لال مسجد تنازع پر مذاکرات کیسے سبوتاژ کیے گئے؟

   
۱۲ جولائی ۲۰۰۷ء

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق کے ساتھ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں کے مذاکرات کی رپورٹ گزشتہ کالم میں مختصراً قارئین کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے اور اب مذاکرات کے دوسرے دو مراحل کی صورتحال سے قارئین کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس سے قبل غازی عبد الرشید کا تذکرہ ضروری ہے، جو اپنی والدہ محترمہ اور دیگر بہت سے رفقاء سمیت لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف سرکاری فورسز کے مسلح آپریشن کے آخری راؤنڈ میں شہید ہو چکے ہیں۔ غازی عبد الرشید ہمارے محترم اور بزرگ دوست مولانا عبد اللہ شہیدؒ کے فرزند تھے، باصلاحیت جوان تھے، دین کی سربلندی کے جذبہ سے سرشار تھے اور اس کے لیے ہر وقت ہر طریقہ اختیار کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ہم نے دینی جدوجہد کے لیے ان کے طریق کار کو ہمیشہ غلط کہا ہے، لیکن دین کی سربلندی اور بالادستی کے لیے ان کا خلوص و جذبہ اور محنت و ایثار شک و شبہ سے بالاتر تھا اور ان کی استقامت و عزیمت کا حال یہ تھا کہ آخر دم تک جان بچانے کے تمام مواقع میسر رہنے کے باوجود جس طریق کار کو انہوں نے اپنی جدوجہد کے لیے صحیح سمجھا اس پر ڈٹے رہے اور اسی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا، انا للہ وانا الیہ راجعون

غازی عبد الرشید، ان کی والدہ محترمہ اور ان کے دیگر رفقاء کار کی شہادت کا یہ المناک سانحہ ہمارے لیے انتہائی صدمہ کا باعث ہے، اس کے ساتھ ہی جو دوسرے حضرات اس دوران جاں بحق ہوئے ان کی موت پر بھی ہمیں صدمہ ہے کہ وہ مسلمان تھے اور پاکستانی تھے۔ ان میں سے بعض افراد اپنی ڈیوٹی پر تھے اور کچھ غیر متعلقہ عام شہری بھی تھے، ہم ان سب کی موت پر رنجیدہ ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین

مذاکرات کی رپورٹ یہاں تک پہنچی تھی کہ اعجاز الحق نے ہمیں بتایا کہ وزیر اعظم شوکت عزیز کے ساتھ ہماری ملاقات کا پروگرام بنایا جا رہا ہے، چنانچہ یہ ملاقات نو جولائی کہ دو بجے کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں ہوئی، جس میں ان کے ساتھ چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزراء اعجاز الحق، محمد علی درانی، طارق عظیم اور کمانڈر خلیل احمد وغیرہ شریکِ گفتگو تھے، جبکہ مولانا سلیم اللہ خان کی سربراہی میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے وفد میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا عادل خان، مولانا حکیم محمد مظہر، مولانا مفتی محمد، مولانا قاضی عبد الرشید اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔ وہی باتیں جو چودھری شجاعت حسین کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور وزیر اعظم کے علم میں آ چکی تھیں ان کے سامنے دوبارہ پیش کی گئیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں حکومت کے موقف اور سرگرمیوں کا ذکر کیا اور وفاق المدارس کے مصالحتی جذبہ و کردار کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے سراہا۔

غازی عبد الرشید نے مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور دیگر سرکردہ حضرات کے ساتھ گفتگو کے دوران جو شرائط پیش کی تھیں ان پر بحث ہوئی اور اصولی طور پر طے پا گیا کہ غازی عبد الرشید کے ساتھ فون کا رابطہ دوبارہ بحال کیا جائے اور بات کو آگے بڑھا دیا جائے، تاکہ مزید تصادم کے امکانات کو روکتے ہوئے مسئلہ کو پرامن طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ اس موقع پر یہ بھی اصولی طور پر طے ہو گیا کہ غازی عبد الرشید کی تینوں شرطوں کو مان لیا جائے اور انہیں قابلِ عمل بنانے کے لیے مزید گفتگو کی جائے، ان کی شرائط یہ تھیں:

  1. انہیں گرفتار یا نظر بند نہ کیا جائے، بلکہ ان کے خاندان اور ذاتی سامان سمیت انہیں ان کے آبائی گاؤں کے مکان میں جانے دیا جائے، جہاں وہ مستقل رہائش اختیار کریں گے۔
  2. ان کے رفقاء اور جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود افراد میں سے جو لوگ لال مسجد کے تنازعے سے قبل کے کسی کیس میں مطلوب نہیں ہیں انہیں بھی گرفتار نہ کیا جائے، جبکہ اس سے پہلے کے مقدمات میں مطلوب افراد کی گرفتاری میں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
  3. لال مسجد کو محکمہ اوقاف اسلام آباد کی تحویل میں دے دیا جائے جو اس کے انتظامی معاملات وفاق المدارس کے مشورہ سے چلائے گا، جبکہ جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا انتظام وفاق المدارس العربیہ کے سپرد کر دیا جائے۔

یہ غازی عبد الرشید کی شرائط تھیں، جن کے بغیر وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس لیے وزیر اعظم صاحب کے ساتھ ملاقات کے دوران یہ اصولی طور پر طے ہو گیا کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں موجود طلبہ، طالبات اور بچوں کی جانیں بچانے کی خاطر ان شرائط کو منظور کر لیا جائے اور اس کی تفصیلات وفاقی وزراء اور وفاق المدارس کے علماء کرام باہم مل کر طے کر لیں۔

وزیر اعظم سے ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی اور ہم وہاں سے یہ امید لے کر آئے کہ مسئلہ کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوشش آگے بڑھے گی اور ہم مزید خونریزی کو روکنے کے مشن میں کامیاب ہوں گے۔

شام کو لال مسجد جانے کا پروگرام طے پایا اور فیصلہ ہوا کہ وفاق المدارس کے سرکردہ حضرات چودھری شجاعت حسین اور اعجاز الحق کے ہمراہ لال مسجد جا کر غازی عبد الرشید سے ملاقات کریں گے اور بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔ مولانا مفتی رفیع عثمانی، مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر محمد عادل خان اور راقم الحروف شام چھ بجے کے لگ بھگ چودھری شجاعت حسین اور وفاقی وزراء کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس سے ایک قافلہ کی صورت میں لال مسجد کی طرف روانہ ہوئے، لیکن جب لال مسجد کے قریب حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ٹاکنگ پوائنٹ تک پہنچے تو ہمیں آگے جانے سے روک دیا گیا، جبکہ اس سے قبل غازی عبد الرشید سے فون پر بات چیت ہو چکی تھی اور وہ نہ صرف وفد کا خیر مقدم کرنے اور اس کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے تیار تھے، بلکہ انہوں نے اندر جانے کا راستہ، گیٹ اور طریق کار بھی طے کر دیا تھا، مگر سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ اندر چونکہ عسکریت پسند موجود ہیں جن میں سے کوئی بھی شخص کچھ بھی کر سکتا ہے، اس لیے ہم آپ حضرات میں سے کسی کو لال مسجد میں نہیں جانے دیں گے۔

چنانچہ ہم سب وہاں ٹاکنگ پوائنٹ کے ساتھ ایک خالی مکان میں چلے گئے اور ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کر کے مصالحتی فارمولا کی تفصیلات طے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا ڈاکٹر عادل خان اور راقم الحروف نے چودھری شجاعت حسین، اعجاز الحق، محمد علی درانی اور طارق عظیم کے ساتھ تفصیلی بات کی اور اس دوران غازی عبد الرشید کے ساتھ بھی ٹیلی فونک رابطہ قائم رہا، بلکہ غازی عبد الرشید کے اصرار پر اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن خلیل کو بھی بلوا کر مذاکرات میں شریک کیا گیا اور غازی صاحب کے ساتھ زیادہ تر ٹیلی فونک بات چیت وہی کرتے رہے۔ نصف شب کے لگ بھگ ہم نے جو نکات مشترکہ طور پر تحریر کیے، ان کا خلاصہ یہ ہے:

  • غازی عبد الرشید کو ان کے خاندان اور ذاتی سامان سمیت بحفاظت ان کے آبائی گاؤں پہنچا دیا جائے گا۔
  • طلبہ، طالبات اور لال مسجد و جامعہ حفصہ میں موجود تمام افراد غازی عبد الرشید کے ساتھ ہی باہر آئیں گے، طالبات کو محفوظ مقام پر منتقل کر کے ان کے اصل خاندان کے ساتھ بھجوایا جائے گا، جبکہ طلبہ اور دیگر افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے بعد ان کی انکوائری ہو گی اور جو افراد لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے قضیہ سے قبل کے کسی مقدمہ میں مطلوب نہیں ہیں انہیں ان کے گھروں میں بھجوایا جائے گا اور چلڈرن لائبریری پر قبضہ کی تاریخ سے پہلے درج شدہ مقدمات میں مطلوب افراد کے خلاف قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے کارروائی کی جائے گی۔
  • جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا کنٹرول وفاق المدارس کے سپرد کر دیا جائے گا جو ان کے قانونی معاملات حکومت کے مشورہ سے نمٹائے گا، جبکہ لال مسجد محکمہ اوقاف اسلام آباد کی تحویل میں دے دی جائے گی، جو اس کے انتظامی معاملات وفاق المدارس کے مشورے سے چلائے گا۔

اس مصالحتی فارمولا کے نکات وفاقی وزیر مملکت طارق عظیم نے لکھے، جبکہ ان کی بنیاد پر انہیں باقاعدہ تحریر کی شکل راقم الحروف نے دی، جسے غازی عبد الرشید کو فون پر سنایا گیا اور انہوں نے اس سے اتفاق کر لیا۔ چودھری کا شجاعت حسین نے کہا کہ اس تحریر کو ایوانِ صدر میں لے جانا ضروری ہے تاکہ حتمی منظوری حاصل کی جا سکے، چنانچہ وہ وفاقی وزراء کے ہمراہ ایوان صدر چلے گئے، جہاں سے کم و بیش دو گھنٹے کے بعد ان کی واپسی ہوئی اور ان کے پاس ایک نئی تحریر تھی، جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ حتمی فیصلہ ہے، جس میں رد و بدل نہیں ہو سکتا اور اس کا ہاں یا ناں میں آدھے گھنٹے کے اندر اندر جواب چاہیے۔

ہم نے تحریر پڑھی تو اس میں پہلی تحریر کے تینوں نکات کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ گویا غازی عبد الرشید کی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا اور اس نئی تحریر میں غازی عبد الرشید کو گرفتار یا نظر بند نہ کرنے کی بات گول کر دی گئی تھی، جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا انتظام وفاق المدارس کے سپرد کرنے کی بات حذف ہو گئی تھی اور لال مسجد کے تنازع کے دوران درج مقدمات میں کسی کو گرفتار نہ کرنے کی بات بھی ختم کر دی گئی تھی۔

یہ تین باتیں چونکہ غازی عبد الرشید کی شرائط تھیں، جن کے بغیر وہ ہتھیار ڈالنے پر کسی صورت میں آمادہ نہیں تھے، اس لیے ان کے بارے میں فیصلہ انہی کو کرنا تھا، لیکن جب انہیں یہ تحریر فون پر سنائی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ جو تحریر پہلے سنائی گئی تھی اسے وہ قبول کرتے ہیں اور اس پر قائم ہیں، لیکن اس نئی تحریر کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔

رات سوا دو بجے کے لگ بھگ خود میری گفتگو غازی عبد الرشید سے ہوئی، ان کا موقف وہی تھا جو میں نے عرض کیا ہے۔ اس کے بعد ان سے ہمارا رابطہ منقطع ہو گیا اور ہم وفاق المدارس العربیہ کے حضرات چودھری شجاعت حسین اور ان کے رفقاء سے یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر آ گئے کہ ہمارا مشترکہ طور پر تحریر کردہ فارمولا تبدیل ہو جانے کے بعد اس نئی تحریر کی بنیاد پر ہم مذاکرات کو آگے بڑھانے اور کوئی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آخر میں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک ٹی وی چینل کے نشریہ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رہنماؤں کو بطور خاص بلوایا گیا تھا اور وہ بلوانے والوں کے مہمان ہیں، یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔ ہم لوگ وفاق المدارس کی ہائی کمان کے فیصلہ کے تحت صرف اس جذبہ سے یہاں آئے تھے کہ مسئلہ کے پرامن حل کی کوئی صورت نکل آئے اور مزید خونریزی کو روکا جا سکے۔ اس میں ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جس کے اسباب کی نشاندہی مذاکرات کی رپورٹ میں کر دی گئی، جبکہ ہم وفاق المدارس کے انتظام کے تحت ہی یہاں اس کی مجلس عاملہ کے اجلاس تک اسلام آباد میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter