افغانستان میں دینی مدراس کے طلبہ کی حکومت

   
جولائی ۱۹۹۶ء

راقم الحروف کو ۹ اور ۱۰ جون کو افغانستان میں طالبان کے دارالحکومت قندھار اور افغانستان کے سرحدی قصبہ سپین بولدک میں طالبان کے راہنماؤں کے ساتھ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر گفت و شنید اور افغانستان کے اس خطہ کے حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ اس دوران جن حضرات سے ملاقات ہوئی ان میں طالبان کے امیر مولوی محمد عمر اخوند، چیف جسٹس مولوی سید محمد پسنئی، گورنر قندھار حاجی ملا محمد حسن اخوند زادہ، آئی جی پولیس ملا عبد الصمد ثانی، طالبان کے ترجمان مفتی محمد معصوم افغانی، اور مرکزی مجلسِ شورٰی کے دو ارکان مولوی محمد صدیق اور مولوی سیف الدین بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ مولوی سید محمد پاسنئی کا شمار علاقہ کے بڑے علماء میں ہوتا ہے، ان کے علاوہ باقی سب مذکورہ حضرات دینی مدارس کے طلبہ ہیں جو مختلف دینی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور جہادِ افغانستان میں عملاً شریک رہے ہیں۔

جہادِ افغانستان کے بعد جہاد کے منطقی نتائج یعنی شرعی نظام کا نفاذ اور امن کا قیام سامنے نہ آنے پر یہ لوگ پریشان ہو گئے اور ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق رفتہ رفتہ منظم ہو کر انہوں نے پہلے سرحدی قصبہ سپین بولدک اور پھر صوبائی دارالحکومت قندھار پر قبضہ کر لیا، جس سے ان کا حوصلہ بڑھا اور وہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران افغانستان کے تیس میں سے پندرہ صوبوں پر قبضہ کرنے کے بعد کم و بیش تیس ہزار کی مسلح فورس قائم کر چکے ہیں، جو زیادہ تر دینی مدارس کے ان طلبہ پر مشتمل ہے جو جہادِ افغانستان کے دوران روسی جارحیت کے خلاف عملاً برسرِ پیکار رہے ہیں۔

طالبان کے امیر مولوی محمد عمر اخوند ایک سادہ سے مخلص اور دیندار نوجوان ہیں، افغانستان ہی کے دینی مدارس میں پڑھتے رہے ہیں، جہادِ افغانستان کے دوران تین بار زخمی ہوئے، ایک آنکھ کو بھی نقصان پہنچا اور ایک بار علاج کے لیے پاکستان لائے گئے، اس کے علاوہ کبھی افغانستان سے باہر نہیں گئے۔

طالبان کا طریق کار یہ ہے کہ جس علاقہ پر قبضہ کرتے ہیں، وہاں کی عام آبادی کو نہتا کر دیتے ہیں۔ کسی عام شخص کے پاس ایک پستول بھی نہیں چھوڑتے، جس کی وجہ سے امن قائم ہونے کے علاوہ اسلحہ کی ایک بہت بڑی مقدار ان کی تحویل میں آ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہاں شرعی عدالتیں قائم کر دیتے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں، اور امن و امان کو سادگی کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام ان کے ساتھ ہیں۔ قندھار کے بازاروں میں رونق نظر آتی ہے، زراعت اور کھیتی باڑی کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے، مہاجرین رفتہ رفتہ واپس آ کر آباد ہو رہے ہیں، اور ایک افغان راہنما کے بقول اب قندھار شہر کے اندر کسی عمارت کا خریدنا یا کرائے پر لینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

طالبان کو عالمی سطح پر ’’بنیاد پرست‘‘ سمجھا جاتا ہے، اس لیے انہیں کسی حکومت یا عالمی ادارے کی سرپرستی یا ہمدردی حاصل نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اپنے سیاسی تعارف، مالی مشکلات کے حل، اور میڈیا کے ساتھ رابطے میں انہیں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ تاہم امید ہے کہ وہ اپنے خلوص، سادگی اور قناعت کی بدولت بالآخر ان مشکلات پر قابو پا لیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مشن میں کامیابی سے نوازیں اور عالمی سازشوں کا شکار ہونے سے بچائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter