روزنامہ جنگ کراچی ۲۰ نومبر ۲۰۰۰ء کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی کی راہنما مس سوبل اور مزدور راہنما ٹم گڈن نے لاہور پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’’پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو قرضے ملتے ہیں ان کے ایک ڈالر کے گیارہ ڈالر واپس کرنا پڑے ہیں۔ تمام غریب ممالک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضے واپس نہ کرنے کے بارے میں بحث زور و شور سے جاری ہے اور عنقریب یہ تحریک کی شکل اختیار کر لے گی۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں سے فرسٹ ورلڈ کے ممالک میں امیری اور تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں غربت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا سے غربت کے خاتمے کا حل کیپٹل ازم کا خاتمہ ہے۔ آسٹریلوی راہنماؤں نے کہا کہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف امیر ممالک کو مزید امیر بنانے کے ادارے ہیں۔ غریب ممالک کے عوام میں ان اداروں کی بالادستی کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے، امیر ممالک اس نئی تحریک سے لرزاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ٹی او کو اپنے اجلاس کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ مس سوبل اور ٹم گڈن نے کہا کہ پاکستان کے ذمے ۳۳ ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور اسے ایک ڈالر کے بدلے میں گیارہ ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں، اس کے باوجود آئی ایم ایف دباؤ ڈال رہا ہے کہ منافع بخش سرکاری ادارے تیل، گیس، ایئرپورٹس، ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ فروخت کیے جائیں، جس سے بے روزگاری پھیلے گی۔‘‘
آسٹریلیا کی سوشلسٹ پارٹی کے راہنماؤں نے لاہور پریس کلب میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نئے نہیں ہیں، اور نہ ہی ان میں کوئی چونکا دینے والی بات ہے، کیونکہ یہ حقائق دنیا پر بہت پہلے آشکارا ہو چکے ہیں کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کی دولت اور وسائل کا استحصال کر کے پوری دنیا کی دولت اور وسائل و ذرائع پر چند امیر ممالک کی اجارہ داری قائم کر دی جائے۔ تاکہ دنیا بھر کے ممالک کو معاشی مجبوریوں اور بے بسی کی زنجیروں میں جکڑ کر اس ’’عالمی حکومت‘‘ کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہنایا جا سکے جو یہودی ذہن صدیوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور جس کی تکمیل کے پہلے مرحلہ میں مغربی ممالک کی معیشت، سیاست اور ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب دوسرے مرحلہ میں اسی کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک و اقوام کو عالمی اجارہ داری کے شکنجے میں جکڑنے کی مہم جاری ہے۔
البتہ پاکستان اس وقت جس بری طرح سے ان عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کا شکار ہے اس کے پس منظر میں آسٹریلوی راہنماؤں کی یہ باتیں ہمارے لیے یاددہانی کا درجہ ضرور رکھتی ہیں، اور ہمیں امید ہے کہ متعلقہ ادارے، مراکز اور افراد اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے ہوئے وطنِ عزیز کو عالمی مالیاتی اداروں اور ان کے ذریعے عالمی یہودی اجارہ داری کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی اور طریق کار اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔