خونی انقلاب، معاشی انصاف اور جعلی نظام

   
اکتوبر ۲۰۰۹ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۱۹ ستمبر ۲۰۰۹ء کی ایک خبر کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ایوان کارکنان میں یوم پاکستان کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خونی انقلاب ہر گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہے اگر حکمرانوں نے عوام کے لیے روٹی، تعلیم، معاشی و معاشرتی انصاف کا انتظام نہ کیا تو عوام اس جعلی نظام کو زمین بوس کر دیں گے، سابقہ دور میں کھربوں روپے کے قرضے معاف کیے گئے اور حکمرانوں کے اسی اقدام سے غربت، بے روزگاری اور نا انصافی پر مبنی معاشرے جیسی لا تعداد بیماریوں نے جنم لیا۔

ہمیں محترم میاں شہباز شریف کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ملک میں غربت، بے روزگاری، معاشی و معاشرتی نا انصافی کے باعث خونی انقلاب کی دستک سنائی دینے لگی ہے، ہم ان کی اس بات سے بھی متفق ہیں کہ موجودہ نظام جعلی ہے جو کسی بھی وقت مجبور اور بے بس عوام کے ہاتھوں زمین بوس ہو سکتا ہے اور ان کے اس ارشاد سے بھی ہمیں اختلاف نہیں ہے کہ صورتحال کو سنگینی کے اس مرحلہ تک پہنچانے میں سابقہ دور میں کھربوں روپے کے قرضے معاف کرنے اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا بھی خاصا دخل ہے۔ لیکن کیا بات صرف اتنی ہی ہے؟ اس بات کو قبول کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔

ہمارے قومی المیہ کا ایک افسوسناک باب یہ بھی ہے کہ ہر حکومت تمام تر خرابیوں کی ذمہ داری سابقہ دور پر ڈالتے ہوئے خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتی ہے اور ہر سیاسی جماعت ساری خرابیاں دوسری سیاسی جماعتوں کی جھولی میں ڈال کر خود کو سچے انصاف اور عوام دوستی کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اگر ہم فی الواقع عوام کی مجبوری اور بے بسی کا رد عمل ایک خونی انقلاب کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور اسے روکنے میں مخلص اور سنجیدہ ہیں تو ہمیں حالات کے اس مقام تک پہنچنے کے اسباب و عوامل کا مجموعی تناظر میں حقیقت پسندانہ بنیاد پر جائزہ لینا ہو گا اور ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے کی بجائے یہ دیکھنا ہو گا کہ:

  1. موجودہ جعلی نظام کو ملک پر مسلط رکھنے اور عوام کی غربت و افلاس، بے روزگاری، مہنگائی، معاشی نا انصافی اور بے بسی و لاچاری کی اس انتہا تک پہنچانے میں کون سے اسباب و عوامل کار فرما ہیں؟
  2. کون سے طبقات، افراد اور گروہوں پر اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
  3. اور اس ظالمانہ استحصالی نظام سے نجات کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟

اس حوالہ سے ہم سے پوچھا جائے تو ہم سادہ لفظوں میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ:

  • پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے،
  • نو آبادیاتی نظام ابھی تک ہم پر مسلط ہے،
  • سودی نظام کا تسلسل بدستور قائم ہے،
  • جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سسٹم سے نجات میں ہمارے حکمران طبقات مخلص نہیں ہیں،
  • مراعات یافتہ طبقوں کی لوٹ کھسوٹ بڑھ رہی ہے اور حکومتی نظام اس کو سپورٹ کر رہا ہے،
  • عام آدمی کو عدالتوں میں بھی انصاف میسر نہیں ہے،
  • قانون اور دستور کی بجائے ہر سطح پر مفادات اور طاقت کی حکمرانی ہے،
  • کرپشن اور بدعنوانی کی اکاس بیل نے پورے ملکی نظام کو جکڑ رکھا ہے،
  • اور منافقت نے رائج الوقت کرنسی کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔

آج بھی اس کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نو آبادیاتی نظام، جاگیر داری سسٹم، سودی معیشت اور طبقاتی معاشرت سے نجات حاصل کر کے خلافت راشدہ کے فلاحی نظام کو اپنا آئیڈیل قرار دیں اور حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی اصلاحات اور طرز حکومت کو سامنے رکھتے ہوئے ملکی نظام کے ہر شعبے میں عملی تبدیلیوں کا آغاز کریں اس کے بغیر نہ خونی انقلاب کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی جعلی نظام سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter