توہین رسالتؐ قانون ۔ نفاذ کے طریق کار میں تبدیلی

   
تاریخ : 
۳ جون ۱۹۹۹ء

مذہبی امور کے وفاقی وزیر راجہ محمد ظفر الحق گزشتہ دنوں گوجرانوالہ تشریف لائے اور جلیل ٹاؤن میں مسیحی رہنما فادر روفن جولیس کی طرف سے ’’یوم تکبیر‘‘ کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کیا جس میں دیگر سرکردہ مسلم لیگی رہنما بھی شریک ہوئے۔ فادر روفن جولیس کی طرف سے ’’یوم تکبیر‘‘ کے حوالہ سے تقریب کا انعقاد ایک خوش آئند امر ہے جس سے ملکی دفاع اور سالمیت کے ساتھ اقلیتوں کی وابستگی اور دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ اور موصوف نے اس موقع پر ملکی دفاع اور پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے بارے میں جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ بلاشبہ قابل قدر ہیں۔ البتہ اس تقریب کی مناسبت سے توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کے بارے میں فادر روفن جولیس کے استفسار پر وفاقی وزیر مذہبی و اقلیتی امور نے جو بات کہی ہے وہ توجہ طلب ہے، اور اس سلسلہ میں ہم کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔

لاہور کے ایک قومی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق فادر روفن جولیس نے راجہ محمد ظفر الحق سے کہا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون کے غلط استعمال اور بے گناہ افراد کے اس زد میں آنے کی روک تھام کے لیے ایف آئی آر کے اندراج کے طریق کار میں تبدیلی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت کسی ایف آئی آر کے اندراج سے قبل ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور معززین علاقہ کی ایک کمیٹی قائم کر کے اس کی طرف سے تفتیش کو ضروری قرار دیا جائے۔ اگر اس کمیٹی کے نزدیک ایف آئی آر درج کرانے والا شخص ثبوت فراہم نہ کر سکے تو اسے سخت ترین سزا کا مستوجب ٹھہرایا جائے۔

توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابتدا میں توہین رسالتؐ کے جرم کی سزا تین سال قید تھی جسے غالباً جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں بڑھا کر دس سال کر دیا گیا۔ مگر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل جناب محمد اسماعیل قریشی اور دیگر حضرات نے اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا کہ شرعًا توہین رسالتؐ کی سزا موت ہے اور تین یا دس سال کی سزا شرعی حکم کا تقاضا پورا نہیں کرتی، اس لیے اسے ختم کر کے شرعی سزا نافذ کی جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو پابند کر دیا کہ وہ ایک معینہ مدت کے اندر توہین رسالت پر موت کی سزا کا شرعی قانون نافذ کر دے، چنانچہ اس پر ملک میں یہ قانون نافذ العمل ہوگیا۔

اس قانون پر ملک بھر میں سیکولر لابیوں کی طرف سے شور مچایا گیا کہ یہ قانون آزادیٔ رائے اور مذہبی آزادیوں کے معروف تصور کے منافی ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی ذرائع ابلاغ کے علاوہ بعض اقلیتی گروہوں نے بھی اس احتجاج کو نمایاں کرنے میں کردار ادا کیا۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی وزارت خارجہ کی سالانہ رپورٹوں میں اس کا تذکرہ ہونے لگا۔ مگر یہ واویلا پاکستان کی رائے عامہ کے سامنے کارگر نہ ہو سکا اور پاکستانی عوام نے توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کے حق میں ایک دن کی مکمل ملک گیر اور پر جوش ہڑتال کر کے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے مسئلہ پر کسی مصلحت یا مرعوبیت کا شکار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اس کے بعد اس قانون کے مخالفین نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور موت کی سزا کی مخالفت میں لچک پیدا کر کے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ اس قانون میں موت کی سزا رکھی گئی ہے اور قانون کے غلط استعمال سے بے گناہ افراد کو سزا ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اس لیے اس قانون کے نفاذ کے طریق کار کو اس طرح تبدیل کر دیا جائے کہ ایف آئی آر کے اندراج سے قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنے طور پر تحقیق کر کے تسلی کر لیں اور ان کی تسلی کے بعد ایف آئی آر درج کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر دباؤ کو منظم کیا گیا جس کے نتیجے میں دو سال قبل کسی باضابطہ اعلان کے بغیر عملاً اس طریق کار کو نافذ کر دیا گیا۔ اس کے بعد اس نوعیت کے بعض مقدمات ہمارے علم میں ہیں کہ مذکورہ شرط کی وجہ سے ایف آئی آر کا سرے سے اندراج بھی نہیں ہو سکا۔

اب اس بات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے کہ ابتدائی تفتیش کی ذمہ داری میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ ایس پی اور معززین علاقہ کو بھی شامل کیا جائے۔ اور ایف آئی آر درج کرانے والے شخص کو مذکورہ کمیٹی کو مطمئن نہ کر سکنے کی صورت میں سخت ترین سزا کا مستوجب قرار دیا جائے۔ فادر روفن جولیس نے راجہ ظفر الحق سے یہی بات کہی ہے اور مذکورہ خبر کے مطابق راجہ صاحب نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس تجویز پر وزیراعظم سے بات کریں گے۔

اس سلسلہ میں ہم دو گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سارے عمل کا اصل مقصد توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون کو عملاً غیر مؤثر بنانا ہے تاکہ اگر کہیں اس جرم کا ارتکاب ہو تو کوئی شخص الٹا خود پھنس جانے کے خوف سے ایف آئی آر درج کرانے کی جرأت نہ کرے۔ اور اگر کوئی آدمی جرأت کر کے پیش قدمی کر ہی لے تو کمیٹیوں کے چکر میں معاملہ اس قدر الجھ جائے کہ مقدمہ کی باضابطہ کاروائی کی نوبت ہی نہ آئے۔ ورنہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ دیگر بعض جرائم پر بھی موت کی سزا کا قانون نافذ ہے اور ان قوانین کا بھی بسا اوقات غلط استعمال ہو جاتا ہے۔ اور انتقامی کاروائیوں، جھوٹی شہادتوں اور عدالتی بدعنوانیوں کے جتنے خدشات کا اظہار اس قانون کے نفاذ کے سلسلہ میں کیا جا رہا ہے وہ سب خدشات موت کی سزا والے دیگر قوانین کی صورت میں بھی پوری طرح موجود ہیں۔ لیکن وہاں کوئی لابی اس قسم کا مطالبہ نہیں کر رہی کہ ایف آئی آر کے اندراج کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کسی کمیٹی کی پیشگی تفتیش کے ساتھ مشروط کیا جائے۔ اور اگر اس پیشگی تفتیش میں ایف آئی آر غلط ثابت ہو جائے تو درج کرانے والے شخص کو سزا کا مستحق قرار دیا جائے۔

اگر یہ خدشات درست ہیں اور ان کا پیشگی تدارک ضروری ہے تو یہ طریق کار ان تمام قوانین کے نفاذ میں ضروری ہونا چاہیے جن میں موت کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ اور اگر موت کی سزا والے دیگر قوانین میں یہ طریق کار ضروری نہیں سمجھا جا رہا تو صرف توہین رسالتؐ کے قانون کے لیے یہ امتیازی طریق کار اختیار کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس قانون کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سازش کی گئی ہے جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی تسلی کی شرط کی حد تک پوری ہو چکی ہے۔ اور اب ایف آئی آر درج کرانے والے کو سزا کا مستحق قرار دینے کے لیے ساز باز کی جا رہی ہے۔

دوسری گزارش ہے کہ اصولاً اسلام اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ سنگین سزا کی صورت میں غلط الزام لگانے والے کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ جیسا کہ زنا کی سزا اسلام میں سب سے زیادہ سخت ہے لیکن اس کے ثبوت کا معیار بھی اسی درجہ کا سخت ہے کہ چار عینی گواہوں کے بغیر یہ جرم ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور اس جرم قبیح کا کسی پر ثبوت کے بغیر الزام لگانے کو اسلام میں مستقل جرم قرار دیا گیا ہے جسے ’’قذف‘‘ کہتے ہیں اور اس کی سزا ۸۰ کوڑے ہے۔ یعنی اگر کسی شخص نے کسی پر زنا کا الزام لگایا اور عدالت میں ثبوت نہ پیش کر سکا تو وہ قذف کا مجرم قرار پا کر ۸۰ کوڑوں کی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔

مگر یہ سارا عمل عدالت ہی کے ذریعہ مکمل ہوگا اور باضابطہ عدالت سے ہٹ کر اس کے لیے کسی الگ طریق کار کو اسلام قبول نہیں کرتا۔ ویسے بھی ایک سادہ سا سوال ہے کہ اگر تفتیش اور سزا کے سارے مراحل عدالتی کاروائی کے بغیر صرف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ذاتی صوابدید پر یا چند افراد کی کمیٹی کی رپورٹ پر مکمل کر لیے ہیں، جس میں کسی شخص کے بری الذمہ قرار پانے اور کسی کے مجرم ٹھہرنے کی صورتیں بھی شامل ہیں، تو پھر اس سارے عدالتی نظام کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور کیا عدالتی کاروائی سے قبل اس سارے مرحلے کو طے کر لینے کا مطلب باضابطہ طور پر پورے عدالتی نظام پر بے اعتمادی کا اظہار نہیں ہے؟

ہم راجہ محمد ظفر الحق صاحب سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ فادر روفن جولیس کی تجویز پر وزیراعظم سے ضرور بات کریں لیکن اس کے پس منظر اور نتائج دونوں کا اچھی طرح جائزہ لے لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض اقلیتی لیڈروں کو خوش کرنے اور بین الاقوامی لابیوں کو مطمئن کرنے کے شوق میں توہین رسالتؐ پر موت کی سزا کے قانون اور ملک کے عدالتی نظام دونوں کو کسی ’’نمائشی شوروم‘‘ میں سجا دینے کا عمل راجہ صاحب موصوف کے ہاتھوں انجام پا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter