گزشتہ روز کے اخبارات میں ایک کارٹون نظر سے گزرا جس کا منظر یہ تھا کہ پولیس کے کچھ اہلکار کسی جگہ تخریب کاری کی واردات کے بعد وہاں مجرموں کے ہاتھوں اور پاؤں کے نشانات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ان کے بارے میں کوئی سراغ لگایا جا سکے۔ جبکہ قریب کھڑا ایک شخص ان سے کہہ رہا ہے کہ اگر تخریب کاروں کی تلاش سے پہلے تخریب کاری اور دہشت گردی کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کر لی جائے تو مسئلے کا حل زیادہ آسان ہو جائے گا۔
حقیقت حال یہی ہے کہ ہمارے ارباب حل و عقد ابھی تک اس نکتہ کو نہیں سمجھ پا رہے کہ کسی واقعہ کے بعد اس کے اثرات کے ازالہ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے وقوعہ سے پہلے ایسے اسباب کی روک تھام ضروری ہے جو ان واقعات کا باعث بنتے ہیں۔ ورنہ اگر اسباب موجود رہیں گے تو واقعات بھی رونما ہوتے رہیں گے اور کسی ایک جگہ عارضی رکاوٹ اور بندش دیکھ کر وہ اسباب اپنے نتائج دکھانے کے لیے کسی اور جگہ سر اٹھا لیں گے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالہ سے اب یہ معمول بن گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی ایک علاقے میں شکنجہ ذرا سخت کر لیتے ہیں تو دہشت گردی اپنا علاقائی دائرہ کار تبدیل کر لیتی ہے۔ اس طرح سرکاری اداروں اور دہشت گردوں کے درمیان آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ کسی تعطل کے بغیر جاری رہتا ہے۔
ہمارے ہاں جرائم اور وارداتوں کی روک تھام کا جو روایتی سلسلہ چلا آرہا ہے وہ اس قدر فرسودہ ہے کہ اب اسے سسٹم اور نظام قرار دیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ایک مثال سے اس بات کا اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا طریق کار اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے خطہ میں ایک روایت کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے کہ شب براءت یعنی شعبان کی پندرہویں شب کو مقدس رات تصور کرتے ہوئے اس موقع پر چراغاں اور آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور کیفیت یہ ہوتی ہے کہ شعبان کا چاند طلوع ہوتے ہی بازاروں اور گلیوں میں آتش بازی کا سامان فروخت کے لیے جگہ جگہ موجود ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ رجحان بہت زیادہ تھا اب لوگوں میں دینی شعور بیدار ہونے کی وجہ سے اس میں بتدریج کمی آتی جا رہی ہے مگر پھر بھی کافی حد تک اب بھی موجود ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ گوجرانوالہ میں ضلعی امن کمیٹی کے اجلاس کے دوران بعض علماء نے ضلعی حکام کی توجہ دلائی کہ یہ آتش بازی شرعاً درست نہیں ہے اور ویسے بھی اس کے بہت نقصانات ہیں، بلا وجہ پیسے ضائع ہوتے ہیں، بے احتیاطی سے کئی مقامات پر آگ لگ جاتی ہے اور جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔ اس پر ضلعی حکام نے اس سال یہ کیا کہ پندرہ شعبان سے دو تین روز قبل دفعہ ۱۴۴ نافذ کر کے آتش بازی کا سامان استعمال کرنے پر پابندی لگا دی۔ اور باقاعدہ اعلان کر دیا گیا کہ جو شخص بھی آتش بازی کا سامان استعمال کرے گا وہ دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کے جرم میں سزا کا مستوجب ہوگا۔ راقم الحروف نے ایک مجلس میں ضلعی حکام کے اس اقدام پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ آتش بازی کا سامان بن رہا ہے، فروخت ہو رہا ہے، اور گلیوں بازاروں میں کئی روز سے اس کی خریداری جاری ہے، اس پر تو کوئی قدغن نہیں ہے مگر فروخت ہوجانے کے بعد اس کے استعمال پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اول تو اس پابندی پر عمل کوئی نہیں کرے گا اور اگر کسی نے پابندی کر بھی لی تو فرق صرف یہ پڑے گا کہ اس کے حصے کا آتش بازی کا سامان اس علاقہ سے نکل کر دوسرے علاقے میں چلا جائے گا اور وہاں استعمال ہوگا۔ اب نتیجے کے لحاظ سے تو کوئی فرق نہیں، صرف نقصان کے احتمالات اور جرم کی وارداتیں ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف منتقل ہوگئی ہیں۔ اس پابندی کا ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ اس کے جواب میں مجھے ضلعی حکام کی طرف سے جو جواب دیا گیا وہ یہ تھا کہ ہم بس یہی کچھ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔
بس یہی بنیادی نکتہ ہے جس سے ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اور ہر معاملہ میں ہماری پالیسیوں اور ترجیحات کی بنیاد ایک ہی ہے کہ ’’ہم تو یہی کچھ کر سکتے ہیں‘‘۔ اور ہم کسی بھی مسئلہ کے حل کے لیے یہ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ ’’ہونا کیا چاہیے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے موجودہ معروضی حالات اور اپنے روایتی سسٹم پر قناعت کر لی ہے، اس کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں بس وہی کرتے رہیں گے۔ اور اس سے کوئی غرض نہ رکھیں گے کہ اس سے مسائل حل ہو رہے ہیں یا ہمارا طرز عمل مسائل اور مشکلات میں مسلسل اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جبکہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’ہم یہ کر سکتے ہیں‘‘ کی بجائے ’’یہ ہونا چاہیے‘‘ کی طرف قدم بڑھائیں۔ کیونکہ جب تک کسی بھی مسئلہ کے حل کے لیے اس کے منطقی اور فطری تقاضوں کا ادراک حاصل نہ کیا جائے اور ان اسباب و عوامل کی نشاندہی نہ کی جائے جو اس مسئلہ کو جنم دے رہے ہیں، اس وقت تک مسئلہ کے حل کی کوئی کوشش بھی کارگر نہیں ہو سکتی۔
اس سلسلہ میں اسلام کا مزاج یہی ہے کہ وہ جرم کو ختم کرنے کے لیے اس کے اسباب کا قلع قمع کرتا ہے اور ان محرکات و عوامل کو کنٹرول کرتا ہے جو کسی شخص کو جرم تک لے جانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مثلاً بدکاری کو اسلام نے جرم قرار دیا ہے اور وہ نسل انسانی کے تحفظ اور تقدس کی خاطر معاشرے کو زنا سے پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اسلام نے اس کے لیے صرف سزاؤں پر قناعت نہیں کی بلکہ سزاؤں کا معاملہ تو اس قدر دشوار بنا دیا ہے کہ بظاہر انتہائی سخت نظر آنے والی سزا تک کسی مقدمہ کو پہنچانے کے لیے جو ثبوت درکار ہیں ان کا فراہم کرنا عام حالات میں مشکل ہو جاتا ہے۔ البتہ اسلام نے سخت ترین سزاؤں کی دھمکی دے کر ان اسباب کی طرف اصل توجہ دی ہے جو بدکاری کا موجب بنتے ہیں۔ چنانچہ اس کے لیے اسلام نے مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط پر قدغن لگائی ہے، پردہ کا حکم دیا ہے، نگاہ بازی کو ممنوع قرار دیا ہے، محرم اور نامحرم کی حد قائم کی ہے، اور مردوں و عورتوں کے فرائض اور حقوق میں ایک واضح تقسیم کر دی ہے۔
اب ظاہر بات ہے کہ اگر حلال و حرام کا فرق نہیں ہوگا، محرم اور نامحرم کی تمیز نہیں ہوگی، آزادانہ گفتگو اور اختلاط میں رکاوٹ نہیں ہوگی، اور حقوق و فرائض کی فطری تقسیم ختم کر کے ہر معاملہ میں مساوات کے نام پر باہم میل جول کے لیے بے حجاب مواقع میسر ہوں گے تو اس بدکاری کو نہیں روکا جا سکے گا جس کو اسلام جرم قرار دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد دو ہی راستے باقی رہ جائیں گے۔ ایک یہ کہ اسے جرم قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا جائے جیسا کہ مغرب نے کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر وہ جرم ہے اور اسے بہرصورت روکنا مقصود ہے تو پھر ان سب اسباب و عوامل پر قدغن لگائی جائے جو اس جرم تک انسان کو لے جاتے ہیں، اور اسلام نے یہی راستہ بتایا ہے۔
الغرض عام جرائم کی بات ہو یا تخریب کاری اور دہشت گردی کا قصہ ہو۔ ہمیں اپنے طرز عمل پر بہرحال نظر ثانی کرنا ہوگی جو ہم نے اب تک اختیار کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں جرائم اور دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اصل بات اسباب و عوامل کی نشاندہی کی ہے اور یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے اور نہ ہی ملک کے ارباب عقل و شعور سے مخفی ہے۔ مگر ’’ہم یہ کر سکتے ہیں‘‘ کے دائرے سے نکلنے اور ’’ہونا یہ چاہیے‘‘ کے ہدف کی طرف بڑھنے کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی، طریق کار تبدیل کرنا ہوگا، صف بندی پر نظر ثانی کرنا ہوگی، اور تحفظات کے بہت سے مصنوعی خول اتار کر پھینکنا ہوں گے۔ ورنہ جرائم پر قابو پانے کا روایتی سسٹم اور طریق کار اس قدر ’’متعفن‘‘ ہو چکا ہے کہ اس میں گندے کیڑے پیدا کرنے اور ماحول کو مزید بدبودار بنانے کے علاوہ کوئی صلاحیت باقی نہیں رہی۔