سرد جنگ کے بعد کی صورتحال اور ورلڈ اسلامک فورم

   
اگست ۱۹۹۵ء

افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں روسی استعمار کی پسپائی اور عالمی سرد جنگ کے نتیجہ میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد ملت اسلامیہ پوری دنیا میں ایک نئی صورتحال سے دوچار ہوگئی ہے۔ مغرب نے امریکی استعمار کی قیادت میں کمیونزم کے بعد اسلام کو اپنا سب سے بڑا حریف قرار دیتے ہوئے ملت اسلامیہ کے ان طبقوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے جو اسلام کو اپنی شناخت قرار دیتے ہیں اور مسلم معاشرہ میں اسلامی اصولوں کی بالادستی اور حکمرانی کے لیے برسرپیکار ہیں۔

ویسٹرن سولائزیشن کی بنیاد انسانی معاشرہ کے اجتماعی معاملات میں مذہب کے کسی بھی عملی کردار سے انکار پر ہے۔ مغربی دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ عالم اسلام کے کسی حصہ میں دینی اقدار کی بنیاد پر صحیح مسلم معاشرہ وجود میں آگیا تو وہ ویسٹرن سولائزیشن کے لیے حقیقی خطرہ ثابت ہوگا اور اضمحلال کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھتا ہوا مغربی معاشرہ تازہ دم اسلامی سوسائٹی کا سامنا نہیں کر پائے گا۔ اسی خطرہ کے پیش نظر مغربی حکومتیں، لابیاں اور ذرائع ابلاغ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایسے اقدامات میں مصروف ہیں جو عالم اسلام میں دینی تحریکات کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں اور مسلم ممالک میں بے دینی کے اثرات کو مستحکم کر سکیں۔

مغربی دانشوروں کا خیال تھا کہ گزشتہ دو سو سال کے عرصہ میں مسلم ممالک پر مغربی ممالک کے تسلط کے دوران ان علاقوں میں آزاد خیالی اور تہذیب و ترقی کے نام پر مذہبی اقدار سے بے زاری کا جو بیج بویا گیا ہے اس کی فصل پک چکی ہے اور اب مذہبی حلقوں میں نئے رجحانات کا سامنا کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ اسی طرح مغربی اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ مختلف مسلمان ملکوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں مغربی ممالک میں آبسی ہے، وہ یا ان کی آئندہ نسل مکمل طور پر مغربی سانچے میں ڈھل کر اپنے علاقوں میں مغربیت کے اثرات کی تقویت کا سامان فراہم کرے گی۔ لیکن مغربی دانشوروں کے یہ دونوں خیال غلط ثابت ہوئے ہیں اور جہاں مسلم ممالک میں دن بدن قوت پکڑتی ہوئی دینی بیداری کی تحریکات نے مغرب کی سیکولر لابیوں کی توقعات خاک میں ملا دی ہیں وہاں مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں میں اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھنے کا روز افزوں احساس بھی مغربی دانشوروں کے لیے پریشان کن صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔

اسلام دین فطرت ہے جس کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے اور وہ محض چند عبادات یا اخلاقی ہدایات کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی معاشرہ کی تمام ضروریات پر محیط مکمل نظام حیات ہے جو انسانی معاشرہ میں اپنی ضرورت و افادایت کو فطری انداز میں اجاگر کرتا جا رہا ہے۔ جبکہ تکوینی طور پر بھی عالمی سطح پر رونما ہونے والی بعض تبدیلیاں اسلام کے ساتھ انسانیت کے مستقبل کا رشتہ جوڑتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کی سرگرمیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں جو اسلام کا راستہ روک دینا چاہتی ہیں اور عالم اسلام کی دینی قوتوں کے خلاف فیصلہ کن محاذ آرائی کا آغاز کر چکی ہیں۔

ملت اسلامیہ کے ساتھ مغربی قوتوں کا معاملہ اس سے قبل بھی کبھی دوستانہ نہیں رہا لیکن روسی استعمار کے خلاف سرد جنگ کے دوران مسلم ممالک کے ساتھ بظاہر ہمدردانہ تعلق مغرب کی اپنی ضرورت تھا جو اس ضرورت کی حد تک اس دوران ضرور قائم رہا مگر اسی تعلق کے حوالے سے مغرب کو مسلم ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو بڑھانے اور مسلم دارالحکومتوں میں اپنی گھاتیں قائم کرنے کا موقع بھی ملتا رہا ہے جو آج بھی مغربی مفادات کے لیے پوری کامیابی کے ساتھ استعمال ہو رہی ہیں اور دینی حلقوں کے مقابلے کے لیے ’’روبوٹ‘‘ کا کام دے رہی ہیں۔

روسی استعمار کا خاتمہ اور اس کے تسلط سے افغانستان اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کی آزادی عالم اسلام اور مغربی استعمار کی مشترکہ ضرورت تھی جس کے لیے ایک عرصہ تک دونوں میں تعاون کی فضا قائم رہی۔ لیکن آج جبکہ مشترکہ دشمن سامنے سے ہٹ گیا ہے، عالم اسلام اور مغربی استعمار کے درمیان باہمی تعاون و مفاہمت کی مجبوری باقی نہیں رہی تو دونوں ایک دوسرے کے حریف کے طور پر آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اس میں مغرب کو یہ تفوق بہرحال حاصل ہے کہ وہ مستحکم ہے، منظم ہے، متحد ہے، اس کے وسائل مجتمع اور ترقی یافتہ ہیں اور اس کی ترجیحات طے شدہ ہیں۔ جبکہ عالم اسلام منتشر ہے، غیر مستحکم ہے، اپنے وسائل پر اس کا کنٹرول نہیں ہے، اس کی بیشتر حکومتیں مغرب کی ہمدرد یا اس سے مرعوب ہیں اور ترجیحات تو رہیں ایک طرف اس کے اہداف بھی واضح طور پر متعین نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آپ اس صورتحال کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ اسلام کی بالادستی کا راستہ روکنے کی اس جنگ میں مغرب کی مستحکم حکومتوں، منظم لابیوں اور ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ کا مقابلہ مسلم ممالک کی حکومتوں سے نہیں بلکہ ان دینی تحریکات سے ہے جو اپنی اپنی جگہ پورے اخلاص کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہیں۔ لیکن نہ ان تحریکات کے پاس اقتدار اور حکومت کے وسائل ہیں اور نہ وہ باہمی ربط و مشاورت اور مشترکہ قیادت سےبہرہ ور ہیں جو اس جنگ میں ان کے لیے اجتماعی حکمت عملی اور ترجیحات کا تعین کر سکے۔

مغرب اس جنگ کو بھی سرد جنگ کے دائرے میں محدود رکھے ہوئے ہے اور اسلحہ اور ہتھیار کا استعمال انتہائی اہم ضرورت کے بغیر اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ بلکہ اس جنگ میں اس کے اصل ہتھیار تعلیم، میڈیا اور نفسیاتی حربے ہیں جن کے ذریعے وہ ملت اسلامیہ کی رائے عامہ کے ذہن کو کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ تاکہ وہاں تک عالم اسلام کی دینی قوتوں کی رسائی نہ ہو سکے اور دنیا کی مسلم رائے عامہ کی عظیم قوت اسلامی اصولوں کی بالادستی اور ایک صحیح مسلم معاشرہ کے قیام کی طرف پیش رفت نہ کر سکے۔ اس مقصد کے لیے

  • مغرب، ویسٹرن سولائزیشن کو انسانی معاشرت کا نقطۂ عروج قرار دے کر اس کی طرف پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کو دعوت دے رہا ہے،
  • اسلامی احکام و قوانین کو انسانی حقوق اور سولائزیشن کے منافی قرار دے کر ان کے خلاف نفرت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے،
  • اور عالم اسلام کی دینی تحریکات پر بنیاد پرست اور دہشت گرد کا لیبل چسپاں کر کے باقی دنیا کو ان سے دور رکھنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔

اس صورتحال میں شدت کے ساتھ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ عالمی سطح پر حالات کی تیز رفتار تبدیلی اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نئے تقاضوں اور ضروریات کی طرف دینی حلقوں کو متوجہ کرنے کے لیے منظم جدوجہد کی جائے۔ کیونکہ بدقسمتی سے آنے والے حالات کے رخ کا بروقت اندازہ کرنا اور اس کے تقاضوں کو محسوس کرنا ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں بن سکا اور پہلی چار پانچ صدیوں کو چھوڑ کر ہر دور میں ملت اسلامیہ کو نئے تقاضوں کا احساس دلانے کے لیے اہل فکر و دانش کو خاصی چیخ و پکار کرنا پڑی ہے۔ جیسا کہ برصغیر کے معرف دانشور مفکر احرار چودھری افضل حق مرحوم نے قوموں کا مزاج بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریز کوئی کام کرنے سے پہلے سالوں سوچتا ہے اور اس کی منصوبہ بندی کرتا ہے، ہندو مہینوں پہلے سوچتا ہے اور اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہے، جبکہ مسلمان کام کرتا جاتا ہے اور سوچتا جاتا ہے۔ اور برصغیر ہی کی ایک اور قوم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کام کرچکنے کے بعد سوچنے کی عادی ہے۔ مگر مغربی میڈیا کی فسوں کاری کی داد دینا پڑتی ہے کہ مسلمان کو اس مقام پر بھی نہیں رہنے دیا کہ وہ کام کرتے ہوئے بھی سوچ اور فکر سے کام لے سکے، چنانچہ یہ المناک صورتحال دیکھنا پڑ رہی ہے کہ کام ہو رہا ہے مگر کام کرتے ہوئے بھی اس کے سود و زیاں کے بارے میں سوچنے کی عادت بیدا رنہیں ہو رہی۔

مسلم ممالک میں دینی حلقوں اور جماعتوں کی کمی نہیں بلکہ بعض مقامات پر وہ ایک سے دو، اور دو سے تین ہوتی جا رہی ہیں۔ دینی ادارے مسلسل قائم ہو رہے ہیں، سوسائٹیاں بن رہی ہیں، اپنی اپنی بساط کے مطابق سب لوگ کام کر رہے ہیں اور وسائل، محنت اور خلوص کا فقدان بھی نہیں ہے۔ مگر جس چیز کا فقدان ہے وہ ہے: حالات کی تبدیلی کا احساس، نئے تقاضوں سے آگاہی، باہمی ربط و مشاورت کے ساتھ کام کرنے کی ترجیحات اور تقسیم کار کا تعین، اور مشترکہ اہداف کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام۔

دینی اداروں اور تحریکات کی جدوجہد میں یہ خلا حالات کی تیز رفتار تبدیلی کے پس منظر میں اہل فکر و دانش کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہو رہا ہے اور یہی احساس ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ کے قیام کا بنیادی محرک بنا ہے۔ ورلڈ اسلامک فورم کا قیام نومبر ۱۹۹۲ء کے دوران لندن میں عمل میں لایا گیا تھا جب لیٹن سٹون لندن میں الحاج غلام قادر کی رہائش گاہ پر چند اہل فکر جمع ہوئے، بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد الباقی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صدارت میں اجلاس ہوا اور مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے فورم کے قیام کا فیصلہ کیا گیا:

  • اسلام کی دعوت اور اسلامی نظام کو جدید اسلوب اور زبان میں دنیا کے سامنے پیش کرنا۔
  • اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سیکولر لابیوں اور ذرائع ابلاغ کی منفی مہم کا ادراک اور تعاقب۔
  • جدید ترین ذرائع ابلاغ تک رسائی کی کوشش۔
  • عالم اسلام کی دینی تحریکات اور اداروں کے درمیان رابطہ اور مشاورت کا فروغ۔
  • مغربی ممالک میں مقیم مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کی جدوجہد۔

عام طور پر کسی نئے کام کے لیے نئی جماعت اور حلقے کا قیام ہمارے ہاں ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ جماعت، حلقے یا ادارے کے قیام کے بعد توجہات اور صلاحیتوں کا بیشتر حصہ اپنے وجود کا احساس دلانے، دائرہ کو وسعت دینے اور جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے پر صرف ہو جاتا ہے، جبکہ اصل ہدف و مقاصد توجہات کا بہت کم حصہ حاصل کر پاتے ہیں۔ اسی لیے ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کے ساتھ ہی یہ حکمت عملی اختیار کر لی گئی تھی کہ فورم کو مستقل جماعت یا فکری حلقہ کی شکل دینے کی بجائے ہم خیال دوستوں کی ایک سوسائٹی کے درجہ میں رکھا جائے گا اور جو ادارے، حلقے، جماعتیں اور گروہ مختلف محاذوں پر کام کر رہے ہیں انہی کو توجہ دلا کر اجتماعی مقاصد کی طرف پیش رفت کی کوشش کی جائے گی۔ گویا ورلڈ اسلامک فورم تمام علمی و دینی اداروں، جماعتوں اور حلقوں کا خادم ادارہ ہے جس کا کام وقت کے تقاضوں کو محسوس کرنا، ان کی نشاندہی کرنا اور متعلقہ اداروں کو ان کی طرف توجہ دلا کر ان کی بریفنگ کا اہتمام کرنا ہے۔ اس کے ساتھ تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلہ میں چند عملی اقدامات بھی کیے گئے جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

کسی نئی جماعت یا سوسائٹی کے قیام کے بعد کام کو منظم کرنے کے لیے وسائل و اسباب کی فراہمی سب سے اہم مسئلہ ہوتی ہے جس کے لیے عام چندے یا مسلم حکومتوں سے رابطے کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے لیکن فورم کے لیے معروضی حالات میں ان میں سے کوئی طریق کار اختیار کرنا مشکل تھا۔ عام چندہ اس لیے کہ مساجد میں عمومی چندہ کے لیے جو طریق کار اختیار کیا جاتا ہے وہ ہمارے نزدیک باوقار صورت نہیں ہے اور کسی مسلم حکومت کے ساتھ رابطہ سے اس لیے گریز کیا گیا کہ عالم اسلام بالخصوص مغربی ممالک کے مسلمانوں میں مختلف مسلم حکومتوں اور لابیوں اور ان کے درمیان کشمکش کی جو صورتحال کافی عرصہ سے دیکھنے میں آرہی ہے اس کے پیش نظر کسی مسلم حکومت کی لابی سے وابستہ ہونا فورم کے بنیادی مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس قسم کی وفادارانہ وابستگی کے بغیر کوئی حکومت کسی ادارے سے تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ فورم کے کاموں کو ممبرشپ کی فیس اور اصحاب خیر کے تعاون سے آگے بڑھایا جائے گا مگر بدقسمتی سے ہم نہ تو زیادہ تعداد میں دوستوں کو ممبرشپ کے لیے آمادہ کر سکے اور نہ ہی اصحاب خیر کو اپنے پروگرام کی اہمیت سمجھانے میں ہمیں کامیابی ہوئی ہے۔ اس لیے اسباب و وسائل کا پہلو خاصا تشنہ ہے اور اس سلسلہ میں فورم مسلسل مقروض اور زیربار ہے۔ اس کے باوجود ورلڈ اسلامک فورم اپنے قیام کے بعد سے اب تک پونے تین سال کے عرصہ میں جو خدمات سرانجام دے سکا ہے اس کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

اسلامک ہوم اسٹڈی کورس

مغربی ممالک میں مقیم مسلمان بچوں اور بچیوں کو دینی معلومات سے آراستہ کرنے کے لیے انگلش اور اردو دو زبانوں میں خط و کتابت کورس ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ اس کورس کے لیے اسباق دعوہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان نے فراہم کیے ہیں اور اس کے انتظامات ورلڈ اسلامک فورم کی نگرانی میں مدنی ٹرسٹ، مدنی مسجد نوٹنگھم برطانیہ کے سپرد ہیں جو مولانا رضاء الحق کی سربراہی میں انہیں حسن و خوبی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔

مطالعہ اسلام کا یہ ایک سالہ کورس گزشتہ سال شروع کیا گیا تھا جس میں تین درجن کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات شریک ہیں اور اس سال اگست میں مکمل ہونے والا ہے۔ اس کے دفتری اور ڈاک کے اخراجات کے لیے تیس پونڈ سالانہ فیس رکھی گئی ہے اور اگلے سال کے کورس کا آغاز ستمبر میں ہونے والا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

قرآن کریم کا انگلش ترجمہ

مدینہ یونیورسٹی کے فاضل استاذ الشیخ تقی الدین الہلالی اور ڈاکٹر محمد محسن خان کا مرتب کردہ انگریزی ترجمہ قرآن کریم اپنی زبان اور حاشیہ میں مستند معلومات کے لحاظ سے علمی حلقوں میں پسند کیا گیا ہے۔ ورلڈ اسلامک فورم نے اس کا ایک ایڈیشن اپنی طرف سے شائع کیا ہے جو لاگت ہدیہ پر شائقین کو فراہم کیا گیا ہے اور اب قریب الاختتام ہے۔

فکری نشستیں

ورلڈ اسلامک فورم نے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے بارے میں ماہانہ فکری نشستیں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو اگرچہ پورے تسلسل کے ساتھ جاری نہیں رہ سکیں تاہم اس دوران لندن، اسلام آباد، کراچی، لاہور، گوجرانوالہ اور ہری پور ہزارہ میں بیس کے لگ بھگ فکری نشستوں کا انعقاد ہوا۔ ان نشستوں میں انسانی حقوق، توہین رسالتؐ کی سزا، عالم اسلام کے بارے میں امریکی عزائم، قاہرہ کانفرنس کے فیصلے اور دیگر اہم موضوعات پر خطاب کرنے والوں میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری، حضرت مولانا عتیق الرحمان سنبھلی، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی جیسی سرکردہ علمی شخصیات بھی شامل ہیں۔

سالانہ تعلیمی سیمینار

ورلڈ اسلامک فورم نے لندن میں بڑے پیمانے پر سالانہ تعلیمی سیمینار کے سلسلہ کا آغاز کیا۔ اس سلسلہ میں پہلا سالانہ سیمینار ۱۵ اگست ۱۹۹۳ء کو کانوے ہال ہالبورن لندن میں مولانا مفتی عبد الباقیؒ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں بھارت کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ ان کے علاوہ ڈاکٹر علامہ خالد محمود، مولانا عبد اللہ کاپودروی، مولانا پیر سید بدیع الدین شاہ راشدی، صاحبزادہ پیر سید سلطان فیاض الحسن قادری، مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی اور مختلف مکاتب فکر کے دیگر علماء کرام اور دانشوروں نے خطاب کیا۔

جبکہ دوسرا سالانہ سیمینار ۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمود احمد غازی کی صدارت میں منعقد ہوا جس سے ڈربن یونیورسٹی جنوبی افریقہ کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی، دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث حضرت مولانا سید ارشد مدنی، لاہور سے ماہنامہ محدث کے مدیر مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی، پاکستان کے شہید صحافی و دانشور محمد صلاح الدین مدیر تکبیر اور دیگر زعماء نے خطاب کیا۔

تعلیمی جائزہ رپورٹ

ورلڈ اسلامک فورم نے برطانیہ میں بچوں کی دینی تعلیم کے لیے کام کرنے والے مکاتب کے نظام اور نصاب کا جائزہ لینے کے لیے مکاتب کے سینئر اساتذہ کے درمیان مذاکرہ و گفتگو کا اہتمام کیا جس میں مکاتب کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اسے مزید بہتر اور مفید بنانے کے لیے سفارشات اور تجاویز پر مشتمل ’’جائزہ رپورٹ‘‘ مرتب کی گئی۔ یہ رپورٹ مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ پمفلٹ کی صورت میں بھی سامنے آچکی ہے اور متعدد مکاتب کو بھجوائی گئی ہے۔

ماہنامہ الشریعہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ پاکستان کے علمی و فکری جریدہ ماہنامہ الشریعہ کو، جو اکتوبر ۱۹۸۹ء سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے، ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کے بعد فورم کے آرگن کی حیثیت دے دی گئی تب سے وہ فورم کے موقف اور سرگرمیوں کی اشاعت کی خدمات مسلسل سرانجام دے رہا ہے۔ ماہنامہ الشریعہ اردو زبان میں شائع ہوتا ہے اور دینی و علمی حلقوں میں بحمد اللہ تعالیٰ وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وسائل کی کمی اور کاغذ کی روز افزوں مہنگائی کے باعث اس کے سائز اور ضخامت میں کمی کرنا پڑی ہے لیکن بحمد اللہ تعالیٰ اس کی باقاعدگی اور تسلسل میں کوئی فرق نہیں آیا۔

سیٹلائیٹ میڈیا

سیٹلائیٹ میڈیا تک رسائی اور ملی مقاصد کے لیے اس کے استعمال کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے ورلڈ اسلامک فورم نے ۲۸ مئی ۱۹۹۴ء کو لندن میں میڈیا ماہرین کے ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں جناب ڈاکٹر اکبر ایس احمد مہمان خصوصی تھے۔ مذاکرہ میں سیٹلائیٹ چینل کے لیے ’’دیڈیو ویژن انٹرنیشنل‘‘ کے ڈائریکٹر جناب سلیم مرزا نے ورلڈ اسلامک فورم کی فرمائش پر ایک رپورٹ مرتب کی جس میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر محیط سیٹلائیٹ چینل کا پروگرام پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈڈلی برطانیہ کے جناب محمد جمیل نے ’’چاند ٹی وی‘‘ کے نام سے رپورٹ مرتب کی ہے جس کا دائرہ کار یورپ ہے اور وہ یورپ میں مقیم مسلمانوں کے لیے پروگرام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ورلڈ اسلامک فورم نے برطانیہ اور پاکستان کے ماہرین سے ان دونوں رپورٹوں کے بارے میں مشورہ کیا ہے جس کے مطابق ان میں پیش کردہ پروگرام قابل عمل ہے مگر اصل مسئلہ سرمائے کا ہے۔ ہمارے خیال میں ایسا کوئی بھی پروگرام کسی حکومت کی امداد یا عوامی چندے کے ساتھ شروع کرنے کی بجائے تجارتی بنیادوں پر چلانا زیادہ مناسب اور قابل عمل ہوگا۔ اس لیے ایسے مسلمان تاجروں کی تلاش جاری ہے جو تجارتی بنیاد پر اس کام کو سنبھال سکیں۔ ورلڈ اسلامک فورم نے اس سلسلہ میں یہ پیشکش کی ہے کہ اسے پبلک لمیٹڈ فرم بنانے کی صورت میں حصص کی فروخت کی مہم میں فورم بھرپور طور پر شریک ہوگا۔

مختلف ممالک کے دورے

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین ابوعمار زاہد الراشدی اور سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے فورم کے پروگرام سے اہل علم و دانش کو متعارف کرانے کے لیے برطانیہ کے مختلف شہروں کے مسلسل اسفار کے علاوہ بیرونی ممالک کے دورے بھی کیے۔ اس دوران مولانا راشدی نے سعودی عرب، ازبکستان، کینیا اور کابل کا دورہ کیا جبکہ مولانا منصوری نے بھارت، پاکستان، جنوبی افریقہ، ری یونین اور سعودی عرب کا دورہ کیا اور ان ممالک کے سرکردہ مسلمان راہنماؤں سے فورم کے پروگرام اور مقاصد کے بارے میں تبادلہ خیالات کیا۔ ان میں سے بیشتر اصحاب فہم و دانش نے فورم کے پروگرام سے اتفاق کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

فورم کی سرپرستی

ورلڈ اسلامک فورم کے بانی، سرپرست جامع مسجد ویمبلڈن پارک لندن کے خطیب بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی عبد الباقیؒ تھے جو ضعف اور علالت کے باوجود فورم کی عملی سرپرستی فرماتے رہے۔ ان کا ۱۴ اگست ۱۹۹۴ء کو انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں، آمین یا الہ العالمین۔ ان کے علاوہ فورم کو جن بزرگوں کی عملی سرپرستی حاصل ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر، گوجرانوالہ، پاکستان۔

استاذ العلماء حضرت مولانا محمد عبد اللہ کاپودروی، ترکیسر، گجرات، انڈیا۔

پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی، ڈربن یونیورسٹی، جنوبی افریقہ (ابن حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ)

علاوہ ازیں عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمان نے اپنے مکاتیب گرامی میں فورم کی سرگرمیوں پر جس اطمینان اور مسرت کا اظہار فرمایا ہے وہ فورم کے لیے گراں قدر اور حوصلہ بخش سرمایہ ہے۔

ویسٹ واچ گروپ

ویسٹرن سولائزیشن نے انسانی معاشرہ کے لیے جو اخلاقی اور نفسیاتی مسائل پیدا کیے ہیں ان کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور مادر پدر آزادی کے خوفناک نتائج نے خود مغربی دانشوروں کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ چنانچہ مغربی معاشرت کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا اور ان کے منفی نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا بھی ورلڈ اسلامک فورم کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس مقصد کے لیے ’’ویسٹ واچ اسٹڈی گروپ‘‘ کے نام سے ایک سرکل قائم کیا گیا ہے جس کے سربراہ فورم کے ڈپٹی چیئرمین مولانا مفتی برکت اللہ ہیں جبکہ معروف دانشور اور ادیب فیاض عادل فاروقی اس کے سیکرٹری ہیں۔ لیکن اس کام کے لیے مکمل دفتری سہولتیں ضروری ہیں اس لیے اسے سردست پوری طرح منظم نہیں کیا جا سکا البتہ آئندہ پروگرام میں اسے پوری طرح اہمیت دینے کا خیال ہے۔

فورم کا ہیڈ آفس

ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کے بعد سے ختم نبوت سنٹر ۳۵ اسٹاک ویل گرین لندن میں اس کا رابطہ دفتر قائم ہے اور محترم الحاج عبد الرحمان باوا فورم کے دفتری امور کی نگرانی کر رہے ہیں۔ لیکن یہ انتظام عارضی ہے اور فورم کے لیے اپنا ہیڈ آفس ضروری ہے جس کے لیے ارادہ یہ ہے کہ کوئی ایسی جگہ حاصل کی جائے جہاں دفتری ضروریات اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا مکتب بھی قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے فارسٹ گیٹ لندن میں گزشتہ سال ایک بلڈنگ کا سودا کر کے چند دوستوں کے تعاون سے ابتدائی رقم بھی ادا کر دی گئی تھی لیکن باقی رقم کے حصول کے لیے پیش رفت نہ ہو سکی جس کی وجہ سے ہم وہ بلڈنگ حاصل نہ کر سکے۔ فورم کے اپنے دفتر اور مرکز کا قیام فورم کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہے جو اصحاب خیر کے فراخ دلانہ تعاون سے ہی پوری ہو سکتی ہے اور امید ہے کہ ان شاء اللہ العزیز ہم جلد ہی اس مقصد میں کامیابی حاصل کر سکیں گے۔

یہ ہے ورلڈ اسلامک فورم کی کم و بیش تین سالہ کارکردگی کی رپورٹ جو ماضی کی رپورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے عزائم کی آئینہ دار بھی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ فورم کے بنیادی مقاصد و اہداف کیا ہیں اور انہیں کن خطوط پر آگے بڑھانے کا پروگرام ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ان مقاصد میں ہمارے لیے خلوص اور کامیابی کی دعا فرمائیں اور ضروری وسائل و اسباب کی فراہمی میں فراخدلانہ تعاون کے لیے ہاتھ بھی بڑھائیں کیونکہ اسباب کی اس دنیا میں کسی بھی کام کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ احباب کا تعاون بھی ضروری ہے، امید ہے کہ احباب اس طرف ضرور توجہ فرمائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter