روزنامہ نوائے وقت لاہور ۵ نومبر ۱۹۹۷ء کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:
’’لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس بیگم فخر النساء کھوکھر نے اس اہم قانونی نکتہ پر حتمی فیصلہ کے لیے چیف جسٹس کو فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست کی ہے کہ میاں بیوی میں صلح کے لیے قرآنی حکم کے تحت کاروائی کی جائے، یا مروجہ قانون فیملی ایکٹ کی دفعات کے تحت ثالثی ہو؟ قرآنی حکم کے مطابق میاں بیوی کی جانب سے نامزد کردہ ایک فرد ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے، جبکہ مروجہ قانون کے تحت فیملی کورٹ میاں بیوی کے درمیان خود صلح کی کوشش کرتی ہے۔ فاضل جج نے ایک شخص محمد نواز کی رٹ درخواست چیف جسٹس کو بھجوا دی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ اس کی بیوی سے صلح قرآنی ہدایات کی روشنی میں کرائی جائے۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ رٹ درخواست کے حتمی فیصلہ تک فیملی کورٹس مروجہ قوانین کی پیروی کریں گی۔‘‘
راقم الحروف نے اس خبر کے حوالے سے ایک ماہرِ قانون سے بات کی تو انہوں نے اس پہلو کو خوش آئند قرار دیا کہ فل بینچ جو فیصلہ کرے گا وہ زیادہ وقیع اور حتمی ہو گا۔
لیکن اس فنی پہلو سے قطع نظر یہ بات زیادہ توجہ طلب ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پچاس سال بعد بھی ہائی کورٹ کا ایک جج تذبذب کی حالت میں ہے۔ اور وہ ایک شہری کی اس درخواست کو قبول کرنے کا ’’رسک‘‘ نہیں لے رہا کہ اس کے مقدمہ کا فیصلہ قرآن کریم کے حکم کی روشنی میں کیا جائے۔ حالانکہ ملک کے دستور میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس امر کی ضمانت بھی دی گئی ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نافذ نہیں کیا جائے گا، اور تمام مروجہ قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا جائے گا۔ لیکن ان تمام تصریحات کے باوجود ہمارا قانونی نظام ابھی تک گومگو کی کیفیت میں ہے، اور سچی بات ہے کہ ملک کے قانونی نظام کا یہی تضاد ہے جس نے نہ صرف اسلامی قوانین کی عملداری کا راستہ روک رکھا ہے بلکہ ملک میں لاقانونیت اور بدعنوانی کے فروغ کا اصل باعث بھی یہی ہے۔