یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سابقہ کتبِ سماویہ خصوصاً تورات، انجیل اور زبور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشخبری اور ان کا ذکرِ خیر موجود تھا۔ جیسا کہ قرآن مقدس کا فرمان ہے کہ ’’یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل‘‘ (الاعراف رکوع ۱۹) اہلِ کتاب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ اور اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی اب گنجائش علماء اسلام کی نادر تحقیقات نے باقی نہیں رہنے دی کہ عیسائی پادریوں نے اپنی اغراض کی خاطر تورات اور انجیل کی تحریف کی ہے، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر بلکہ آپ کی آمد کی خوشخبریوں کو ان کتابوں سے نکال دیا۔ لیکن آج کی محرف انجیل میں بھی ایسے شواہد موجود ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم کی بیان کردہ پیشگوئی موجود تھی، جو بعد میں پادریوں اور راہبوں کی اغراض کی بھینٹ چڑھ گئی۔ چنانچہ ان شواہد میں سے چند ایک ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں:
(۱) انجیل یوحنا میں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا۔ کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا ۱۴ : ۳۰)
انجیل متی میں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’میں تو تم کو توبہ کے لیے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں، لیکن وہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے زور آور ہے، میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں، وہ تم کو روح القدس اور آگ سے بپتسمہ دے گا۔‘‘ (متی ۳ : ۱۱، ۱۲)
انجیل یوحنا میں ہے کہ مسیح علیہ السلام نے فرمایا:
’’مجھے تم سے اور بھی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبر دے گا۔‘‘ (یوحنا ۱۶ : ۱۲۔۱۴)
یہ اور اس قسم کے دوسرے حوالہ جات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنے بعد ایک ایسی شخصیت کی آمد کی خبر دی تھی جو بقول ان کے ’’دنیا کا سردار، ’’ان سے زور آور‘‘ اور ’’ان سے افضل‘‘ ہستی ہو گی۔ ایسی عظیم المرتبت ہستی کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کی خصوصیات میں سے یہ بات ہو گی کہ وہ لوگوں کو روح القدس اور آگ (یعنی آتشیں شریعت جیسا کہ ایک مقام پر تورات میں آتشیں شریعت کے الفاظ بھی آئے ہیں) کے ساتھ پاک کرے گا اور آئندہ کی خبریں بتلائے گا۔ پھر وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا بلکہ جو کچھ سنے گا وہ کہے گا ’’ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے صعود الی السماء کے بعد ایسی خصوصیات کی حامل کون سی شخصیت اس دنیا میں تشریف لائی ہے؟ ظاہر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ اقدس اس سے مراد ہے جس میں مندرجہ بالا صفات میں سے ہر صفت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اگر ہمارے عیسائی دوست یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر دو ہی صورتیں ہیں: یا تو ان پیشینگوئیوں کو (معاذ اللہ) غلط کہیں، اور یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو چھوڑ کر پوری تاریخِ انسانیت میں کسی ایسی شخصیت کی نشاندہی کریں جو حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد اس جہانِ فانی میں قدم رنجہ فرمائی ہوئی ہو اور اس میں مندرجہ بالا مکمل صفات موجود ہوں۔
(۲) کتاب استثنا میں ہے کہ:
’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا اور کوہِ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ان کے لیے آتشی شریعت تھی۔‘‘ (استثناء ۳۳ : ۲)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سینا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آمد، شعیر سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تشریف آوری، اور کوہِ فاران سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری مراد ہے۔ ورنہ اس کے سوا اس کا کوئی قابل قبول مفہوم نہیں نکلتا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انجیل کی سابقہ اشاعتوں میں ’’لاکھوں قدسیوں میں سے آیا‘‘ کی بجائے ’’دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا‘‘ کے الفاظ ہیں۔ جیسا کہ مؤرخ اسلام اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے اپنی تصنیف حجۃ الاسلام کے ص ۱۰۳ پر یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ اور پرانی بائیبل میں اب بھی یہ الفاظ موجود ہیں، اور یہ الفاظ اس عبارت سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس مراد لینے کی مزید تائید کرتے ہیں کیونکہ کوہِ فاران مکہ کی پہاڑیوں کا نام ہے، اور دس ہزار صحابہ کرامؓ کی معیت میں حضور نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام فتح مکہ کے موقع پر کوہِ فاران کے پاس جلوہ گھر ہوئے تھے۔
(۳) انجیل یوحنا میں ہے کہ:
’’اور یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے، تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا، پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیا ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا، نہیں۔ پس انہوں نے اس سے کہا، پھر تو ہے کون؟ تاکہ ہم اپنے بھیجنے والوں کو جواب دیں، تو اپنے حق میں کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا، میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہے بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیکھا کرو۔ یہ فریسیوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیا، نہ وہ نبی، تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے؟‘‘ (یوحنا ۱ : ۱۹۔۲۶)
یہودیوں کے ساتھ یوحنا کے اس مکالمہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کو ایک تو مسیح علیہ السلام کی آمد کا انتظار تھا، دوسرا ایلیا یعنی الیاسؑ کی آمد کا، اور تیسرا ایک اور نبی کی آمد کا انتظار تھا۔ اسی لیے انہوں نے اس سے پوچھا کہ تو ان تینوں میں سے کون ہے؟ تو اس نے صاف کر دیا کہ نہ میں مسیح ہوں، نہ ایلیا، اور نہ ہی وہ ’’نبی‘‘ ہوں۔ (گویا یوحنا کو بھی اس نبی کی تشریف آوری کا علم تھا جبھی تو وہ کہہ رہا ہے کہ میں وہ ’’نبی‘‘ نہیں ہوں، ورنہ صاف کہہ دیتا کہ مسیح اور ایلیاہ تو خیر ہوئے ہی، وہ ’’نبی‘‘ سے تمہاری مراد کیا ہے؟)۔
پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تو ان تینوں میں سے ایک بھی نہیں تو تو بپتسمہ کیوں دیتا ہے؟ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کے علاوہ ایک اور نبی کے بارے میں تصور ان لوگوں میں موجود تھا، اور وہ نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟
(۴) انجیل لوقا کے مصنف مقدس لوقا اپنی کتاب کی ابتدا میں رقم طراز ہیں کہ:
’’چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی کہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں، جیسا کہ انہوں نے، جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادم تھے، ان کو ہم تک پہنچایا۔ اس لیے اسے معزز تھیفلس! میں نے بھی مناسب جانا کہ یہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے ان کو تیرے لیے ترتیب سے لکھوں۔‘‘ (لوقا ۱ : ۴)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت لوگوں نے مقدس لوقا کی طرح اناجیل کی طرح ترتیب کا کام کیا ہے۔ اور انہی لوگوں میں سے، جنہوں نے اناجیل کی ترتیب میں حصہ لیا ہے، ایک شخصیت مقدس ’’نرنباس‘‘ کی بھی تھی، جس کا اصل نام یوسف تھا۔ اور مقدس لوقا کے کہنے کے مطابق رسولوں نے اس کا نام برنباس (نصیحت کا فرزند) رکھ دیا۔ (ملاحظۂ ہو رسولوں کے اعمال ۴ : ۳۶)