جرمن پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے ارکان ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون سے ملاقات کر کے دیگر امور کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون میں ترمیم کی جائے اور اس جرم کی سزا کو کم کیا جائے۔ جرمن پارلیمنٹ کی اس کمیٹی کے ارکان کرسٹاکلز انجلیکا گروف اور اردگارڈ بچور نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کی وزیر قانون نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون میں ترمیم کر دی جائے گی۔
پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے مطابق توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون نافذ ہے جس پر ایک عرصہ سے مغربی حلقوں کی طرف سے اعتراض کیا جا رہا ہے کہ انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کی رو سے یہ سزا آزادی رائے اور شہری حقوق کے منافی ہے اس لیے اس سزا کو ختم کیا جائے۔ مگر پاکستان کے عوام اس مسئلہ پر ملک گیر ہڑتال کر کے یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ ان کے عقیدہ و ایمان کا مسئلہ ہے اس لیے اس قانون میں کوئی ترمیم برداشت نہیں کی جائے گی۔
اس سلسلہ میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے میں جرمنی بھی پیش پیش ہے۔ چند سال قبل ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں رتہ دوہتڑ میں توہین رسالت کے مرتکب مسیحی ملزمان کو جرمنی لے جا کر سیاسی پناہ دینے کی کارروائی بھی جرمن حکومت نے خصوصی انتظامات کے تحت کی تھی اور جرمن چانسلر نے اس موقع پر خود پاکستان کا دورہ کر کے توہین رسالت کی سزا کے قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی پس منظر اور تسلسل میں جرمن پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے ارکان پاکستان آئے ہیں اور انہوں نے اس مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا ہے جس پر ان کے بقول پاکستان کے وزیر قانون نے قانون میں ترمیم کا وعدہ بھی کر لیا ہے۔ یہ ترمیم کیا ہو گی اور کیسے نافذ کی جائے گی، اس کے بارے میں تو وفاقی وزیر قانون ہی زیادہ بہتر طور پر وضاحت کر سکیں گے۔
البتہ اس موقع پر ہم توہین رسالت کے بارے میں مسلمانوں کے جذبات کے حوالہ سے قرن اول کا ایک واقعہ عرض کرنا چاہتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس مسئلہ پر مسلمانوں کے احساسات کیا ہیں۔ یہ واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا ہے اور بخاری شریف میں مذکور ہے جس کی کچھ تفصیلات بخاری کے شارح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کی ہیں اور انہی کی روشنی میں اس واقعہ کا خلاصہ درج کیا جا رہا ہے۔
جناب رسول اللہ کی مخالفت اور توہین میں یہود میں سے دو آدمی پیش پیش رہتے تھے۔ ایک کعب بن اشرف تھا جو مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھا، اور دوسرا ابو رافع تھا جو خیبر میں رہتا تھا۔ انصار مدینہ کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ چنانچہ بنو اوس کے نوجوان صحابی محمد بن مسلمہؓ نے اپنے دیگر رفقاء کے ہمراہ جناب نبی اکرمؐ کی اجازت سے گستاخ رسول کعب بن اشرف کو جہنم رسید کیا تو بنو خزرج کے نوجوانوں کو بھی جوش آیا کہ ہم اس کارخیر میں بنو اوس سے کیوں پیچھے رہیں؟ انہوں نے ابو رافع کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور آنحضرتؐ سے اجازت لے کر اس مہم پر روانہ ہو گئے۔ اس مہم میں جن صحابہ کرامؓ نے حصہ لیا ان میں عبد اللہ بن عتیکؓ، عبد اللہ بن عتبہؓ، مسعود بن سنانؓ، عبید اللہ بن انیسؓ، ابو قتادۃؓ اور اسود بن حرامؓ کے نام مختلف روایات میں بیان کیے گئے ہیں۔
عبد اللہ بن عتیکؓ واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابو رافع نے خیبر سے باہر حجاز کی زمین کی طرف ایک قلعہ بنا رکھا تھا جس میں وہ رہتا تھا۔ ہم اس قلعہ تک پہنچے، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کسی جگہ ٹھکانہ بنا کر موقع کا انتظار کریں، میں قلعہ کے اندر داخل ہونے کی کوئی صورت نکالتا ہوں۔ باقی ساتھیوں کو ایک جگہ بٹھا کر میں قلعہ کے بڑے دروازے کی طرف گیا، شام کا وقت تھا، لوگ باہر سے قلعہ میں داخل ہو رہے تھے اور چند افراد ایک گدھے کو تلاش کر رہے تھے جو گم ہو گیا تھا۔ میں بھی ان میں شامل ہو گیا۔ جب ہم دروازے کے قریب پہنچے تو مجھے خطرہ ہوا کہ دربان مجھے اجنبی سمجھ کر روک نہ دے، تو میں پیچھے ہٹ کر کچھ فاصلے پر چادر لپیٹ کر اس انداز سے بیٹھ گیا جیسے کوئی قضائے حاجت کے لیے بیٹھا ہو۔
دربان کو دروازہ بند کرنے کی جلدی تھی، اس نے آواز دی کہ جس نے قلعہ میں جانا ہو جلدی آ جائے میں گیٹ بند کرنے لگا ہوں۔ میں تیزی سے اٹھا اور دروازے سے اندر چلا گیا، دروازے کے اندر ایک جانب جانوروں کے باندھنے کی جگہ تھی میں وہیں گھس کر چھپ گیا اور دربان پر نظر رکھی جو گیٹ بند کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دربان نے دروازہ بند کر کے تالا لگایا اور چابیاں سامنے دیوار کے ایک خانے میں کھونٹے پر لٹکا دیں۔ میں نے وہیں سے قلعہ کے اندر کی صورتحال کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ ابو رافع کا ٹھکانہ ایک بالاخانے میں ہے اور چند لوگ اس کی طرف اوپر جا رہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہاں رات کو کھانے کے بعد گپ شپ کی مجلس جمتی ہے، کچھ دیر انتظار کیا اور جب لوگ مجلس سے فارغ ہو کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تو میں اٹھا، دیوار کے خانے سے چابیاں اٹھائیں اور سب سے پہلے مین گیٹ کا تالہ کھول دیا تاکہ مجھے بھاگنا پڑے تو آسانی رہے۔ پھر سب لوگوں کے کمروں کے دروازوں کو باہر سے بند کر دیا تاکہ کوئی ابو رافع کی مدد کو نہ آ سکے۔ اس کے بعد میں آہستہ سے بالاخانے کی طرف گیا تو دیکھا کہ اندھیرا ہے اور تاریک کمرے میں ابو رافع اپنے اہل و عیال سمیت سونے کے لیے لیٹ گیا ہے۔ مگر مجھے یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ ان میں ابو رافع کس جگہ پر لیٹا ہوا ہے۔ میں نے آہستہ سے آواز دی جسے سن کر ابو رافع نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں کوئی جواب دیے بغیر آواز کی سمت لپکا اور تلوار کا وار کر دیا جو کارگر نہ ہوا اور میں پیچھے ہٹ کر اندھیرے میں ایک جانب کھڑا ہو گیا۔
چند لمحوں کے بعد میں دوسری سمت سے آگے بڑھا اور آواز بدل کر پوچھا کہ ابو رافع یہ کون تھا اور کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا کہ کسی شخص نے مجھ پر تلوار سے حملہ کیا ہے، میں نے پھر آواز کی جگہ کا اندازہ کر کے تلوار کا وار کیا جس سے وہ زخمی ہو گیا مگر کام تمام نہ ہو سکا۔ میں پھر پیچھے ہٹا اور تیسری سمت سے اس انداز سے آیا جیسے کوئی مدد کے لیے آ رہا ہو، میں نے دیکھا کہ ابو رافع زخمی حالت میں سیدھا زمین پر پڑا ہے، میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر اوپر اپنا وزن ڈال دیا اور جب ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی تو یہ سمجھ کر اب یہ مر چکا ہو گا پیچھے ہٹ گیا اور قلعہ سے باہر نکل آیا لیکن تیزی میں بالاخانے کی سیڑھی سے اترتے ہوئے میں زمین پر گرا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی جسے میں نے کپڑے سے کس کر باندھ لیا اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔
میں نے ساتھیوں سے کہا کہ میں تو ابو رافع کی موت کا اعلان سنے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا، تم جاؤ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنا دو کہ ان کی توہین اور گستاخی کے مرتکب ابو رافع کو ہم نے قتل کر دیا ہے۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے جب قلعہ کی دیوار سے ابو رافع کی موت کا اعلان سنا تو میں بھی تسلی کر کے مدینہ منورہ کی طرف چل پڑا اور لنگڑاہٹ کے باوجود اتنا تیز چلا کہ مدینہ منورہ پہنچنے سے قبل اپنے ساتھیوں سے مل گیا۔ پھر ہم نے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں خبر دی اور سارا واقعہ سنایا، واقعہ سنانے کے بعد میں نے اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ آنحضرتؐ کو دکھائی جس پر آپؐ نے اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور وہ حضورؐ کا ہاتھ لگتے ہی ایسے سیدھی ہو گئی جیسے کبھی اس میں کوئی تکلیف ہی نہیں ہوئی تھی۔
وفاقی وزیر قانون سے گزارش ہے کہ وہ جرمن پارلیمنٹ کے ارکان سے کوئی وعدہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو بھی ذہن میں رکھیں کیونکہ نبی اکرمؐ کی عزت و ناموس کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے غیرت و حمیت کا سوال ہے، وہ اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا بھی باعث فخر و سعادت تصور کرتے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ حضورؐ کے گستاخوں کو ٹھکانے لگاتے ہوئے کسی مسلمان کو کوئی گزند اور تکلیف پہنچتی ہے تو اسے آپؐ کا دست شفقت بھی نصیب ہو جاتا ہے۔ کیا وفاقی وزیر قانون اور ان کے رفقاء توہین رسالت کی سزا کے قانون میں ترمیم کر کے جناب نبی اکرمؐ کے دست شفقت کے دائرہ سے باہر نکلنا پسند کریں گے؟