عراق نے اپنے اسلحہ کے ذخائر کے بارے میں دستاویزات اقوام متحدہ کی معائنہ ٹیم کے سپرد کر دی ہیں، اور اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی ٹیم کے سربراہ نے کہہ دیا ہے کہ عراق میں ممنوعہ اسلحہ کی موجودگی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوا۔ جبکہ عراق کے صدر صدام حسین نے دس سال قبل کویت پر عراقی حملہ کے حوالہ سے کویت کے عوام سے معافی مانگ لی ہے لیکن اس کے باوجود عراق پر امریکی حملے کے امکانات میں کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے، اور امریکی حکمرانوں کے تیور یہ نظر آرہے ہیں کہ وہ بہرصورت عراق پر حملہ کر کے رہیں گے۔ امریکی حکمرانوں نے یہ بات اب کھلم کھلا کہنا شروع کر دی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے عراق کے صدر صدام حسین کو اپنے ملک میں امریکہ کی مرضی کی حکومت کے قیام کے لیے صدارت کے منصب سے الگ ہونا پڑے گا، ورنہ جنگ ناگزیر ہے اور امریکہ بزور بازو عراق کی حکومت کو تبدیل کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اصل مسئلہ نہ کویت کا تھا اور نہ ہی عراق میں ممنوعہ ہتھیاروں کی موجودگی کا ہے بلکہ امریکہ کا اصل مسئلہ صرف یہ ہے کہ عراق میں اس کی مرضی کی حکومت قائم ہو جو نہ صرف تیل کے چشموں پر امریکہ کے قبضے اور کنٹرول میں اس کی فدویانہ طور پر معاونت کرے، بلکہ امریکہ کے ’’لے پالک‘‘ اسرائیل کو عراق کی فوجی صلاحیت سے کسی حد تک جو خطرہ نظر آرہا ہے، اس کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ امریکہ کی طرف سے عراق کے ایک بڑے حصے کو اردن کے ساتھ ملا کر ایک نئی سلطنت کے قیام کی تجویز بھی سامنے آچکی ہے جسے ’’ہاشمی سلطنت‘‘ کا نام دے کر اس کے ’’روحانی اور مذہبی تصور‘‘ کو اجاگر کیا جائے گا تاکہ خلافت کے دوبارہ احیا کے خواہشمند مسلمانوں کو اس دام ہمرنگ زمین کا شکار بنایا جا سکے اور اس کی آڑ میں امریکی عزائم اور ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے۔ اسی لیے امریکہ صدام حسین سے عراق چھوڑ دینے کا مطالبہ کر رہا ہے اور امریکہ کے پالیسی ساز ادارے عراق کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے میں تیزی کے ساتھ رنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔
اس قسم کی تقسیم کے خطرے کا سامنا سعودی عرب کو بھی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ سعودی عرب کو ’’شر کا مرکز‘‘ قرار دے کر اس کی مرکزیت کو ختم کرنے کی تجویز سامنے لا رہے ہیں، اور یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ حجاز مقدس میں مذہبی طرز کی حکومت قائم کر کے اس کے لیے ویٹی کن سٹی کی طرح کا علاقہ بنایا جائے گا، جس میں تمام مسلم ممالک کی نمائندگی کے نام سے اپنی مرضی کے افراد گھسیڑے جائیں گے، جبکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو ’’اوپن سٹی‘‘ قرار دے کر بین الاقوامی سرگرمیوں کی آزادانہ آماجگاہ بنا دیا جائے گا اور اسی طرح تیل کے علاقوں پر براہ راست یا کسی وفادار گروہ کی صورت میں امریکی تسلط پختہ کر لیا جائے گا۔
اس مجوزہ اور مبینہ امریکی پلان سے ہٹ کر اسرائیل نے ایک عرصہ سے جس ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کو اپنا اصل ہدف قرار دے کر اس کا باقاعدہ نقشہ شائع کر رکھا ہے اس میں عراق، مصر، شام اور دیگر عرب علاقوں کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ سمیت سعودی عرب کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ امریکہ کا مذکورہ بالا مجوزہ منصوبہ بھی اسی ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک ابتدائی مرحلہ کی حیثیت رکھتا ہو، جیسے برطانیہ نے پون صدی قبل فلسطین پر پہلے خود قبضہ کر کے اپنا گورنر جنرل بٹھا دیا تھا اور پھر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر کے برطانیہ وہاں سے رخصت ہو گیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ ایک صدی کے دوران مشرق وسطیٰ کے جغرافیہ کو تبدیل کرنے کا یہ دوسرا پروگرام ہوگا، جس پر عملدرآمد کے لیے تیز رفتاری کے ساتھ راہ ہموار کی جا رہی ہے۔
مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سرحدوں میں پہلا ردوبدل اب سے پون صدی قبل عمل میں آیا تھا جب خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے عربوں کو عجمی خلافت کے تسلط سے ’’آزاد‘‘ کرایا گیا تھا، اور متعدد عرب علاقوں کو آزاد ریاستوں کی شکل دینے کے علاوہ سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کے نام سے نئی ریاستوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس بندر بانٹ کا اصل مقصد اس خطہ میں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنا اور فلسطین میں یہودیوں کی سلطنت کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ جبکہ پون صدی کے بعد عرب ممالک کی سرحدوں کو تقسیم در تقسیم کے ایک نئے منصوبے کا سامنا ہے تو اس کا مقصد بھی اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور علاقہ میں مرضی کی حکومتوں کے حوالہ سے نئے چہرے سامنے لانا ہے، تاکہ پرانے چہروں سے اکتائے ہوئے عرب عوام کو ان عارضی اور نمائشی تبدیلیوں کے ذریعے مزید کچھ عرصہ کے لیے بہلائے رکھنے کا سامان فراہم کیا جائے، اور اس طرح صہیونی عزائم کی تکمیل کے لیے کچھ اور وقت حاصل کر لیا جائے۔
دوسری طرف ہمارے عرب بادشاہوں کا حال یہ ہے کہ وہ ابھی تک اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی طرح ان کا بھی ’’دوست‘‘ ہے، اور وہ ایک دوست کی خاطر دوسرے دوست کو مارتے ہوئے اس کی دوستی کا بھی کچھ نہ کچھ لحاظ ضرور رکھے گا۔ اس لیے اپنے تحفظ اور بقا کے لیے عرب بادشاہتوں کے پاس امریکہ کے رحم و کرم کے علاوہ اور کوئی ظاہری سہارا موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی گزشتہ پون صدی کے دوران انہوں نے کوئی متبادل بندوبست کیا ہے یا کم از کم اس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے۔ ان کے پاس اپنے تحفظ اور بچاؤ کے لیے لے دے کے ایک ’’عرب قومیت‘‘ کا خیمہ باقی رہ گیا ہے، جہاں عرب لیگ کے نام سے جمع ہو کر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہم سب اکٹھے ہیں۔ لیکن عرب قومیت کا ہتھیار بھی ایک ایسی دو دھاری تلوار ہے جو دونوں طرف وار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے:
- اسی عرب قومیت نے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے۔
- اور اس عرب قومیت کی تلوار لہرانے سے مصر کے مرحوم صدر جمال عبد الناصر مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کے خلاف صف آرا ہو گئے تھے۔
- یہی عرب قومیت صدر صدام حسین اور ان کی بعث پارٹی کا نعرہ ہے۔
- اور اسی عرب قومیت کا پرچم اٹھا کر عرب لیگ نے امریکہ کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کی کلیرنس دے دی تھی کہ عربوں کو کچھ نہ کہو اس کے علاوہ جو بھی کرو گے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہے اور ہم تمام تر تحفظات کے باوجود اس معاملہ میں عرب قومیت زندہ باد کا نعرہ لگانے کے لیے تیار ہیں کہ دفاع اور بچاؤ میں جو ہتھیار بھی کام آ جائے اسے اختیار کر لینا چاہیے۔ لیکن بادشاہوں سے یہ ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ عرب قومیت دراصل ان عرب عوام اور مسلمانوں سے عبارت ہے جو امریکی عزائم کی راہ میں ناقابل عبور دیوار بننے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ انہیں اس کا موقع دیا جائے …… اور انہیں منظم ہونے اور اپنا دفاع خود کرنے کا موقع دے دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر آج عرب رائے عامہ کو صحیح رخ پر منظم ہونے کا موقع دیا جائے اور عرب حکمران اپنے عوام کے جذبات کو دبانے کی بجائے ان کے احترام کی راہ اختیار کر لیں تو امریکہ کو کسی عرب ملک کی طرف آنکھ اٹھا نے کی جرأت نہیں ہوگی۔