برسرِ عام پھانسی اور سپریم کورٹ آف پاکستان

   
دسمبر ۱۹۹۱ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ نومبر ۱۹۹۱ء کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے چکوال کے ایک نوجوان ظفر اقبال کو سرِ عام پھانسی دینے کے حکم پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ اس نوجوان کو اغوا اور قتل کے جرم میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سزائے موت سنائی ہے اور چکوال میں اسے سرِ عام پھانسی دی جانے والی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ’’برسرِ عام پھانسی‘‘ کو شہریوں کی عزتِ نفس مجروح کرنے کے مترادف قرار دیا ہے اور اپنے مذکورہ فیصلے میں کہا ہے کہ اس سے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ فیصلے میں پھانسی کی اس سزا کو روکتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئندہ ہفتہ (۳۰ نومبر) کو اس کی باقاعدہ سماعت ہو گی۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا یہ اقدام اس پہلو سے باعثِ اطمینان ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے کسی اپیل کے بغیر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک شہری کی عزتِ نفس کو بچانے کے جذبہ سے ازخود کسی معاملہ کا نوٹس لیا ہے، جس سے شہریوں میں یہ احساس اور اعتماد پیدا ہو گا کہ ان کی عزت و ناموس اور حقوق کے محافظ اعلیٰ ادارے بیدار و متحرک ہیں۔ لیکن برسرِ عام پھانسی کو بنیادی حقوق کے منافی قرار دینا اسلامی نقطۂ نظر سے محلِ نظر ہے کیونکہ فقہاء اسلام نے جرائم کی سزاؤں کا فلسفہ یہ بتایا ہے کہ انہیں معاشرہ کے دیگر افراد کے لیے باعثِ عبرت بنا دیا جائے، جیسا کہ بدکاری کی سزا میں قرآن کریم کا واضح حکم موجود ہے کہ:

ولیشہد عذابھما طائفۃ من المومنین (النور)

’’اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہو۔‘‘

اس لیے بنیادی حقوق کا یہ تصور کہ سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو بھی عزتِ نفس کا وہی تحفظ مہیا کیا جائے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہے، قرآنی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ بنیادی حقوق کا یہ تصور سراسر مغربی اور یورپی ہے اور اس تصور نے انسانی معاشرہ میں جرائم کی آبیاری اور پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اس معاملہ میں حتمی فیصلہ سے قبل قرآنی تعلیمات کو ضرور سامنے رکھے گی اور اس کا فیصلہ مغربی تصورات کی بجائے اسلامی تعلیمات پر مبنی ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter