روٹری کلب نے کچھ عرصہ سے پولیو کے خاتمے کو اپنا سب سے بڑا ہدف قرار دے رکھا ہے اور مختلف شعبوں میں اس کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیو ایک خطرناک بیماری ہے جسے اگر بچپن میں کنٹرول نہ کیا جائے تو اپاہج پن انسان کا زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے اور اس کے مظاہر ہم اپنے اردگرد دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن بچپن کے دور میں روا رکھی گئی اس غفلت کا پھر زندگی بھر مداوا نہیں کر پاتے۔ چھوٹی عمر کے معصوم بچوں کو وقفے وقفے سے پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں جو اس بیماری پر کنٹرول میں مددگار ہوتے ہیں اور اس کے لیے حکومتی سطح پر محکمہ صحت کی طرف سے بچوں کو گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں بعض حلقوں میں اس سلسلے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر روایتی مذہبی حلقوں میں یہ تاثر پھیلا ہوا ہے کہ یہ قطرے ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت نسل کشی کے لیے پلائے جاتے ہیں تاکہ آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے نئی نسل میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو کم کیا جا سکے۔ اس تاثر کو دور کرنے کے لیے کچھ عرصے سے روٹری کلب اور محکمہ صحت کے ذمہ دار حضرات مختلف سطحوں پر سیمینار منعقد کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور پولیو کے خاتمے کی مہم میں عوامی نفسیات کے حوالے سے پائی جانے والی اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلہ میں ۱۹ دسمبر کو گوجرانوالہ میں بھی ایک سیمینار ہوا جس میں روٹری کلب پاکستان کے جناب عزیز میمن اور پنجاب کے نگران جناب سعید شمسی کے علاوہ ضلع کے ذمہ دار افسران اور محکمہ صحت کے کار پردازان بھی شریک ہوئے۔ مجھے اس میں شرکت کی دعوت دینے والے ڈاکٹر فضل الرحمان تھے جو ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کے ذمہ دار حضرات میں سے ہیں اور میرے والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے معالج او رخادم خصوصی رہے ہیں، نیز جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی مجلس منتظمہ کے سیکرٹری ہیں۔ اس موقع پر میں نے اپنی گفتگو میں جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ ۔ علاج معالجہ اور اس کے لیے ریسرچ، محنت اور فکرمندی انسانی ضرورت ہے، سوسائٹی کا تقاضا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی بیماریوں کے علاج معالجے کی تلقین فرمائی ہے۔ اور آپؐ نے بیماریوں کے لیے جسمانی و روحانی دونوں طرز کے علاج خود بھی تجویز کیے ہیں، اس لیے انسانی بیماریوں کا علاج انسانی خدمت ہونے کے ناتے عبادت اور سنت رسولؐ بھی شمار ہوتا ہے۔
اسی طرح عام سطح پر محسوس کیے جانے والے خدشات کا لحاظ رکھنا بھی آنحضرتؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے عام لوگوں سے سنا کہ جب بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہو تو اس دوران میاں بیوی کا ہم بستری کرنا بچے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اسے عربی میں ’’غیلہ‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ حضورؐ نے اس عمل پر پابندی لگا دی، لیکن بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ عمومی تاثر درست نہیں ہے تو آپؐ نے یہ کہہ کر غیلہ پر پابندی ختم کر دی کہ مجھے پہلے جو بتایا گیا تھا وہ درست نہیں تھا اس لیے میں اس پابندی کو ختم کر رہا ہوں۔ چنانچہ کسی چیز کے بارے میں کوئی تاثر عام ہو جائے تو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور تحقیق کے بعد اگر وہ غلط ثابت ہو جائے تو اس تاثر کو ختم کرنے کی کارروائی بھی کرنی چاہیے۔ اس لیے جو لوگ پولیو مہم کے بارے میں کسی شک و شبہ کا شکار ہیں انہیں تحقیق کے علاوہ متعلقہ ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے اور بلا تحقیق کسی عوامی تاثر کو پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔
پولیو کی مہم میں بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں اور بچے دوائی خوش دلی سے نہیں پیتے بلکہ بسا اوقات مزاحمت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جناب نبی اکرمؐ کا ایک دلچسپ واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ آخری ایام میں جب نبی اکرمؐ زیادہ بیمار ہوئے تو کمزوری بڑھنے لگی۔ ایک دن جب آپؐ ایسی نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے کہ سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہے تھے لیکن بولنے اور کسی کام سے روکنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ اس دوران گھر والوں نے آپؐ کو دوائی پلانا چاہی تو آپؐ نے اشاروں سے منع کیا۔ مگر گھر کی خواتین نے منع کرنے کے باوجود زبردستی آپؐ کے منہ میں دوائی ڈال دی۔ حضورؐ کو جب افاقہ ہوا تو گھر والوں سے پوچھا کہ میں نے جب منع کیا تھا تو آپ لوگوں نے مجھے زبردستی دوائی کیوں پلائی؟ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مریض تو ایسی دوائی سے روکتا ہی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تمہاری سزا یہ ہے کہ تم سب کو باری باری اسی طرح دوائی پلائی جائے، اس لیے ہر ایک کو باری باری جکڑ کر اس کے منہ میں دوائی ڈالو۔ حضورؐ کے چچا حضرت عباسؓ بھی موجود تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ انہیں نہ پلائی جائے کہ وہ اس عمل میں شریک نہیں تھے۔ چنانچہ آپؐ کے حکم پر سب کو باری باری جکڑ کر یہ دوائی پلائی گئی۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے اس موقع پر عرض کیا کہ میں (نفلی) روزے سے ہوں۔ مگر آپؐ نے فرمایا کوئی بات نہیں اس کو بھی ابھی اسی طرح دوائی پلاؤ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضورؐ نے چچا عباسؓ کے بارے میں یہ فرمایا کہ انہیں نہ پلائیں کہ وہ اس عمل میں شریک نہیں تھے۔ حالانکہ وہ اگرچہ اس کارروائی میں عملاً شریک نہیں تھے مگر ازواج مطہراتؓ کو انہوں نے ہی آپؐ کو زبردستی دوائی پلانے کے لیے کہا تھا۔
بہرحال علاج معالجہ اور اس کی ضروریات و تقاضوں کو پورا کرنا سنت نبویؐ ہے۔ اس سلسلہ میں ایک بات آج کی اس محفل میں شریک اپنی بہنوں او ربیٹیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ اپنے دور کی سب سے بڑی طبیبہ بھی تھیں۔ ان کے بھانجے حضرت عروۃ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ، جو خود بھی تابعین کے دور کے بڑے محدث اور فقیہ ہیں، کہ میں نے اپنے دور میں قرآن کریم کی تفسیر، حدیث و سنت، شعر و ادب، قبائل کے انساب و تاریخ، اور طب میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔ حضرت عروہؓ نے ایک دن پوچھ لیا کہ خالہ جان!یہ طب آپ نے کہاں سے سیکھ لی ہے؟ فرمایا کہ رسول اللہؐ جب بیمار ہوتے تھے تو میں ان کے علاج کے لیے زیادہ فکرمند ہوتی تھی اور مختلف طبیبوں سے پوچھ کر علاج کرتی تھی، اس سے مجھے علاج معالجے کے بارے میں خاصی معلومات اور تجربہ حاصل ہوگیا۔
معاشرے میں پھیلنے والی بیماریوں کی نشاندہی کرنا، ان کے اسباب معلوم کرنا، ان کے سدباب کی صورتیں نکالنا، اور عوام میں حکمت اور علاج کے بارے میں شعور بیدار کرنا بھی علاج معالجہ کے تقاضے ہیں۔ اور اس کے لیے خلوص کے ساتھ کوشش کرنے والے افراد اور ادارے اس کار خیر پر جہاں قابل تحسین ہیں وہاں ان سے ہر ممکن تعاون کرنا ہماری قومی اور دینی ذمہ داری بھی ہے۔