جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں قائد جمعیۃ مفتی محمود کا خطاب

   
۱۳ دسمبر ۱۹۷۴ء

قائد جمعیۃ علماء اسلام حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں یکم دسمبر کو صبح ۹ بجے کارکنوں، علماء اور طلبہ کے ایک بھرپور اجلاس سے خطاب کیا۔ اجلاس کی صدارت ضلعی امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان نے فرمائی۔

قائد جمعیۃ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کارکنوں پر زور دیا کہ آپ لوگ صبر و استقلال اور جرأت و ہمت کے ساتھ ظلم و جبر کا مقابلہ کریں اور اپنی صفوں کو زیادہ سے زیادہ منظم کریں، کیونکہ آپ ہی ایک ایسی قوت ہیں جو اس وقت معاشرہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

آپ نے کہا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی، معاشرتی، معاشی اور دینی نقطۂ نظر سے ملک کی حالت دگرگوں ہو چکی ہے۔ جھوٹ، بد دیانتی اور ہوسِ زر کی لعنت عام ہو چکی ہے، حلال و حرام کی تمیز اٹھ گئی ہے، اور معاشرتی خرابیاں دن بدن اپنی جڑیں مضبوط کرتی جا رہی ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں میں صرف آپ کی جماعت یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ منظم جدوجہد اور سعئ پیہم کے ساتھ معاشرہ کے اس بگاڑ کو درست کر سکے۔

مفتی صاحب نے فرمایا، ضلع گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کے بے شمار ساتھی ہیں، یہاں رضاکاروں کی مضبوط تنظیم تھی، لیکن آج تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے سب کچھ نظر نہیں آ رہا۔ میں جمعیۃ کے ایک ذمہ دار عہدہ دار کی حیثیت سے آپ سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ نے اور آپ کے ضلع کے عہدیداروں نے اب تک ضلع میں جمعیۃ کی تنظیم کے لیے کتنا کام کیا ہے؟ اب بھی میں یہ عرض کروں گا کہ ذمہ دار حضرات سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ کام کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، اپنا محاسبہ کریں، اور ضلع میں جمعیۃ کو از سر نو منظم کرنے کے لیے کام کریں۔

آپ نے کہا، میں یہ تو نہیں سمجھتا کہ آپ لوگوں کی حالات پر نظر نہیں ہے، اور آپ کا دل معاشرہ میں پھیلی ہوئی خرابیوں سے دکھتا نہیں، لیکن اتنی بات ضرور ہےکہ آپ نے عمل چھوڑ دیا ہے۔ آپ کی ضلعی، تحصیلی اور ابتدائی تنظیمیں معطل ہو گئی ہیں۔ آپ کام نہیں کرتے، آپ کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ لوگ اصلاحِ احوال کے لیے مؤثر کردار ادا نہ کر سکیں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید بعض حضرات نے مایوس ہو کر کام ترک کر دیا ہے۔ لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ حالات کو درست کر لینا ہمارے ذمہ نہیں، یہ خدا کا کام ہے، ہم نے تو اپنا فرض ادا کرنا ہے، نتائج خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا ایک بہانہ بنانا ہے کہ یااللہ حالات کی اصلاح کے لیے اپنی طاقت اور وسائل کے مطابق ہم نے جدوجہد کی ہے، حالات کو بدلنا ہمارے اختیار میں نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں حالات اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے اور مایوسی کے اندھیروں سے نکل کر اپنے آپ کو ایک منظم جماعت کی حیثیت سے میدانِ عمل میں لانا چاہیے۔

مفتی اعظم نے فرمایا، آج گھروں حجروں میں بیٹھ کر حالات کی خرابی کا ماتم کرنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ وقت، مال اور جان کی قربانی دے کر ظلم و جبر، بے حیائی اور برائی کے خلاف نیکی کی قوتوں کو منظم کرنے سے فرض ادا ہو گا۔

آپ نے قادیانیت کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کے فیصلہ کو ’’قومی اتحاد‘‘ کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض چاپلوس لوگ اسے مسٹر بھٹو کا کارنامہ کہہ کر انہیں محافظِ ختمِ نبوت کا خطاب دے رہے ہیں، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ مسٹر بھٹو کا کارنامہ نہیں بلکہ قومی اتحاد، علماء و طلباء کی جدوجہد اور تاجروں کے ایثار کی وجہ سے بھٹو صاحب مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔

مفتی صاحب نے کہا، اگر مسلسل جدوجہد کے بعد عوام کا مطالبہ تسلیم کرنے کا کریڈٹ بھی حکمران کو ملتا ہے تو ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کا کریڈٹ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم مسٹر ریٹلے، اور الجزائر کی آزادی کا کریڈٹ مسٹر ڈیگال کو ملنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کارنامہ بھٹو کا نہیں بلکہ عوامی اتحاد کا ہے۔ پھر اگر قادیانی مسئلہ حل کرنے کا سہرا مسٹر بھٹو کے سر پر ہے تو میں یہ پوچھتا ہوں کہ تحریکِ ختمِ نبوت کے کارکنوں پر جبر و تشدد، علماء اور طلباء کی گرفتاریاں اور مقدمات کا سہرا کس کے سر پر ہے؟ ایک سر پر یہ دونوں سہرے کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟

مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم مسٹر بھٹو کو قادیانی مسئلہ کے حل پر اس وقت مبارکباد دیں گے جب اس فیصلہ پر عمل ہو گا۔ کیونکہ اب تک اس فیصلہ کو کوئی عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ اور قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے برطرف کرنے کی بجائے حال ہی میں ایک مشہور قادیانی کو بریگیڈیئر کے عہدہ سے ترقی دے کر جنرل بنا دیا گیا ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے قوانین میں ضروری ترامیم ابھی تک نہیں ہوئیں۔ قادیانی اسلام کے نام پر تبلیغ کر کے اور پارلیمنٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کر کے پارلیمنٹ کا کھلم کھلا مذاق اڑا رہے ہیں، دستور سے بغاوت کر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی۔

آپ نے کہا، ابھی صرف ایک اصولی فیصلہ کے سوا کچھ نہیں ہوا، عمل کا مرحلہ ابھی باقی ہے، اس لیے ہمیں بیدار رہ کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ اس وقت اس اتحاد کو توڑنے اور شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی کی بنیاد پر لڑائی کرانے کے لیے بے حساب روپیہ صَرف ہو رہا ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت اختلافات کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت نے شیعہ سنی نصابِ دینیات کا مسئلہ اس وقت صرف اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے، حالانکہ یہ خالص صوبائی مسئلہ ہے، مرکزی حکومت کا اس میں کوئی دخل نہیں، اور نہ ہی وفاقی حکومت کمیٹی مقرر کرنے کی مجاز ہے، لیکن اس کے باوجود مرکزی حکومت اس مسئلہ کو ہوا دے رہی ہے۔ آپ نے کہا، اس اتحاد کو توڑنے کے لیے مسلسل محنت ہو رہی ہے، اس لیے آپ صبر اور حوصلہ سے کام لیں، معمولی سی باتوں کو نہ اچھالیں اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اپنے اتحاد اور اتفاق کو برقرار رکھیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter