مکالمہ بین المذاہب اور اس کے راہنما اصول

   
تاریخ: 
۱۹ اگست ۲۰۱۱ء

۱۹ اور ۲۰ اگست کو نماز فجر کے بعد صفہ اسلامک اسکول گوجرانوالہ میں ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے عنوان پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، اس کے ایک حصے کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکالمہ بین المذاہب کے عنوان سے اس وقت دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر اور متعدد دائروں میں گفتگو ہو رہی ہے۔ آج کی نشست میں صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مختلف مذاہب کے راہنماؤں کے ساتھ جو مکالمات ہوئے ان کا تذکرہ قرآن و حدیث میں موجود ہے، ان میں سے چند مکالمات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وحی کے نزول کے بعد اعلان نبوت کیا اور لوگوں کو توحید اور قرآن کریم کی طرف دعوت دی تو مشرکین کے ردعمل کا پہلا دور یہ تھا کہ انہوں نے طعنہ زنی، الزامات اور افتراءات کے ذریعے اس دعوت کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ جادوگر، مجنوں، کاہن، شاعر اور طرح طرح کے الزامات اور طعنوں کے ذریعے آنحضرتؐ کو خوفزدہ اور ناکام کرنے کی مہم چلائی گئی۔ مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی تو پھر نبی کریمؐ اور آپ کے ساتھیوں کو اذیتیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جو کم و بیش ایک عشرے تک چلتا رہا اور اس میں اذیت اور تکلیف دہی کا ہر حربہ آزمایا گیا جس کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اور جب اس میں بھی ناکامی ہوئی اور طعن و تشنیع اور جبر و اذیت کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا گیا تو ایک وقت آیا جب مشرکین مکہ نے اسلام اور مسلمانوں کا وجود تسلیم کرتے ہوئے مصالحت و مفاہمت کی پیشکش کی جسے قرآن کریم نے ’’ودوا لو تدھن فیدھنون‘‘ (القلم ۹) سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مشرکین مکہ کے سرکردہ سرداروں کا ایک بڑا وفد جناب رسول اکرمؐ کے چچا محترم جناب ابو طالب کے پاس آیا اور ان کی موجودگی میں آنحضرتؐ کو پیشکش کی کہ آپ ہمارے بتوں کی نفی کرنا چھوڑ دیں اور ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظہار اور نماز و قرآن کریم میں بھی آپ کے ساتھ شریک ہو جایا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن کریم میں سورۃ الکافرون کی شکل میں دلوایا جس کا دوٹوک مطلب یہ ہے کہ عقیدہ اور توحید پر سمجھوتا نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے معاملے میں کوئی لچک ممکن نہیں ہے۔ یہ مشرکین مکہ کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کے مکالمے کی ایک صورت تھی۔

قرآن کریم نے مذہبی معاملات میں مشرکین مکہ کے ایک مطالبے کا ذکر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم بہت سخت ہے، اسے تبدیل کر دیں یا کم از کم اس میں کچھ ردوبدل کریں۔ سورۃ یونس کی آیت ۱۵ میں اس کا ذکر ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرمؐ کو اس مطالبے کا یہ جواب دینے کی ہدایت فرمائی ہے کہ مجھے قرآن کریم میں اپنی طرف سے کسی ردوبدل کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں ہے اور میں صرف اس وحی کا پابند ہوں جو میری طرف نازل کی گئی ہے۔

مسیحیوں کے ساتھ ہمارا پہلا مکالمہ حبشہ کے بادشاہ اصحمہؓ کے دربار میں ہوا تھا جب مکہ مکرمہ کے قریش سرداروں کی اذیتوں سے مجبور ہو کر صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت ہجرت کر کے وہاں چلی گئی تھی۔ اور قریش نے (حضرت) عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) کی قیادت میں ان کے تعاقب میں وفد بھیج کر شاہِ حبشہ سے ان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس موقع پر قریش کے نمائندے عمرو بن العاص اور مسلمانوں کے قائد حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کے درمیان شاہِ حبشہ کے دربار میں جو مکالمہ ہوا اس میں حضرت جعفر طیارؓ نے حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدے کی قرآن کریم کے ذریعے وضاحت کی۔ اس صاف گوئی اور سچائی سے متاثر ہو کر شاہِ حبشہ اصحمہؓ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ بھی مکالمہ بین المذاہب کی ایک صورت تھی۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کے تین قبائل آنحضرتؐ کے انتظار میں تھے۔ بنو قینقاع، بنو نظیر اور بنو قریظہ۔ تینوں یہودی قبائل تھے جو اس سے پہلے پیغمبر آخر الزمان کا نام لے کر اور ان کا حوالہ دے کر دشمنوں پر رعب جمایا کرتے تھے اور نبی آخر الزمانؐ کی برکت سے جنگوں میں فتح کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہودیوں نے آپؐ کو پہچاننے کے باوجود آپؐ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دشمنی پر اتر آئے۔ تاریخ کا عجیب سا سوال ہے کہ جب مدینہ منورہ کے یہودی پیغمبر آخر الزمانؐ کا انتظار کر رہے تھے اور تشریف آوری پر پہچان بھی لیا تھا تو پھر انکار کیوں کر دیا؟ اس سوال کا جواب ہمیں قیصرِ روم اور (حضرت) ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے اس مکالمے میں ملتا ہے جو بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور جس میں قیصر روم نے صاف طور پر کہا تھا کہ ابو سفیان نے میرے سوالات کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اگر یہ درست ہے تو حضرت محمدؐ واقعتاً نبی ہیں، مجھے بھی پیغمبر آخر الزمان کا انتظار تھا اور لگتا ہے کہ یہ وہی نبی ہیں، لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ آخری پیغمبر عرب کے بدوؤں میں پیدا ہو جائیں گے۔ گویا بنی اسرائیل کی طرف سے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی، آنحضرتؐ کے انکار اور آپؐ کو قبول نہ کرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ آپؐ عربوں میں پیدا ہوئے تھے اور بنی اسرائیل کے لیے نسلی عصبیت کی وجہ سے عربوں میں پیدا ہونے والے نبی آخر الزمان کو قبول کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

یہود کے ساتھ آنحضرتؐ نے ان کے انکار اور دشمنی کے باوجود بقائے باہمی کی بنیاد پر ’’میثاق مدینہ‘‘ کی صورت میں اکٹھے رہنے کا معاہدہ کر لیا تھا۔ اس بقائے باہمی کا فیصلہ میثاق مدینہ کی تشکیل بھی مکالمہ بین المذاہب کی ایک عملی شکل تھی۔ اس کے علاوہ یہودیوں کے ساتھ مذہبی معاملات پر باہمی گفتگو کے بارے میں مختلف روایات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جن میں خاص طور پر وہ روایت قابل ذکر ہے جس میں تورات میں زنا کی سزا کے بارے میں یہودی علماء کے ساتھ جناب رسول اکرمؐ کی گفتگو کا ذکر کیا گیا ہے۔

مسیحیوں کے ساتھ ہمارا اس دور کا سب سے بڑا مکالمہ نجران سے آنے والے مسیحی علماء و مشائخ کے ساتھ جناب رسول اکرمؐ کی گفتگو ہے۔ انہیں آنحضرتؐ نے پورے اعزاز اور پروٹوکول کے ساتھ مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور کئی روز تک ان سے توحید خداوندی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عبدیت پر گفتگو ہوتی رہی جو کسی نتیجے تک نہ پہنچی تو مباہلہ کی نوبت آگئی۔ مگر جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے مباہلہ کی دعوت کو مسیحی علماء نے قبول نہ کیا اور جزیہ و ماتحتی پر معاہدہ کر کے وہ واپس نجران چلے گئے۔ اس مکالمے کی خاص بات جس کا ذکر کرنا چاہوں گا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے حوالے سے قرآن کریم میں اہل کتاب کے ساتھ مکالمے کے لیے اس واضح اصول کا اعلان کر دیا کہ اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ (۱) اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا (۲) اور انسانوں پر انسانوں کی خدائی کی نفی، یہ دو باتیں آسمانی مذاہب کے درمیان قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں، ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اور اہل کتاب کو یہ دو اصول بہرحال قبول کرنا ہوں گا۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں مختلف مذاہب کے ساتھ مکالمے اور گفتگو کے چند واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، آج بھی ہمارے لیے اس معاملے میں یہی راہنما اصول ہیں، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۲ اگست ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter