حضرت ابوہریرہؓ کا ذوقِ حدیث

   
۲۰ جولائی ۲۰۲۲ء

درسِ حدیث کی ایک مجلس میں بیان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو احادیث مبارکہ کا خصوصی ذوق تھا ،آپؓ جہاں بیٹھتے ،حدیثیں بیان کرتے ۔ جب آپ ؓنے بہت زیادہ حدیثیں بیان کرنا شروع کر دیں تو آخر عمر میں کچھ لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں پتہ نہیں حافظہ کام کرتا ہے یا نہیں؟ جان بوجھ کر غلط بیان کرنا اور بات ہے لیکن اگر کسی کا حافظہ کمزور ہو تو ممکن ہے کہ بات ادھر کی ادھر بیان کر دے۔ لوگوں کو یہ خدشہ ہوا کہ آپ بوڑھے ہیں بزرگ ہیں، اگر آپ کا حافظہ کمزور ہو گیا ہے تو ہو سکتا ہے حدیثوں میں کمی بیشی ہوتی ہو، اور اگر حدیثوں میں گڑبڑ ہوگی تو دین گڑبڑ ہو جائے گا۔ کسی اور کی بات آگے پیچھے ہو جائے تو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جب بات کی جائے کہ آپ ؐنے یہ فرمایا تھا یا آپ نے یہ کیا تھا تو وہ دین بن جاتا ہے۔ لوگوں کو خدشہ پیدا ہوا اور کسی نے اعتراض کیا جس کا حضرت ابوہریرہؓ نے خود یہ جواب دیا کہ باقی صحابہ کرامؓ تجارت اور کھیتی باڑی وغیرہ میں مصروف رہتے تھے جبکہ میرا اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا اس لیے سارا وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارتا تھا، اس کے علاوہ میری درخواست پر جناب نبی کریمؐ نے میرے حافظہ اور یادداشت کے لیے خصوصی دعا بھی فرمائی تھی اس لیے میں زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہوں۔

بعض لوگوں نے گورنر مدینہ مروان بن الحکمؒ سے شکایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ ہر بات پر حدیث بیان کر دیتے ہیں اس لیے آپ چیک کریں کہ ان کا حافظہ کام کرتا ہے یا نہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ اور مروان بن الحکمؒ آپس میں دوست تھے۔ مروانؒ بن الحکمؒ کہیں دورے پر جاتے تو ان کے نائب گورنر حضرت ابوہریرہؓ ہوتے تھے۔ اس حیثیت سے مسجد نبوی میں کئی جمعے آپؓ نے پڑھائے ہیں۔ مروان بن الحکم ؒنے کہا کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن حضرت ابو ہریرہؓ کا امتحان کیسے لیں اور کون ایسا کر سکتا ہے لیکن یہ بات ضروری بھی ہے، بہرحال میں کوئی راستہ نکالتا ہوں۔

چنانچہ ایک دن مروان بن الحکم ؒنے مجلس کا اہتمام کیا اور حضرت ابوہریرہؓ کو پیغام بھجوایا آپ سے کچھ حدیثیں سننے کو دل کرتا ہے، آپ تشریف لائیں۔ حضرت ابوہریرہؓ تشریف لے آئے، علماء کی مجلس تھی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے حدیثیں بیان کرنے کو کہا گیا، انہیں اور کیا چاہیے تھا، حدیثیں بیان کرنا شروع کر دیں۔ ادھر مروان بن الحکمؒ نے پردے کے پیچھے ایک زود نویس بٹھا دیا کہ جو آپؓ بیان کریں اسے لکھنا ہے۔ آپؓ نے ایک سو حدیثیں بیان فرمائیں۔ ویسے ہزاروں حدیثیں یاد تھیں لیکن اس مجلس میں ایک سو حدیثیں سنائیں۔ مجلس کے اختتام پر مروان بن الحکمؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت کر دیا۔

کچھ عرصہ کے بعد مروان بن الحکم ؒنے دوبارہ پیغام بھجوایا کہ حضرت! اس موقع پر بہت لطف آیا تھا، آپ دوبارہ تشریف لائیں۔ حضرت ابوہریرہؓ تشریف لے آئے۔ انہوں نے آپ سے وہی سو حدیثیں دوبارہ سننے کی فرمائش کی۔ مروان بن الحکم نے پردے کے پیچھے وہی آدمی بٹھا کر کہا کہ آپؓ جو بیان کریں اس کا موازنہ کرنا ہے، اگر کمی بیشی ہو تو اسے نوٹ کرنا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے وہی سو حدیثیں بیان فرما دیں۔ مجلس کے اختتام پر مروان نے آپؓ کا شکریہ ادا کیا اور آپ چلے گئے۔ آپ کے جانے کے بعد مروان بن الحکمؒ نے اس آدمی کو بلا کر پوچھا کہ کچھ کمی بیشی تو نہیں کی؟ اس نے بتایا کہ حدیثیں بھی آپؓ نے وہی سنائی ہیں اور من و عن اسی ترتیب سے سنائی ہیں، ایک حدیث بھی آگے پیچھے نہیں سنائی۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہیں اطمینان ہوگیا کہ آپؓ کا حافظہ مضبوط ہے لہٰذا آپؓ کا حق ہے کہ آپ حدیثیں بیان کرتے رہا کریں۔

اس واقعہ سے ہمیں تین سبق ملتے ہیں:

  • ایک یہ کہ اگر کوئی دینی خطرہ محسوس ہوتا ہو تو اس خطرے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ دین کے معاملے میں گڑبڑ نہ ہو، اور اس معاملے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
  • دوسرا یہ کہ خود کوئی کاروائی کرنے کے بجائے مجاز اتھارٹی سے رابطہ کرنا چاہئے۔ ہر مسئلہ پر خود کاروائی کریں گے تو انتشار پیدا ہو گا۔ اس موقع پر مجاز اتھارٹی گورنر مدینہ تھے تو لوگوں نے ان سے رابطہ کیا۔ تو یہ اصول معلوم ہوا کہ خود کچھ کاروائی کرنے کے بجائے مجاز اتھارٹی سے رجوع کرنا چاہیے۔
  • تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی شخصیت کو چیک کرنا ہو تو محض اختیارات استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اس کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے پروٹوکول کے مطابق چیک کرنا چاہیے۔
   
2016ء سے
Flag Counter