بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قادیانی حضرات کے ساتھ ہمارا بنیادی تنازعہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ان دعاوی سے پیدا ہوا تھا، جب انہوں نے پہلے تو ایک مسلمان مناظر کے طور پر ہندوؤں سے، عیسائیوں سے، آریہ سماج وغیرہ سے مناظروں کا سلسلہ شروع کیا اور خود کو اسلام کے ایک متکلم کے طور پر پیش کیا، ایک حلقہ بنایا۔ لیکن آہستہ آہستہ جب وہ دعووں کی طرف بڑھنے لگے کہ میں مہدی ہوں، میں مسیح موعود ہوں، میں عیسٰی ثانی ہوں، میں پیغمبر ہوں، اور میں خاتم النبیین ہوں، یہ بتدریج دعووں کا سلسلہ، یہاں سے مسلمان علماء تشویش کا شکار ہونے لگے، انہوں نے کہا کہ نہیں، یہ بات کبھی بھی تسلیم نہیں کی گئی اور یہ دعوے کے ساتھ بات کرنا مرزا صاحب کا ہماری روایت کے بھی خلاف ہے اور ہمارے عقائد کے خلاف ہے۔ پھر جب انہوں نے صراحتًا نبوت کا دعویٰ کر دیا کہ میں نبی ہوں، رسول ہوں، مجھ پر وحی آتی ہے، اور ساتھ یہ کہا کہ جو میری وحی کو نہیں مانتے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ تو پھر یہ بات واضح ایک رخ اختیار کر گئی کہ مسلمان الگ ہیں۔
مرزا صاحب نے خود کو مسلمانوں سے الگ قرار دیا، جب یہ کہا کہ جو مجھے نبی نہیں مانتا یا میرے دعاوی کو تسلیم نہیں کرتا وہ’’دائرہ اسلام‘‘ سے خارج ہے۔ تو مرزا صاحب نے خود علیحدگی اختیار کی ملت اسلامیہ سے کہ ملت اسلامیہ جو ان کو نبی نہیں مانتی ان پر وحی کو تسلیم نہیں کرتی وہ ان سے الگ ہے۔ اس پر علماء آہستہ آہستہ، پہلے کچھ علماء کو تردد بھی تھا، لیکن پھر بالآخر آہستہ آہستہ تمام مکاتب فکر کے علماء اس پر متفق ہو گئے کہ ان دعاوی کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی مسلمان نہیں ہیں، اور جو ان کو ماننے والے ہیں، کسی بھی حوالے سے ماننے والے ہوں، نبی مانیں یا مہدی مانیں، وہ بھی ان کے ساتھ ہی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
تو یہ بنیادی جھگڑا ہمارا مرزا صاحب کے وہ دعاوی ہیں جو انہوں نے کیے اور جن دعووں کی بنیاد پر انہوں نے ملت اسلامیہ کی تکفیر کر کے خود کو الگ قرار دیا، اب مسلمان کون ہے؟ کافر کون ہے؟ ملت اسلامیہ نے اجماعی فیصلہ جب کر لیا کہ ملت اسلامیہ تو مسلمان ہے، یہ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ صورتحال قادیانی اب تک قبول نہیں کر رہے اور ملت اسلامیہ کو کافر کہہ رہے ہیں، خود کو مسلمان کہ رہے ہیں۔ علیحدگی پر دونوں متفق ہیں، وہ ملت اسلامیہ کا حصہ نہیں ہیں، یہ وہ بھی مانتے ہیں۔ وہ ہمارا حصہ نہیں ہیں، ہم بھی مانتے ہی ں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کون ہے؟ کافر کون ہے؟ پوری دنیا کی ملت اسلامیہ، تمام مکاتب فکر، اس بات پر متفق تھے اور ہیں کہ قادیانی اپنے دعووں کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں، یہ ملت اسلامیہ سے کٹے ہیں، ملت اسلامیہ ان سے نہیں کٹی۔
قادیانی دعاوی پر تو قائم ہیں، اپنی تکفیر پر بھی قائم ہیں، اپنے موقف پر بھی قائم ہیں، اور ملت اسلامیہ کو مسلمان نہ ماننے پر بھی قائل ہیں، اور اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ صرف ہمیں ہی مسلمان سمجھا جائے۔ کوئی آدمی، کسی آدمی سے پوچھ لیں کہ پونے دو ارب کی ملت اسلامیہ سے کوئی دو چار لاکھ الگ ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور یہ کافر ہیں، تو کامن سینس کا آدمی کیا کہے گا کہ علیحدہ یہ ہوئے ہیں یا علیحدہ وہ ہوئے ہیں؟ ایک بات یہ، جھگڑا ہمارا بنیادی یہ ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ ریاست کا آغاز ہوا تھا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، جس کو ہم ریاست مدینہ کہتے ہیں۔ ریاست مدینہ میں حضور نبی کریمؐ کی جگہ جو سب سے پہلے حضورؐ کے جانشین بیٹھے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق اکبر، انہوں نے سب سے پہلا فیصلہ ہی یہ کیا ہے کہ منکرین ختم نبوت کافر ہیں اور منکرین زکوٰۃ کافر ہیں۔ اس پر مکالمہ بھی ہوا ہے، حضرت عمرؓ کا اور حضرت ابوبکرؓ کا مکالمہ بھی ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ کو تردد تھا منکرین زکوٰۃ کو کافر قرار دینے پر، لیکن پھر بالآخر حضرت عمرؓ بھی متفق ہوئے حضرت صدیق اکبرؓ سے۔ اور اسلامی ریاست نے تو پہلا کام ہی یہ کیا ہے کہ منکرین ختم نبوت کو اور منکرین زکوٰۃ کو کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہے، جہاد کیا ہے، اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ یہ سوال اٹھانے کا کہاں سے محل نکل آیا کہ ریاست کو اختیار ہے یا نہیں۔ اگر ریاست سے مراد حضرت صدیق اکبرؓ والی خلافت ہے تو ریاست کا تو پہلا کام ہی یہ تھا۔
میں پاکستان کو غیر اسلامی ریاست نہیں کہتا، اسلامی ریاست ہے۔ جو ریاست ان دو بنیادوں کو تسلیم کرتی ہے کہ (۱) حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہے (۲) اور حکومت و پارلیمنٹ دونوں قرآن و سنت کے پابند ہیں، وہ آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست ہے۔ پاکستان دستوری اعتبار سے اسلامی ریاست ہے، اس میں کلام کی گنجائش نہیں ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے خلافت کا آغاز کن جملوں سے کیا تھا؟ ان جملوں سے کیا تھا کہ قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میری اطاعت کرو، اور قرآن و سنت سے ہٹوں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو، نہیں چلوں تو مجھے سیدھا کر دو۔ وہ بنیاد جو اسلامی ریاست کی حضرت صدیق اکبرؓ نے اعلان کی تھی، پاکستان میں عملی طور پر جو کچھ بھی ہے، لیکن پاکستان دستوری طور پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے اور قرآن و سنت کی پابندی کو قبول کرتا ہے، میرے خیال میں اسلامی ریاست ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے۔
سعودی عرب نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہوا ہے، مصر نے، شام نے، تمام عرب ممالک نے، انڈونیشیا نے، ملائیشیا نے، تمام مسلم ریاستیں، اور تمام عالم اسلام کے نمائندے کے طور پر ’’رابطہ عالمہ اسلامی‘‘ تنظیم نے پہلے اعلان کیا تھا، پاکستان نے بعد میں اعلان کیا تھا۔
یہ ۱۹۷۴ء کا فیصلہ جو ہے، ہم اسے غلط تعبیر کرتے ہیں، ہم یہ تعبیر کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ نے کافر قرار دیا، اور پھر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار ہے یا نہیں۔ یہ کہنا کہ پارلیمنٹ نے کافر ہونے کا فیصلہ کیا، نہیں۔ کافر ہونے کا فیصلہ موجود تھا، پارلیمنٹ سے مطالبہ یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کے اس اجتماعی فیصلے کو دستوری حیثیت دو۔
تحریک تو ہوتی ہے، پاکستان کی تحریک کے پیچھے عوامی دباؤ نہیں تھا؟ کیا آزادی غلط ہو جائے گی؟ عوامی دباؤ تحریکوں میں ہوتا ہے، آپ عوامی دباؤ کی نفی کیسے کریں گے؟ یعنی جس تحریک کے پیچھے عوامی دباؤ ہو، وہ غلط ہو جاتی ہے؟ آج کے دور میں تو جس چیز کے پیچھے عوامی دباؤ ہو وہ جائز تصور ہوتی ہے کہ یہ رائے عامہ کا مطالبہ ہے، متفقہ مطالبہ ہے، جمہوری مطالبہ ہے۔ اس کا الٹ کیسے کر رہے ہیں آپ؟ ذوالفقار علی بھٹو سول سوسائٹی کا حصہ تھے یا نہیں؟ محمد علی قصوری حصہ تھے یا نہیں تھے؟ چودھری ظہور الٰہی حصہ تھے یا نہیں؟ یہ کونسے مدرسے کے طالب علم تھے؟ یہ پوری امت کا اجتماعی فیصلہ ہے۔ اور آپ بھٹو کی تقریر پڑھ لیں جو انہوں نے اسمبلی میں اس پر کی ہے، انہوں نے اس کے اسباب کیا بیان کیے ہیں؟ کہ پوری امت ایک طرف ہے، پوری ملت ایک طرف ہے۔ ملت ایک طرف ہو اور دو چار لاکھ ایک طرف ہوں، تو کیا آپ ملت کے اجتماعی موقف کو دباؤ قرار دیں گے؟ اس کو دباؤ کہہ کر مسترد کر دیں گے آپ۔ وکلاء بھی ہیں، تاجر برادری ساری کی ساری، طلباء برادری ساری کی ساری، اس کو کس دینی مدرسے کے کھاتے میں ڈالیں گے آپ؟ پوری قوم متحد تھی بھئی!
ان کو ملک کی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اس کیٹیگری میں رکھنا ہے، جو ان کے حقوق ہیں وہ تسلیم کرنے ہیں، ان کو قتل نہیں کرنا، ان کو شہریت سے محروم نہیں کرنا، ان کو ملک سے نہیں نکالنا، یہ کیٹیگری پاکستان بننے سے پہلے طے ہو چکی تھی اور اس کی تجویز دینے والے علامہ اقبالؒ تھے، اور علماء نے ۱۹۷۴ء میں یہ فیصلہ نہیں کیا، یہ ۱۹۵۳ء میں علماء نے مطالبہ کیا تھا کہ ہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے لیکن غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کا معاشرتی اسٹیٹس طے کر دیا جائے۔ پارلیمنٹ نے ۱۹۵۳ء کا مطالبہ ۱۹۷۴ء میں منظور کیا، پارلیمنٹ نے کافر قرار نہیں دیا۔
اس کی بنیاد یہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی کچھ لوگوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، قرآن کریم نے قرار دیا تھا ’’وھم لا یؤمنون‘‘ لیکن ان کے خلاف قتل کی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ اس ماحول کے مطابق ان سے احتیاط کی گئی تھی، الگ کیا گیا تھا، لیکن ان کو الگ قرار دے کر قتل کی کارروائی نہیں کی گئی تھی، میرے خیال میں اس کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ ایسی گنجائش بھی موجود ہے کہ غیر مسلم تو قرار دے دیں ’’وما ھم بمؤمنین‘‘ کا فیصلہ تو کر لیں لیکن قتل اور شہریت سے محروم کرنے کے درمیان کا راستہ بھی ہے، وہی راستہ اختیار کیا کہ جیسے باقی غیر مسلم اقلیتیں رہیں، یہ بھی رہیں۔
اس کی وجہ یہ خود ہیں۔ انہوں نے ۱۹۷۴ء کا فیصلہ تسلیم نہیں کیا، بائیکاٹ کیا۔ ان کے لیے تو اسمبلی کی سیٹ تھی اور بشیر صاحب احمدی قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں، پنجاب اسمبلی میں سیٹ تھی، قومی اسمبلی میں سیٹ تھی۔ انہوں نے فیصلہ تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا، بلکہ نہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا، بائیکاٹ کیا، اب تک بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں، ان کی ضد وجہ سے یہ قانون (امتناع قادیانیت ۱۹۸۴ء) نافذ کرنا پڑا کہ یہ اسلام کا نام استعمال نہ کر سکیں۔ دس سال انہوں نے ہٹ دھرمی اختیار کی اس کے بعد پارلیمنٹ نے کہا کہ نہیں اب تم باز نہیں آتے، تم اسلام کا نام اور شعائر استعمال نہیں کرو گے۔ مطلب یہ ہے کہ علامت تو ایک نے ہی استعمال کرنی ہے نا۔ کسی کا مونوگرام ہے تو جس کا وہ ہے اسی نے استعمال کرنا ہے۔ اسلام کا لفظ کوئی ایک استعمال کرے گا، یا یہ کریں گے یا ہم کریں گے۔ اگر یہ بضد رہیں کہ وہ کریں گے تو کیا پارلیمنٹ کو روکنے کا حق ہے یا نہیں؟ پارلیمنٹ نے وہ حق استعمال کیا ہے۔
میرے خیال میں توہین رسالت کے زیادہ کیس مسلمانوں کے خلاف ہیں یا عیسائیوں کے خلاف ہیں، ان کا تناسب ایک آدھ ہو گا۔ قادیانیوں کے خلاف کارروائیاں امتناع قادیانیت آرڈیننس کی وجہ سے ہوتی ہیں اور یہ آرڈیننس ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آیا ہے، آج یہ ہٹ دھرمی چھوڑ دیں تو ہمیں ان کے حقوق سے کوئی انکار نہیں ہے۔ دستور میں اور ملت اسلامیہ کے فیصلے پر جو ان کا اسٹیٹس بنتا ہے، اس اسٹیٹس کو تسلیم کریں، اس کے تقاضوں کو پورا کریں، تو جو ان کے حقوق بنتے ہیں کسی ایک حق سے بھی انکار نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ اپنا اسٹیٹس تو تسلیم نہ کریں، اور مسلمانوں کا اسٹیٹس اختیار کر کے وہ حقوق مانگیں، یہ ممکن نہیں ہے، کیسے ہو سکتا ہے؟ دستوری اسٹیٹس تسلیم کریں اور سارے حقوق لیں، میں سب سے بڑا داعی ہوں گا ان کے حقوق کا۔
بائیکاٹ ان کا ہم نے نہیں کیا ہوا، انہوں نے ہمارا بائیکاٹ کیا ہوا ہے، اور ۱۹۷۴ء سے کیا ہوا ہے۔ یہ اپنا ووٹ درج نہیں کروا رہے، اپنا الیکشن کا حق استعمال نہیں کر رہے، اور اس الیکشن میں بھی مرزا مسرور احمد نے اعلان کیا ہے، وہ عمران خان کے ساتھ ان کی جو بات چلی تھی، اس میں انہوں نے صاف کہا کہ ہم اس فیصلے کو نہیں مان رہے اس لیے ہم ووٹ درج نہیں کروا رہے، اس لیے ہم الیکشن کا حصہ نہیں بن رہے۔ بائیکاٹ تو انہوں نے کیا ہوا ہے۔