مرکزی ناظم انتخابات محترم جناب قاری نور الحق صاحب قریشی ایڈووکیٹ کے اعلان کے مطابق یکم شعبان المعظم مطابق ۹ اگست بروز ہفتہ ملک بھر میں آئندہ سہ سالہ مدت کے لیے جمعیۃ علماء اسلام کی رکن سازی کا آغاز ہو رہا ہے۔ رکن سازی کا یہ سلسلہ ۱۳۹۵ھ کے آخر تک جاری رہے گا۔ آئندہ ہجری سال کے آغاز پر ضلعی انتخابات ہوں گے، پھر صوبائی انتخابات کا مرحلہ آئے گا، اور جمادی الاولیٰ میں ان شاء اللہ العزیز مرکزی انتخابات عمل میں آئیں گے اور اس کے ساتھ ہی سہ سالہ تنظیمِ نو کی مہم انجام پذیر ہوگی۔ مرکزی ناظمِ انتخابات نے صوبائی اور پنجاب میں ڈویژنل سطح پر معاون نظماء انتخابات کا تقرر کر دیا ہے۔ اور وہ خود نظماء انتخابات سے رابطہ کے لیے راقم الحروف کی معیت میں ملک بھر کا دورہ کر رہے ہیں۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ رکن سازی کی اہمیت اور اس کے طریق کار کے بارے میں کچھ ضروری باتیں کارکنانِ جمعیۃ علماء اسلام کے گوش گزار کر دی جائیں تاکہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اس اہم ذمہ داری کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہو سکیں۔
(۱) ملک کی موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے کہ ۱۹۴۷ء کا پاکستان نا اہل اور خود غرض قیادت کی غلط کاریوں، اسلام کے عادلانہ نظام سے انحراف، اور کفر و الحاد اور عیاشی و فحاشی کی ترویج کے نتیجہ میں اپنی نظریاتی و جغرافیائی حدود سے محروم ہو چکا ہے۔ اور ۱۹۷۱ء کے آخر سے ایک نیا پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے جسے جناب ذوالفقار علی بھٹو اور ان کا پشت پناہ ملکی و بین الاقوامی گروہ اپنے ڈھب پر چلانے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ اور ان کی کوشش یہ ہے کہ اس خطہ میں موجود تمام مزاحم قوتوں کو کچل کر اس مظلوم سرزمین کے مظلوم عوام کو اس طرح جکڑ لیا جائے کہ ان کے لیے اس گروہ کے ہر اقدام کو قبول کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہے۔ بلوچستان پر فوج کشی، سرحد اور بلوچستان میں کٹھ پتلی حکومتوں کا قیام، آزاد کشمیر میں الیکشن کے نام پر من چاہے افراد کی سلیکشن، ملک بھر میں دفعہ ۱۴۴، ڈی پی آر اور امتناعی قوانین کا بے تحاشہ اور اندھا دھند استعمال، سیاسی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، محب وطن راہنماؤں کے خلاف ریڈیو ٹی وی اخبارات کا کردار کش پراپیگنڈا، ذرائع ابلاغ پر حکمران پارٹی کا مکمل کنٹرول، اور حکمران پارٹی کا عوام اور سیاستدانوں کے ساتھ کیے گئے ہر وعدہ سے انحراف ایک ہی سلسلہ کی مختلف کڑیاں ہیں۔ اور تمام اقدامات کا مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی و جمہوری عمل کو ہمیشہ کے لیے دفن کر کے ایک فرد اور اس کے پشت پناہ گروہ کو اس ملک کی قسمت کا مالک بنا دیا جائے، اور اس ملک میں آزادی، انصاف اور حقوق کی بات کرنے والا کوئی گروہ، جماعت، فرد یا ادارہ باقی نہ رہنے دیا جائے۔
(۲) پاکستان میں نافذ سیاسی، معاشی، تعلیمی اور قانونی نظام کی تباہ کاریوں کا یہ عالم ہے کہ اس نظام میں حقوق یا انصاف کے حصول کا تصور بھی مشکل ہے۔ سیاسی ظلم و جبر نے ہر شخص کے ہونٹوں پر سکوت کی مہر ثبت کر دی ہے، معاشی عدمِ مساوات اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کی غالب اکثریت کو بھوک اور افلاس کا شکار کر دیا ہے، اور اس لوٹ کھسوٹ کو عملاً اور زیادہ ہولناک بنا کر اسلام سے برگشتگی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
تعلیمی نظام کی کیفیت یہ ہے کہ آج کے طالب علم کے لیے خدا اور رسول کے احکامات سے واقف ہونا تو کجا مروجہ نصاب سے بھی وہ کوسوں دور ہے، اور آج ڈگریاں رشوت اور سفارش کے راستے سے ملتی ہیں۔
اور قانونی نظام کی ستم خیزیوں کا یہ حال ہے کہ فرنگی کا نافذ کردہ قانون معاشرہ کو جرائم سے پاک کرنے کی بجائے ان کی جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف ہے، اور جرائم کی بیخ کنی کے راستہ میں یہ فرنگی قانون خود ایک بڑی رکاوٹ بن کر رہ گیا ہے۔
(۳) اس صورتحال سے عہدہ برآ ہونے، فرنگی نظام کو ختم کر کے اس کے کھنڈرات پر اسلام کے عادلانہ نظام کی مستحکم عمارت تعمیر کرنے، اور ملک کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کے لیے وہی جماعت فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے جو ملک کے ہر گوشہ میں یکساں اثر و رسوخ رکھتی ہو، ظلم و جبر کے نظام کو چیلنج کرنے اور قربانی دینے کا حوصلہ رکھتی ہو، اس کی قیادت اسلامی نظام کے تمام پہلوؤں اور موجودہ دور کے تقاضوں سے کماحقہ باخبر ہو، اس کے کارکن دین اور قوم کی خدمت کے جذبات سے سرشار ہوں، اور وہ جماعت خوف و خطر کی پرواہ کیے بغیر پیش قدمی کی جرأت سے بہرہ ور ہو۔
الحمد للہ تعالیٰ جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت اور اس کے کارکن ان تمام خوبیوں سے بہرہ ور ہیں اور ہر نقطۂ نظر سے جمعیۃ ایک انقلابی جماعت ہے جو بلاشبہ فرنگی نظام اور کالے فرنگیوں سے نبرد آزما ہونے کا جذبہ، عزم، حوصلہ اور جرأت رکھتی ہے۔
(۴) لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جمعیۃ علماء اسلام کو ایک انقلابی جماعت ہونے کی حیثیت سے بہت زیادہ نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ تساہل کی وجہ سے کارکنوں کی بے لوث مخلصانہ جدوجہد کے صحیح اور ضروری نتائج سامنے نہ آ سکیں۔ آج جماعتی سطح پر ہماری سب سے بڑی ضرورت اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو نظم و ضبط کا پابند بنائیں، اور تمام دیگر امور سے بڑھ کر جماعتی دستور کے مطابق نظم و ضبط کو مستحکم کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اس کے بغیر نہ ہماری جدوجہد نتیجہ خیز ہو سکتی ہے اور نہ ہم دینی و قومی سطح پر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔
(۵) ہر تین سال کے بعد نئی رکن سازی اور ہر سطح کے انتخابات کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ نظم و نسق کے سلسلہ میں خامیاں دور ہوتی رہیں، عہدہ داروں کا محاسبہ ہوتا رہے، اور فعال اور متحرک کارکنوں کو آگے آنے کا موقع ملتا رہے۔
اس مرحلہ پر بھی جبکہ آئندہ تین سال کے لیے رکن سازی و انتخابات کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے، تمام کارکنوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، ہر سطح کے عہدہ داروں کو اپنی سہ سالہ کارکردگی پر نگاہ ڈال لینی چاہیے کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا تھا، جماعتی دستور کے مطابق انہوں نے اس کام کو کماحقہ سرانجام دیا ہے یا نہیں۔ اگر وہ کسی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے تو آئندہ جماعتی انتخابات کے موقع پر انہیں رضاکارانہ طور پر فعال کارکنوں کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے۔ اور ہر سطح پر جماعتی کارکنوں کو سر جوڑ کر اپنے حلقہ میں جمعیۃ کو منظم کرنے، خامیوں کو دور کرنے، اور فعال اور مستحکم قیادت کو آگے لانے کے لیے سوچ بچار کرنا چاہیے۔ تاکہ جمعیۃ علماء اسلام ایک انقلابی سیاسی جماعت کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کر سکے۔
(۶) ابتدائی سطح پر جماعتوں، کارکنوں، عام ارکان، جمعیۃ کے موقف سے اتفاق رکھنے والے مسلمانوں، اور خالی الذہن افراد کے اجتماعات منعقد کیے جائیں۔ انہیں اسلامی نظام کی اہمیت، اکابر و اسلاف کی قربانیوں، سیاست میں علماء کی قیادت کی اہمیت، صوبہ سرحد میں حضرت مولانا مفتی محمود کی اصلاحات، جمعیۃ علماء اسلام کی ملی خدمات، اور اسلامی نظام کے لیے جمعیۃ کی جدوجہد اور پروگرام سے آگاہ کیا جائے۔ اور اپنا موقف اور پروگرام پوری طرح ان کو سمجھا لینے کے بعد انہیں فارم رکنیت پُر کرنے کی دعوت دی جائے۔
اور جب اتنے افراد کسی جگہ مل جائیں جن پر دستور کے مطابق حلقہ کی تشکیل دی جا سکے تو ان میں سے صائب الرائے، فعال اور معاملہ فہم حضرات کو چن کر مقامی مجلسِ عاملہ تشکیل دی جائے۔ اور انہیں جماعتی دستور کی ضروری دفعات سے آگاہ کر کے اس حلقہ کے عوام کے ساتھ رابطہ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو انصار الاسلام کے ساتھ وابستہ کرنے کی تلقین کی جائے۔ اور ہر حلقہ کے حالات کے مطابق انہیں عملی پروگرام دیا جائے جس میں تعلیمِ بالغاں، لوگوں کی نماز اور قرآن کریم کی تصحیح، چھوٹی سطح پر لائبریری کا قیام، ہفتہ وار اجتماعات، تبلیغی پروگرام، عام لوگوں کے مسائل میں دلچسپی، خدمتِ خلق، تربیتی اجتماعات اور دیگر پروگرام ہو سکتے ہیں۔ اور اس طرح نئی رکن سازی کے کام کا آغاز کیا جائے تاکہ آئندہ جماعتی عمارت مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔