روز کے اندر دورۂ تفسیر بھی کراتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے نوٹنگھم (برطانیہ) کے جامعہ الہدٰی میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ لیسٹر کے ادارہ اسلامک فاؤنڈیشن میں دس روزہ دورۂ تفسیر قرآن کریم کرانے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرز کے دورۂ تفسیر قرآن کریم کراتے رہتے ہیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں پیشرفت کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے، مگر ان کا اصل تعارف ان کی ڈگریوں کے حوالے سے نہیں، بلکہ ان کے علمی مقام اور دینی و علمی خدمات کے حوالے سے جس نے انہیں دینی و عصری علوم کے ماہرین میں ایک متفق علیہ شخصیت اور معتمد راہنما کے مقام پر فائز کر دیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے ساتھ پہلی ملاقات یاد نہیں، مگر بیسیوں ملاقاتوں کے مناظر ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر غازی مرحوم ہماری دعوت پر گوجرانوالہ تشریف لائے، یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کیا اور تعلیمی نظام میں بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ اس موقع پر انہوں نے جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم میرے علمی و فکری معاملات میں سب سے بڑے مشیر تھے اور ہمارے درمیان امت مسلمہ کے علمی و فکری مسائل پر تبادلہ خیالات اور مشاورت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ لندن میں مولانا محمد عیسٰی منصوری اور مولانا مفتی برکت اللہ کے ساتھ مل کر ہم نے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ قائم کیا جو گزشتہ دو عشروں سے علمی و فکری محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ فورم کا مقصد ملتِ اسلامیہ کو درپیش علمی و فکری مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی تلاش میں کاوشوں کو منظم کرنا ہے۔ اس فورم کی تشکیل اور سرگرمیوں میں ہمیں جن نمایاں علمی شخصیتوں کا تعاون حاصل رہا ہے ان میں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر سید سلمان ندوی، مولانا سید سلمان الحسینی اور مولانا محمد عبد اللہ پٹیل کاپودروی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک بار ہماری دعوت پر برطانیہ کا دورہ بھی کیا اور فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے علاوہ مختلف شہروں میں علمی اور فکری اجتماعات سے خطاب کیا۔
ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ہم نے مغربی ممالک کے لیے اسلامی تعلیمات کے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کرنا چاہا تو ہمیں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا کورس پسند آیا۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب مرحوم دعوہ اکیڈیمی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے نہ صرف بھرپور تعاون کیا بلکہ باقاعدہ معاہدے کی صورت میں اردو اور انگلش نصابات کی کاپیاں فراہم کیں اور سالہا سال تک اس پروگرام کی سرپرستی کرتے رہے۔ یہ کورس جامعۃ الہدٰی نوٹنگھم کے ذریعے کئی سال تک چلتا رہا ہے اور مختلف مغربی ممالک کے ہزاروں لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے اور اب یہ ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے عنوان سے انٹرنیٹ پر موجود ہے اور سینکڑوں افراد اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ جن دنوں اس کورس کے سلسلے میں بات چیت چل رہی تھی، ڈاکٹر صاحب کی جگہ دعوہ اکیڈمی کے نئے ڈائریکٹر جنرل کا تقرر ہو گیا۔ ہمیں بہت پریشانی لاحق ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب سے ہمارے مذاکرات چل رہے ہیں اور نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے مزاج سے ہم واقف نہیں ہیں، پتہ نہیں کہ وہ ہماری ضروریات کے مطابق تعاون کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ میری برطانیہ کے سفر سے واپسی ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے حوالے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اسلام آباد تشریف لائیں۔ میں اسلام آباد گیا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے ایک ڈرافٹ دیا اور کہا کہ اس پر دستخط کریں۔ ان دنوں میں ورلڈ اسلامک فورم کا چیئرمین تھا اور میرے وہاں دستخط ہونے تھے۔ میں نے دستخط کر دیے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ دعوہ اکیڈمی کا منصب چھوڑنے سے پہلے میں نے آپ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے اور مجھے یاد تھا کہ میں نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہ ہمارا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزارتِ مذہبی امور کا منصب سنبھالا تو مجھے بھی تعجب ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس میدان اور ذوق کے آدمی نہیں تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کی حکمتِ عملی سمجھ میں آنے لگی تو میں ان کی ذہانت اور صلاحیتوں کا پہلے سے زیادہ معترف ہوتا گیا اور جب وہ وزارت سے الگ ہوئے تو میں اسلام آباد کے چند علماء کرام کے ساتھ ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا۔ باتوں باتوں میں، میں نے انہیں مبارکباد پیش کی اور شکریہ ادا کیا تو وہ چونکے اور میرے ساتھ جانے والے علماء کرام بھی متعجب ہوئے کہ میں شکریہ اور مبارکباد کس حوالے سے پیش کر رہا ہوں! میں نے عرض کیا کہ دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے جنرل پرویز مشرف کا پروگرام طے پا چکا تھا اور اس پر عملدرآمد کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ڈاکٹر غازی مرحوم نے فائل ورک، پیپر ورک اور بیرونی دوروں کا جال بچھا دیا۔ مختلف مسلم ممالک کے تعلیمی نظاموں کا جائزہ لینے کے لیے وفود جانا شروع ہوئے اور ملک کے اندر مختلف حوالوں سے کمیٹیوں اور مذاکرات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اتنے میں دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کو اپنی صف بندی اور موقف و پالیسی میں یکسانیت پیدا کرنے کا موقع مل گیا اور وہ متحد ہو کر رائے عامہ کی قوت کے ساتھ سامنے آ گئے جس سے دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کا پروگرام آگے نہ بڑھ سکا۔ میں نے کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو اس کامیاب حکمتِ عملی پر مبارک باد دے رہا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔ یہ سن کر ڈاکٹر غازیؒ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ صرف آپ میری اس حکمتِ عملی کو سمجھ سکے ہیں ورنہ اسلام آباد کے علماء کرام تو مجھے ابھی تک برا بھلا ہی کہہ رہے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے کچھ عرصہ قبل بڑے دینی مدارس میں تخصصات کے نصابات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنائی اور مجھے اس کا مسئول بنایا تو میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے مشورہ ضروری سمجھا۔ انہوں نے نہ صرف متعدد مفید مشوروں سے نوازا بلکہ ایک باقاعدہ رپورٹ دینی مدارس کے تخصصات کے بارے میں تحریر کی جو ماہنامہ الشریعہ میں شائع ہو چکی ہے، مگر بدقسمتی سے یہ اہم کام جو بتدریج آگے بڑھ رہا تھا، وفاق المدارس کی بیورو کریسی کی داخلی مصلحتوں اور ترجیحات کی نذر ہو کر معطل پڑا ہے۔
آخری ملاقات چند ماہ قبل اسلام آباد میں ان کی رہائشگاہ پر ہوئی جب میں گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے پراجیکٹ کے حوالے سے ان سے مشورے کے لیے گیا۔ ربع صدی قبل شروع کیا جانے والا ہمارا یہ پراجیکٹ مختلف وجوہ کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ زمین کا ایک بڑا رقبہ اور تین چار بلڈنگیں موجود تھیں۔ ہم دس پندرہ سال کے تعلیمی پروگرام میں اتار چڑھاؤ کے بعد یہ طے کر چکے تھے کہ اب مزید اس کام کو آگے بڑھانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے جن حضرات سے مشاورت ہوئی ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سرفہرست تھے۔ ہم ان کے پاس یہ تجویز لے کر گئے تھے کہ اگر یہ جگہ اور بلڈنگیں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے کسی منصوبے میں کام آ سکتی ہوں تو وہ اس کے لیے ہماری مدد کریں۔ انہوں نے اس سے اتفاق کیا مگر کہا کہ پہلے کراچی کے کسی بڑے دینی ادارے سے بات کر کے دیکھ لیں، وہ زیادہ بہتر رہیں گے۔ اگر وہاں بات نہ بن سکی تو پھر میں آپ حضرات کی تجویز پر پیشرفت کر سکتا ہوں۔ نام بھی تجویز کیا کہ اگر دارالعلوم کراچی تیار ہو تو زیادہ بہتر ہوگا مگر وہ شاید ایسا نہ کریں، اس لیے جامعۃ الرشید سے بات کر لیں، وہ سنبھال بھی لیں گے اور بہتر انداز میں کوئی تعلیمی پروگرام بھی منظم کر لیں گے۔ یہ بات ایک آپشن کے طور پر ہمارے ذہن میں بھی تھی، ڈاکٹر صاحب کی تائید سے پختہ ہو گئی۔ ہم نے جامعۃ الرشید سے بات کی اور انہوں نے جگہ اور بلڈنگیں سنبھال کر ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے تعلیمی پروگرام کا آغاز گزشتہ سال شوال سے کر دیا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کے صدقات جاریہ میں سے ہے اور اس تعلیمی پروگرام کے اجر و ثواب میں وہ مسلسل شریک رہیں گے۔
اسی دوران ڈاکٹر صاحب مرحوم سے میری ایک ملاقات دارالعلوم اسلامیہ کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں دینی مدارس کے اساتذہ کے تربیتی پروگرام میں ہوئی جس میں مختلف امور پر باہمی تبادلہ خیالات ہوا۔ میرا بیان ظہر سے قبل ہو چکا تھا مگر میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات اور ان کا خطاب سننے کے لیے مغرب تک رکا۔ اب یہ میرے ذہن میں نہیں ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں سے پہلے کون سی ہوئی اور دوسری کون سی، مگر یہ ہماری آخری دو ملاقاتیں ہیں جن کی یاد ہمیشہ ذہن میں تازہ رہے گی۔
ایک دفعہ خبر ملی کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ڈاکہ پڑ گیا ہے اور رات کے وقت ڈاکوؤں نے غازی صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر غزالی پر تشدد بھی کیا ہے۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر ڈاکو کیا لینے آئے تھے۔ مجھے تو معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں کیا ہو گا۔ جب میں ڈاکٹر صاحب سے ملا تو ان سے معاملہ دریافت کیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب! ان کو کس طرح حوصلہ ملا کہ آپ کے گھر میں کوئی چیز مل سکتی ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اصل میں ان ڈاکوؤں کو مغالطہ لگ گیا، وہ اس طرح کہ جب بھی مجھے کسی دوسرے ملک میں کسی پروگرام میں جانا ہوتا ہے تو وہاں سے کوئی نہ کوئی تحفہ یا اعزاز ملتا ہے اور وہ جن ڈبوں میں بند ہوتے ہیں وہ زیورات کے ڈبوں کی طرح سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ میرے گھر میں ڈھیروں پڑے ہوئے ہیں اور تین چار الماریاں بھری پڑی ہیں۔ کسی آنے جانے والے کو مغالطہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر اتنا زیور ہے۔ وہ مغالطہ ڈاکوؤں کو یہاں لے آیا اور بے چارے غزالی پر تشدد کر کے چلے گئے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کو عام طور پر یونیورسٹی کی دنیا کا آدمی سمجھا جاتا رہا ہے حالانکہ وہ اصلًا دینی مدارس کے ماحول کے آدمی تھے اور جدید تعلیم کی دنیا میں روایتی دینی حلقوں کی بھرپور اور کامیاب نمائندگی کر رہے تھے۔ جدید ماحول میں آج کے اسلوب اور اصطلاحات میں دینِ اسلام اور امتِ مسلمہ کے روایتی اور اجماعی موقف کے جس کامیابی اور اعتماد کے ساتھ وہ نمائندگی کرتے تھے، مجھے اس معاملے میں اس حوالے سے بلا مبالغہ ان کا کوئی ثانی دکھائی نہیں دے رہا۔ علمی محاذ پر بہت سی شخصیات ان پر تفوق رکھتی ہیں، لیکن علم کے صحیح اور بروقت استعمال اور علم و فکر میں توازن کے حوالے سے وہ اپنے معاصرین میں سب سے نمایاں تھے۔ ڈاکٹر صاحب دینی اور عصری علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ عربی اور انگلش سمیت نصف درجن کے لگ بھگ زبانوں میں قادر الکلام تھے اور تحریر و تقریر پر ان کی مکمل دسترس تھی۔ بے پناہ مطالعہ اور تجزیہ و تنقیح کی اعلٰی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کی گہرائی تک اترتے اور اس کا قابل عمل حل نکالتے تھے۔ نامساعد حالات میں بھی اعتماد اور خوش اسلوبی کے ساتھ کام کرنے اور اپنا کام کر گزرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں اسلام کی نمائندگی اور جمہور اہلِ علم کے موقف کی ترجمانی کے لیے پوری دنیائے اسلام میں گنتی کے جن چند حضرات کا نام لیا جا سکتا تھا، ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی تھا۔ کسی سطح کی کانفرنس ہو اور کوئی بھی موضوع ہو، وہ پورے اعتماد، حوصلے اور جرأت کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کرتے تھے۔ اور مطالعہ اور گفتگو کے عصری اسلوب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ فکر و دانش کی کوئی بھی سطح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔
ڈاکٹر غازی مرحوم کے علمی تبحر، مطالعہ کی وسعت اور دینی و عصری تقاضوں کے مکمل ادراک کے ساتھ ساتھ مجھے ان کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ موقع و محل کے مطابق محفل کی ذہنی سطح کا لحاظ کرتے ہوئے مؤثر اور ثمرآور گفتگو کی صلاحیت تھی۔ اور اس کے علاوہ ان کی سادگی، انکساری اور درویش مزاجی تھی جو ان کے حلقۂ احباب میں ان کی مقبولیت کا باعث تھی۔ میرا احساس ہے کہ وہ اپنی علمی سطح اور منصبی مقام کو سامنے رکھتے ہوئے پروٹوکول کے تکلف میں پڑے رہتے تو شاید اتنے زیادہ لوگ ان سے علمی استفادہ نہ کر پاتے۔ میرے خیال میں پروٹوکول کا تکلف علمی دنیا میں استفادہ اور افادہ دونوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور میں اس سلسلہ میں امام ابویوسفؒ کے اس قول کا اکثر حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایک غریب اور معمولی خاندان کا فرد ہوتے ہوئے علم و فضل کے اس قدر بلند مقام تک کیسے پہنچے ہیں تو فرمایا کہ ’’ما استنکرت من الاستفادۃ وما بخلت بالافادۃ‘‘۔ میں اس کا اپنی زبان میں ترجمہ یوں کیا کرتا ہوں کہ ’’علم کے حصول اور فروغ میں میرا کبھی کوئی پروٹوکول نہیں رہا‘‘۔ میں نے ڈاکٹر غازی مرحوم کو حضرت امام ابو یوسفؒ کے اس ارشاد کا عملی مصداق پایا ہے اور کم و بیش دو عشروں تک اس کا مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ میرا تعلق مخلص بھائیوں اور بے تکلف دوستوں والا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے بڑے بھائی کا احترام دیا اور میرے لیے ہمیشہ وہ سب سے زیادہ معتمد اور مخلص مشیر ثابت ہوئے۔ وہ اپنی زندگی پوری وضعداری کے ساتھ گزار کر چل دیے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں ان کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ رات کو ان کو دل کا دورہ پڑا، وہ فجر تک ہسپتال میں رہے، فجر کے وقت ہوش میں آئے تو نماز کا وقت پوچھا اور یہ معلوم کر کے کہ فجر کا وقت ہو گیا ہے، نماز فجر ادا کی اور اس کے چند لمحوں بعد جان جاں آفرین کے سپرد کر دی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ رسم و محاورہ کی بات نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ ہم اپنے دور کی ایک بڑی علمی شخصیت اور معتمد فکری راہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، آخرت کی منزلیں آسان فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔