شجرہ نصب
سید محمد شمس الدین ابن مولانا محمد زاہد ابن حاجی محمد رفیق ابن عبد الحق ابن ہیبت ابن اٹل ابن روزی ابن عبد الرسول ابن محمد عثمان ابن محمد عمر ابن محمد ابراہیم ابن حطمان ابن فالی ابن حریف لقب روسید حروم است ابن عبد اللہ ابن محمد تور بابا ابن سید غورہ یار خانی ابن یار محمد ابن احمد ابن غنم خور بادشاہ ابن قاتعا ابن قابین ابن رحال یا ہارون بن سید عبد الرشید ابن کعب المعروف طبالی ابن اسماعیل ابن سید عابد ابن سید زین الدین ابن امام جعفر الصادق ابن امام باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
بخارا سے ہجرت
مولانا شمس الدینؒ کا قبیلہ حریف آل کہلاتا ہے۔ اس قبیلہ کے جد امجد حضرت حریف شہید رحمۃ اللہ علیہ بخارا سے ہجرت کر کے فورٹ سنڈیمن کے شمال جنوب میں ۳۰ میل دور ایک صحت افزا مقام شین غر میں آئے تھے اور وہیں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ یہ ہجرت بھی عجیب حالات میں ہوئی، حریف شہیدؒ کے والد محترم حضرت عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فرمایا کہ افغانوں کے علاقہ میں اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور افغان آپس میں لڑ رہے ہیں اس لیے تم خود وہاں جاؤ یا اپنے کسی بیٹے کو وہاں بھیجو۔ حضرت عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں اپنے فرزند حریفؒ کو ہجرت کا حکم دیا اور وہ خچر پر سوار ہو کر افغانستان کے راستہ سے شین غر کے مقام تک پہنچے۔
یہاں دو مشہور قبائل شیرانی اور مندوخیل آپس میں دست و گریباں تھے۔ حضرت حریفؒ نے ان کے درمیان تمام تنازعات کا تصفیہ کرا کے ان کی صلح کرا دی۔ ان دونوں نے آپ سے استدعا کی کہ آپ مستقل طور پر ہمارے پاس قیام فرمائیں۔ آپ اپنی خچر پر سوار ہو کر طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک جتنا علاقہ عبور کریں گے وہ پورا علاقہ آپ کی اور آپ کے خاندان کی ملکیت میں دے دیا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور وہ علاقہ آپ کی تحویل میں دے دیا گیا، جہاں آج بھی قبیلہ سادات حریف آل کے سینکڑوں خاندان آباد ہیں۔
حضرت حریفؒ خاندان کو آباد کرنے کے بعد خود احمد شاہ ابدالیؒ کے ساتھ جہادِ ہندوستان میں شریک ہوئے اور اسی میں شہید ہو گئے، طور دکن نامی کسی جگہ آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
فورٹ سنڈیمین میں آمد
مولانا شہیدؒ کے دادا حضرت حاجی محمد رفیق رحمۃ اللہ علیہ شین غر سے نقل مکانی کر کے فورٹ سنڈیمین میں تشریف لائے اور رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ آپ کو قدرت نے متعدد بار حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف فرمایا۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ ہر بار اپنے بیٹے کو ساتھ لے جاتے۔ آخری بار چھوٹے فرزند مولانا سید محمد زاہد مدظلہ کو ساتھ لے گئے۔ مسجد نبوی میں روضۂ اطہر کے سامنے ان کی دستاربندی کر کے انہیں اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ آپ نے واپس آ کر والد محترم کی نیابت کے فرائض سرانجام دینا شروع کیے اور اب تک مسجد فورٹ سنڈیمین میں درس و خطابت اور ہزاروں مریدوں کی راہنمائی کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔
مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ
مولانا شمس الدین شہیدؒ ۲۱ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۴ھ کو اس عالمِ فانی میں تشریف لائے۔ سات برس کی عمر میں تعلیم شروع کی، ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ صرف و نحو کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سکول کی تعلیم بھی جاری رکھی۔ اور ۱۹۶۳ء میں گورنمنٹ ہائی سکول فورٹ سنڈیمین سے میٹرک کیا۔ اس کے بعد مولانا سید زاہد مدظلہ نے اپنے پرانے رفیق مولانا قاضی عبد الکریم صاحب آف کلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے مشورہ پر باضابطہ دینی تعلیم کے لیے سید محمد شمس الدین کو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں بھیج دیا۔ جہاں آپ نے دو سال قیام کر کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق دامت برکاتہم کی زیرسرپرستی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال تک مدرسہ عربیہ نیو ٹاؤن کراچی میں حضرت العلام مولانا محمد یوسف بنوری دامت برکاتہم کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ پھر مدرسہ مخزن العلوم والفیوض عیدگاہ خانپور میں حضرۃ الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم کی سرپرستی میں رہے اور علوم و فنون کی تعلیم کے ساتھ قرآن پاک کی تفسیر بھی حضرت مدظلہ سے پڑھی اور بیعت بھی ہوئے۔ بعد ازاں مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں ایک سال قیام کیا اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم سے دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ راقم الحروف کو ان کے ساتھ دورۂ حدیث میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی اور ہم دونوں نے دورۂ حدیث سے اکٹھے فراغت حاصل کی۔
میدانِ عمل میں
مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ بلند پایہ اساتذہ کی زیرسرپرستی تعلیم حاصل کرنے کے باعث شروع سے ہی واضح اور ٹھوس عقائد و نظریات اور واضح سیاسی رجحانات کے حامل تھے۔ طالب علمی کے دور میں جمعیۃ طلباء اسلام کے ساتھ وابستہ تھے اور بلوچستان شاخ کے صدر بھی رہے ہیں۔ جب آپ مدرسہ نصرت العلوم میں تھے تو جمعیۃ علماء اسلام کے دیہاتی تبلیغی پروگراموں میں میرے ساتھ جایا کرتے تھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر عملی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں جمعیۃ کے ٹکٹ پر فورٹ سنڈیمین کے صوبائی حلقہ میں الیکشن لڑ کر علاقہ کے بہت با اثر نواب تیمور شاہ کو شکست دی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد صوبہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیمِ نو کی طرف توجہ دی اور جمعیۃ کے صوبائی انتخابات کے موقع پر آپ کی بے لوث محنت اور مخلصانہ مساعی کے باعث آپ کو متفقہ طور پر صوبائی امیر منتخب کر لیا گیا۔ صوبائی اسمبلی منعقد ہوئی اور نیپ جمعیۃ کابینہ نے حلف اٹھایا تو آپ کو متفقہ طور پر صوبائی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر منتخب کر لیا گیا۔ اور یوں آپ نے ایک اہم سیاسی جماعت کے صوبائی سربراہ اور صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی حیثیت سے بھرپور عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔
جذبۂ حق گوئی
آپ حق بات کو مصلحتوں کے پردہ میں چھپانے کے ’’فن‘‘ سے نا آشنا تھے۔ نیپ جمعیۃ کولیشن کے دور میں اگر حلیف پارٹی نیپ کے کسی کام پر آپ مطمئن نہ ہوتے تو برسرِ عام ٹوک دیتے تھے۔ اور ایک بار تو نیپ جمعیۃ معاہدہ پر عمل کے سلسلہ میں آپ نے اسمبلی کا بائیکاٹ بھی کر دیا۔ بعد میں نیپ کی طرف سے واضح یقین دہانی کے بعد آپ نے بائیکاٹ ختم کیا۔
بلوچستان کی اکثریتی وزارت کی برطرفی کے بعد ایک موقع پر میں نے ان سے عرض کیا تو کہنے لگے، نیپ سے اگر ہمیں کوئی شکایت تھی تو اب نہیں رہی، ہم دونوں ظلم و جبر کا شکار ہیں اور مل کر اس ظلم کا مقابلہ کریں گے۔
گورنر بگتی اس زعم میں گورنری کی مسند پر بیٹھے تھے کہ نیپ جمعیۃ کی اکثریت کو توڑ سکیں گے۔ مولانا شمس الدینؒ پر بہت دباؤ ڈالا، ڈرایا دھمکایا، لالچ دی، مگر آپ کسی لالچ میں نہ آئے۔ جبکہ آپ سے سینئر حضرات سیم و زر کی دلربائی کے آگے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ آپ کو بہکانے کے لیے راولپنڈی سے ’’بزرگ‘‘ بھی درآمد کیے گئے مگر کوئی ’’بزرگی‘‘ آپ کی ’’دیوانگی‘‘ پر اثر انداز نہ ہو سکی۔
تحفظِ ختمِ نبوت
فورٹ سنڈیمین میں قادیانیوں نے قرآن کریم کے محرف نسخے تقسیم کیے۔ آپ کی ایمانی غیرت نے گورا نہ کیا۔ کفر کے خلاف ڈٹ گئے۔ عوام نے بھی خوب ساتھ دیا۔ ۱۵ روز تک مکمل ہڑتال رہی، ایسی ہڑتال کہ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی صاحب کو بھی باہر نکلنے کے لیے جامع مسجد سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ گرفتاریاں ہوئیں، تشدد ہوا مگر بالآخر تحریک کامیاب ہو گئی۔ قادیانی لٹریچر ضبط کر لیا گیا، قادیانیوں کو ضلع سے نکال دیا گیا اور گرفتار شدگان کو رہا کیا گیا۔
اسی دوران آپ کو گرفتار کر کے میوند پہنچا دیا گیا۔ فوج کے محاصرہ میں دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہے۔ آپ فوج کے محاصرہ میں تھے مگر قوم بے خبر تھی، بے چین تھی، مضطرب تھی، کسی کو خبر نہ تھی کہ مولانا شمس الدین کہاں ہیں؟ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ قائد جمعیۃ مولانا مفتی محمود مدظلہ نے اسمبلی میں آواز اٹھائی تو پتہ چلا کہ زندہ ہیں اور میوند میں موجود ہیں۔ سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی گئی، ہائی کورٹ نے حکومت سے آپ کو طلب کر لیا۔ ادھر فورٹ سنڈیمین میں نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کر دی جو ۹۵ گھنٹے تک جاری رہی۔ بالآخر حکومت آپ کو رہا کرنے پر مجبور ہو گئی۔
گورنر نے رہائی کے لیے آپ کے والد محترم سے رابطہ قائم کر کے کچھ شرائط طے کرنا چاہیں مگر اس عظیم باپ نے گورنر کے ’’باریش ایلچی‘‘ کو صاف جواب دیا کہ میں اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے گورنر سے ملاقات کے لیے تیار نہیں ہوں، یہ ختمِ نبوت کا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ پر میں دس شمس الدین قربان کر سکتا ہوں۔
پیشکشیں
آپ نے بتایا کہ میوند میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے پیغامات موصول ہوتے رہے۔ وزیر اعلیٰ خود بھی آئے۔ پیشکشیں ہوئیں کہ وزیر اعلیٰ بن جاؤ، جو عہدہ چاہو قبول کر لو، جتنی دولت مانگو گے ملے گی، جو چاہو گے کھلی آزادی ہو گی مگر حکومت کا ساتھ دو، ورنہ نہیں رہو گے۔ مگر میں نے ٹھکرا دیا اور کہا، کیا ایک مجرم بھی قید خانے سے نکل کر وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے؟ رہائی کے بعد بھی آپ کو راہِ حق سے ہٹانے بہکانے اور پھسلانے کی کوشش جاری رہی مگر پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ ہوئی۔
بے اصول کون؟
بھٹو صاحب نے پنڈی بلایا اور فرمانے لگے کہ آپ لوگ با اصول ہیں، بے لوث ہیں، اگر آپ جیسے لوگ میرا ساتھ دیں تو میں ملک کی کایا پلٹ دوں، اس لیے آپ نیپ کا ساتھ چھوڑ کر میرا ساتھ دیں۔ جواب ملا، بھٹو صاحب! کیا اقتدار کے لیے نیپ کو چھوڑ کر ہم با اصول رہیں گے؟ بھٹو صاحب کے لیے خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
آپ نے کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، سرگودھا اور ملک کے دوسرے شہروں کے دورے کیے، آمریت کو للکارا، ظلم و جبر کی قوتوں کو چیلنج کیا۔ بلوچستان میں ایرانی فوج کی موجودگی، غیر ممالک کی دلچسپی، اور ملکی سالمیت کو لاحق خطرات کو بے نقاب کیا، بالآخر جب آپ کی سرگرمیاں حد سے بڑھ گئیں تو آپ کو راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
آخری انتباہ
آخری بار گورنر بلوچستان نے بلایا اور کہا، جوانی پر ترس کھاؤ اور آجاؤ۔ مگر مولانا شمس الدینؒ تو جوانی لٹانے کی فکر میں تھے۔ ایک بڑے آدمی نے بلینک چیک دستخط کر کے دیا کہ جتنی رقم چاہو لکھو اور کیش کرا لو۔ جواب میں چیک پھاڑ دیا اور کہا جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بک چکا ہو کسی اور کے آگے نہیں بک سکتا۔
شہادت
بالآخر مولانا سید شمس الدین شہیدؒ کی تمنا پوری ہوئی۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے حج اس لیے کیا تھا کہ وہاں اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعا مانگوں۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور ایک شقی القلب نے کوئٹہ سے فورٹ سنڈیمین جاتے ہوئے ۱۳ مارچ ۱۹۷۴ء ’’خل گئی‘‘ کے مقام پر انہیں گولیاں کا نشانہ بنا دیا۔ اور وہ تیس سالہ مختصر زندگی میں کامیابیوں کے انبار سمیٹے ہوئے کامران و کامیاب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو گئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را