’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کا مقدمہ

   
۱۱ تا ۱۴ مارچ ۲۰۱۶ء

حسب وعدہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی علم اسرار الاحکام پر شہرہ آفاق تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کا مقدمہ اردو متن کی کچھ ضروری تسہیل و تشریح کے ساتھ پیش خدمت ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ احکام شرعیہ میں مصالح کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا اور اعمال اور ان کی سزا و جزا کے درمیان کوئی عقلی مناسبت نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی مالک اپنے نوکر کی تابعداری چیک کرنے کے لیے اسے کہے کہ وہ فلاں درخت کو ہاتھ لگا کر آئے یا فلاں پتھر کو اٹھائے۔ ان دونوں کاموں کا یہ جانچنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ نوکر اس کا حکم مانتا ہے یا نہیں اور اسی پر وہ سزا یا جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ شرعی احکام کے بارے میں یہ خیال ’’ظن فاسد‘‘ ہے، جس کی سنت بھی تکذیب کرتی ہے اور خیر القرون کا اجماع بھی اسے ٹھکراتا ہے۔ جو شخص اتنی سی بات کو سمجھنے سے بھی عاجز ہے اس کا علم کے ساتھ اتنا تعلق بھی نہیں جتنا سمندر میں ڈبو کر نکالی جانے والی سوئی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کی سمندر کے ساتھ نسبت ہوتی ہے اور اس کی بات کو کسی درجہ میں شمار کیے جانے سے بہتر ہے کہ وہ خود اپنی جان کو روئے کیونکہ:

  • یہ بات سمجھنا کسی ذی شعور شخص کے لیے مشکل نہیں کہ اعمال کا اعتبار نیتوں کے ساتھ ہوتا ہے، اور ان کیفیات نفسانی کے ساتھ ہوتا ہے جن کی وجہ سے وہ اعمال صادر ہوتے ہیں۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے ’’اللہ تعالٰی کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقوٰی اور نیتیں اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہیں‘‘۔
  • نماز اللہ تعالٰی کے ذکر اور اس کی مناجات کے لیے فرض کی گئی ہے۔ جیسے اللہ تعالٰی نے فرمایا ’’اقم الصلوٰۃ لذکری‘‘ نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔ اور یہ نماز انسانوں کو قیامت کے دن اللہ تعالٰی کی زیارت و مشاہدہ کے لیے تیار کرتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تم اپنے رب کو یوں دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھتے ہو اور اس کی رویت سے آنکھوں میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتے، اگر تم ایسا کر سکو کہ فجر اور عصر کی نماز میں مغلوب نہ ہو جاؤ (یعنی تم سے نماز چھوٹ نہ جائے) تو ایسا ضرور کرو۔ گویا ان دو نمازوں کی پابندی سے رویت باری تعالٰی کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
  • زکوٰۃ اس لیے فرض کی گئی ہے کہ اس سے قراء کی حاجت پوری ہوتی ہے اور دینے والے کا بخل دور ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نہ زکوٰۃ نہ دینے والوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اس کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اسے اپنے لیے ہرگز خیر شمار نہ کریں بلکہ یہ ان کے لیے شر ہے۔ اور جو مال وہ بخل کر کے بچاتے ہیں وہ قیامت کے دن ان کی گردنوں میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا‘‘۔ اور جیسا کہ نبی کریمؐ نے (حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا عامل بناتے ہوئے اپنی ہدایات میں) فرمایا تھا کہ انہیں یہ بتا دو کہ اللہ تعالٰی نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء کو لوٹا دی جائے گی۔
  • روزہ نفس پر کنٹرول کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ’’لعلکم تتقون‘‘ تاکہ تم تقوٰی کے خوگر ہو جاؤ۔ اور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے ’’فان الصوم لہ وجاء‘‘ نفسانی خواہش کے غلبہ میں روزہ انسان کے لیے ان پر کنٹرول کا ذریعہ ہے۔
  • حج کی فرضیت شعائر اللہ کی تعظیم کے لیے ہوئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا ۔۔۔ الٰی اخرہ‘‘ بے شک انسانوں کے لیے پہلا گھر وہ بنایا گیا جو مکہ مکرمہ میں ہے۔ اور ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ‘‘ بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالٰی کے شعائر (اس کی عظمت کی علامات) میں سے ہیں۔
  • قصاص کا قانون قتل کے جرم کو روکنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ’’ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب‘‘ قصاص کے قانون میں اے اہل دانش! تمہارے لیے زندگی ہے۔
  • حدود و کفارات کا مقصد لوگوں کو گناہوں سے باز رکھنا اور ان کی سزا دینا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے ’’لیذوق و بال امرہ‘‘ کہ مجرم اپنے جرم کی سزا پا لے۔
  • جہاد اعلائے کلمۃ اللہ یعنی اللہ تعالٰی کے دین کی سربلندی اور فتنہ (دین کی راہ میں رکاوٹوں) کو ختم کرنے کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’اور ان سے لڑو حتٰی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اللہ تعالٰی کے دین کی سب پر بالادستی قائم ہو جائے‘‘۔
  • باہمی معاملات نکاح طلاق وغیرہ کے احکام اس لیے دیے گئے ہیں کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا جا سکے۔

(حضرت شاہ ولی اللہؒ ان آیات و احادیث کا حوالہ دے کر یہ سمجھا رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی اور ان کے آخری رسوؐل نے جہاں احکام و قوانین مقرر کیے ہیں وہاں ان کی ضروریات و فوائد اور حکمتوں کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ احکام شرعیہ میں حکمتوں اور مصالح کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا اور وہ صرف بندوں کی اطاعت آزمانے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں، محض ظن فاسد ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔)

بعض مقامات پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب و ترہیب یعنی خدا کی ناراضگی سے ڈرانے اور اس کی رضا کی امید دلانے کی بات کی تو صحابہ کرامؓ نے اپنے شبہات دور کرنے کے لیے سوال کیا، جس پر نبی کریمؐ نے ان کے شبہ کو دور کر کے اصل بات سمجھا دی۔ مثلاً یہ فرمایا کہ ایک شخص کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر اور بازار میں پڑھی جانے والی نماز سے ثواب میں پچیس گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور مسجد میں نماز کی نیت سے چل کر آتا ہے تو اس کا ثواب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور نبی کریمؐ نے فرمایا کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ اللہ کا حکم سمجھ کر ہمبستری کرتا ہے تو اسے صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کیا اپنی شہوت پوری کرنے سے بھی ثواب ملتا ہے؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگر وہ شخص یہی کام حرام طریقہ پر کرے تو کیا اسے گناہ نہیں ہو گا؟ اور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ دو مسلمان آپس میں تلوار کے ساتھ آمنے سامنے ہوں اور ایک شخص دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ لوگوں نے پوچھا کہ قاتل تو جہنم میں جائے گا، مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ وہ بھی تو اپنے مقابل کو قتل کرنے کے لیے آیا تھا۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے احکام و مسائل کی حکمتیں بیان فرمائی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے جمعہ کے غسل کی مشروعیت کا سبب بیان کیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے پھل کو درخت پر قابل استعمال ہونے سے پہلے بیچنے کی ممانعت کی وجہ بیان کی۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے وضاحت فرمائی کہ بیت اللہ کا طواف کرتے وقت دو کونوں کا استلام ہے اور دوسرے دو کونوں کا استلام کیوں نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد تابعین کرام اور مجتہدین علماء احکام کی علت و مصلحت مسلسل بیان کرتے رہے اور ان میں منصوص حکم کی علت نکال کر ان پر غیر منصوص مسئلہ کو قیاس کرتے رہے۔ مثلاً کہیں جلب منفعت (فائدے کا حصول) اور کہیں دفع مضرت (نقصان کو روکنا) حکم کی علت قرار پایا، جس سے فقہاء و مجتہدین کی کتابیں اور اقوال بھرے پڑے ہیں۔ اس کے بعد امام غزالیؒ اور امام ابو سلیمان خطابی اور امام ابن عبد السلام جیسے نکتہ رس علماء کرام آئے اور انہوں نے قیمیت تحقیقات اور لطیف نکات پیش فرمائے۔ اللہ تعالٰی ان سب کی مساعی کو قبول فرمائے۔

اور ہاں اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح سنت اس بات کو واجب کرتی ہے کہ شریعت کا کوئی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہے، اسی طرح سنت و اجماع اس بات کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں کہ مصالح اور حکمتوں کے باوجود کسی شرعی حکم کی بجا آوری میں اس کا حکم ہی سب سے بڑا سبب ہے، اور اسی پر اطاعت کرنے والے کو ثواب اور نافرمانی کرنے والے کو عذاب ہوتا ہے۔ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ گمان کر لیا گیا ہے کہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا اور اس کا ثواب و عذاب ہونا محض عقلی چیز ہے، جبکہ شریعت کا کام صرف اچھا یا برا ہونے کی خبر دینا ہے، جبکہ اس کا حکم دینا اور اس کی بجا آوری کو واجب کرنا شریعت کا کام نہیں ہے، اور شریعت کی ذمہ داری صرف اس طبیب جیسی ہے جو بیماری کی نوعیت اور دوا کی افادیت بیان کر دیتا ہے جبکہ اس کا استعمال مریض کی اپنی مرضی پر موقوف ہے۔ یہ بھی ظن فاسد ہے اور ظاہر بات ہے کہ سنت اس کو تھوک کی طرح پھینک دیتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کے لیے تین دن سے زیادہ مسجد میں تشریف نہ لائے اور فرمایا میں چوتھے دن اس لیے نہیں آیا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ کر دی جائے۔ اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں میں اس شخص کا جرم سب سے بڑا ہے کہ ایک چیز ان پر حرام نہیں تھی مگر اس سوال کی وجہ سے وحی آئی اور وہ حرام کر دی گئی۔ یعنی کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا اور اس کی مصلحت یا مضرت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن کسی چیز کو واجب کرنا اور حلال یا حرام قرار دینا ایک مستقل عمل ہے اور یہی شریعت کا کام ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی غور کر لیا جائے کہ اگر کسی عمل کا ظاہری حسن و قبح ہی اس کے واجب یا حرام ہونے کا سبب ہوتا تو اس مقیم شخص کو رمضان کے روزے افطار کر لینے کی اجازت ہوتی جو روزے میں مشقت محسوس کرتا ہے، اور اس مسافر کو روزہ افطار کرنے کی اجازت نہ دی جاتی جس کا سفر اس کے روزے میں باعث مشقت نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس حرج کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن یہ صرف حکمت ہے، جبکہ روزہ کے حکم کی اصلی علت وہ حکم شرعی ہی ہے جسے مصلحت بدلنے یا سمجھنے میں نہ آنے کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا۔

پھر سنت اس بات کو بھی واجب کرتی ہے کہ اگر احکام شرعیہ صحیح آیات روایات سے ثابت ہو جائیں تو ان کی بجا آوری کو مصلحت و حکمت کے معلوم ہونے پر موقوف نہ رکھا جائے۔ کیونکہ سب لوگوں کی عقلیں حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھنے میں یکساں نہیں ہوتیں۔ اور اس لیے بھی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عقل و دانش میں سب سے زیادہ پختگی اور سب پر برتری رکھتے ہیں۔ چنانچہ فہم و عقل کے اسی تفاوت کی وجہ سے حکمتوں اور مصلحتوں کا علم ہر کس و ناکس کو نہیں دیا گیا اور نا اہلوں کو اس میں دسترس نہیں دی گئی۔ احکام شرعیہ کی حکمتوں اور مصلحتوں میں غور کرنے اور ان میں کلام کرنے کے لیے اہلیت کی وہی شرطیں مقرر کی گئی ہیں جو قرآن کریم کی تشریح و تفسیر کے لیے ضروری ہیں، اور سنن و آثار کے حوالہ کے بغیر ان حکمتوں اور مصلحتوں پر محض رائے کے ساتھ غوروخوض کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

  • اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر نماز کے اوقات کے تعین کی حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً ظہر کے فرض سے پہلے چار رکعت سنت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس لیے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اس وقت میرا کوئی اچھا عمل اوپر جائے۔
  • جناب نبی اکرمؐ سے روایت ہے کہ عاشوراء کے روزے کا سبب یہ ہے کہ اس روز حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات ملی تھی (اور وہ اس روز شکرانے کا روزہ رکھتے تھے) چنانچہ اس دن کا روزہ حضرت موسٰیؑ کی پیروی میں رکھنے کا کہا گیا۔
  • جناب نبی اکرمؐ نے نیند کو وضو کے ٹوٹ جانے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ بیان کی کہ نیند میں انسان کے جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں جس سے جسم سے کسی چیز کے خروج کا احتمال رہتا ہے۔ اور حج کے موقع پر جمرات پر کنکر مارنے کے بارے میں فرمایا کہ یہ اللہ تعالٰی کے ذکر کو بلند کرنے کے لیے ہے۔ کسی کے گھر میں جانے کے لیے اجازت لینے کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اچانک گھر کی عورتوں پر نظر نہ پڑ جائے۔ بلی کے جھوٹے کو (حرام کی بجائے) مکروہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ گھروں میں عام چلنے پھرنے والا جانور ہے اور اس سے برتنوں کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔
  • بسا اوقات دین کے کسی مسئلہ میں تحریف کا دروازہ بند کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسا کہ کسی موقع پر ایک شخص نے فرض نماز ادا کرنے کے فورًا بعد اسی جگہ نفل نماز شروع کر دی تھی تو حضرت عمرؓ نے اسے یہ کہہ کر ٹوک دیا تھا کہ کیا تم فرض کے ساتھ نفل ملا دینا چاہتے ہو؟ تم سے پہلے امتیں اسی (بے احتیاطی) کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوتی تھیں۔ اس پر جناب نبی کریمؐ نے فرمایا: اے عمر! اللہ نے تم سے صحیح بات کہلوائی ہے۔
  • کسی حکم کا مقصد کافروں کی مشابہت سے روکنا ہوتا تھا۔ جیسے نبی اکرمؐ نے طلوع شمس کے وقت نماز پڑھنے سے یہ کہہ کر روکا کہ سورج شیطان کی دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے یعنی اس وقت شیطان سورج کو سجدہ کرتا ہے اور بہت سے کافر بھی سورج کو سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔
  • بسا اوقات کسی حرج کو روکنے کے لیے حکم دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایک چادر میں لپٹ کر نماز پڑھی جائے تو کیا وہ ہو جاتی ہے؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا ’’او لکم ثوبان؟ کیا تم میں سے ہر شخص کے پاس دو چادریں موجود ہیں؟ یہ وہ وقت تھا جب صحابہ کرامؓ تنگی و عسرت کی زندگی گزار رہے تھے اور ہر شخص کے پاس جسم ڈھانپنے کے لیے دو چادریں نہیں ہوتی تھیں۔

ہم نے جو بیان کیا اس سے واضح ہو گیا ہے کہ شریعت کے احکام کا لوگوں کو جو مکلّف ٹھہرایا گیا ہے اس میں حق بات اس مثال کی طرح ہے کہ کسی سردار کے نوکر چاکر بیمار ہو جائیں اور وہ اپنے کسی خاص اہلکار سے کہے کہ ان کو دوائی پلا دو۔ اگر وہ غلام اپنے آقا کے اس اہلکار کی بات مان کر دوا پی لیں گے تو سردار کے حکم کی اطاعت ہو گی، جس پر وہ ان سے راضی ہو گا اور صلہ دے گا، جبکہ اس میں خود ان کی بھی صحت ہوگی۔ لیکن اگر وہ اس کی بات نہیں مانیں گے تو آقا کی نافرمانی اور غیظ و غضب بھی ہوگا اور وہ خود بھی بیماری سے ہلاک ہو جائیں گے۔

  • جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس میں لوگوں کی دعوت کا اہتمام کر کے اپنے کسی خاص آدمی کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو دستر خوان پر آنے کی دعوت دے۔ اب جو شخص اس کی دعوت قبول کر کے دستر خوان پر آئے گا تو وہ گھر میں داخل ہو گا، اس سے گھر کا مالک بھی راضی ہو گا اور وہ کھانا بھی کھائے گا۔ اور جو دعوت قبول نہیں کرے گا وہ گھر بھی نہیں آئے گا اور کھانے سے بھی محروم ہو جائے گا۔
  • جیسے نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میری اور جو کچھ مجھے اللہ نے دے کر مبعوث کیا ہے اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی قوم کے پاس جا کر پکارے کہ لوگو! میں تمہیں دشمن کے حملے سے خبردار کر رہا ہوں، اپنے بچاؤ کا بندوبست کر لو۔ اب جو شخص اس کی بات مان لے گا وہ وقت سے فائدہ اٹھائے گا اور رات کی تاریکی میں خطرے کے دائرے سے باہر نکل جائے گا۔ لیکن جو شخص اس کی بات کو قبول نہیں کرے گا اور وہیں صبح کر دے گا تو دشمن کے حملے کا شکار ہو جائے گا اور دشمن کا حملہ اسے برباد کر دے گا۔
  • کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو فی الجملہ تو یہ بات مانتے ہیں کہ احکام شرعیہ کی بنیاد مصالح پر ہے، اور اعمال پر سزا و جزا اسی وجہ سے ہے کہ وہ ان نفسانی کیفیات کے باعث ظہور میں آتے ہیں جن کی وجہ سے نفس کی اصلاح اور فساد ہوتا ہے۔ جیسا کہ جناب نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح رہے گا تو سارا جسم صحیح رہتا ہے، اور اس میں فساد آ جائے تو جسم کا نظام فاسد ہو جاتا ہے، گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔ البتہ یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس فن و علم کو مدوّن و مرتب کرنا بعض وجوہ سے ممکن نہیں۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس علم (اسرار الاحکام) کو مرتب و مدوّن کرنا بعض وجوہ سے ممکن نہیں:

  • عقلاً اس لیے کہ اس کے مسائل نہایت خفا میں ہیں اور پیچیدہ و مشکل ہیں۔
  • شرعاً اس لیے کہ سلف و صالحین نے اس علم و فن کو مدوّن نہیں کیا باوجودیکہ ان کا علم پختہ اور گہرا تھا۔ گویا اسلاف کا اس علم کو مدوّن نہ کرنا اس کے ترک پر سب کا اتفاق شمار ہو گا۔ اسی طرح وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اس علم و فن کی تدوین میں کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں ہے، اس لیے کہ جب کسی شرعی حکم پر عمل کرنا اس کی مصلحت سامنے آنے پر موقوف نہیں ہے تو اسے مرتب کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ مگر یہ باتیں بھی ظنون فاسدہ کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ جہاں تک ان مسائل کی گہرائی اور خفاء کا تعلق ہے تو مسائل کا مخفی ہونا اس نتیجے کا فائدہ نہیں دیتا کہ ان حکمتوں کو بیان کرنا سرے سے ممکن ہی نہ ہو۔ اس لیے کہ علم توحید اور صفات باری تعالٰی کے مسائل ان سے کہیں زیادہ مخفی اور پیچیدہ ہیں جن کا ادراک و احاطہ مشکل ترین دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالٰی نے جن حضرات کو چاہا توفیق دی ہے اور ان مسائل کو ان کے لیے آسان کر دیا ہے۔

    اسی طرح ہر وہ علم جو بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے ان پر بحث محال نظر آتی ہے اور اس کے مسائل کا احاطہ ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس کے صحیح اسباب اختیار کر کے اس کے مقدمات و مبادی کے فہم میں بتدریج آگے بڑھا جائے تو اس پر قدرت حاصل ہو جاتی ہے، اور اس کے اصول طے کرنا اور ان پر اس کے فروع و متعلقات کو تطبیق دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس علم کی تدوین سرے سے ناممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ حضرات کہتے ہیں کہ فی الجملہ یہ علم مشکل اور پیچیدہ ہے تو یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں، مگر انہیں مشکلات کی وجہ سے تو علماء کی ایک دوسرے پر برتری ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ آرزوؤں تک پہنچنا مشقتوں اور مصائب پر سواری کرنے سے ہوتا ہے، اور علوم کے کندھے پر سواری عقلوں کو مشقت میں ڈال کر اور فہم کو گہرائی تک لے جا کر ہی نصیب ہوتی ہے۔

  • ان حضرات کا یہ کہنا کہ سلف صالحین نے اس علم کی طرف توجہ نہیں دی تو اسلاف کا اس علم کو مرتب نہ کرنا اس کی تدوین و تشکیل کے لیے ضرور کی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ خود جناب نبی کریمؐ نے اس کے اصولوں کا ذکر کیا ہے اور اس کے فروعات بیان فرمائے ہیں۔ جبکہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فقہاء صحابہ کرامؓ مثلاً حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عائشہؓ اور دیگر صحابہؓ نے ان مسائل پر بحث کی ہے اور ان کے مختلف پہلو واضح فرمائے ہیں۔

    پھر ان کے بعد علمائے دین اور یقین کی منزل کے راہرو بزرگ ضرورت پڑنے پر ہر دور میں مسلسل ان امور کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں جو ان کے سینوں میں اللہ تعالٰی نے محفوظ و جمع کر رکھے تھے۔ جیسا کہ ان میں سے کسی بزرگ کو جب شک کا فتنہ کھڑا کرنے والے لوگوں سے مباحثہ کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے بحث کی تلوار کو میان سے باہر کیا اور اپنے عزم و ارادہ کو پختہ کر کے سامنے آ گیا اور مبتدعین کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔

    اب ہماری باری آئی ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس علم کے اصول و مبادی اور اساسی باتوں کو ایک کتاب میں مرتب کر دینا ادھر ادھر لاٹھی چلانے سے بہتر ہے، کیونکہ جب جنگلی گدھا شکار ہو جائے تو اس کے پیٹ میں چھوٹے بڑے سارے شکار سما جاتے ہیں۔ قرون اولٰی کے حضرات جناب نبی اکرمؐ کی صحبت اور قربت زمانہ کی وجہ سے صاف اور خالص عقائد کے حامل تھے، ان میں اختلاف کا وقوع کم تھا۔ انہیں نبی اکرمؐ کی کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ تفتیش و تحقیق کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ان کی توجہ معقول اور منقول میں مطابقت کرنے کی طرف نہیں تھی اور بہت سے علوم میں ثقہ بزرگوں سے براہ راست رجوع کرنے کی سہولت انہیں میسر تھی۔ اس لیے وہ اس علم کو مرتب و مدوّن کرنے کی ضرورت سے مستغنی تھے۔

  • اس علم و فن کو مرتب کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض حضرات نے دعوٰی کیا ہے کہ جو حدیث قیاس کے من کل الوجوہ خلاف ہو، اس کا رد کر دینا جائز ہے۔ جس سے بہت سی صحیح احادیث کو قبول نہ کرنے کا راستہ کھلتا ہے۔ جیسے مصراۃ اور قلتین کی احادیث ہیں۔ چنانچہ محدثین کے لیے ان پر اپنی حجت قائم کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ اس بات کو واضح کریں کہ یہ احادیث ان مصالح اور حکمتوں کے موافق ہیں جن کا شریعت میں اعتبار کیا گیا ہے۔

    البتہ آپ دیکھیں گے کہ جب مجھ پر بیان کی شدت غالب ہو گی اور میں قواعد کی تمہید میں گہرائی تک جاؤں گا تو اس مقام کا تقاضا ہو گا کہ کچھ ایسی باتیں بھی کروں جو متکلمین اور جمہور مناظرین نے اس سے قبل نہیں کیں۔ جیسے قیامت کے بعض مراحل میں اللہ تعالٰی کی تجلی کا مختلف صورتوں میں ظہور۔ اور جیسے ایک ایسے عالم کا اثبات جو عنصری نہیں ہے اور اس میں اعمال و معانی کا ایسی شکلوں میں ظہور ہوتا ہے جو ان کے مناسب حال ہوں۔ اس عالم خیال میں واقعات زمین پر رونما ہونے سے پہلے متشکل ہوتے ہیں (جیسے کوئی انجینئر کسی بلڈنگ کا نقشہ کاغذ پر بنانے سے پہلے تصور میں قائم کر لیتا ہے ) ۔ اور اعمال کا انسان کی نفسانی کیفیات کے ساتھ ربط اور ان کیفیات کا دنیا اور آخرت میں اعمال کی سزا و جزا کا سبب ہونا، اور جیسے قدر ملزم کا قول۔ البتہ یہ بات جان لیں کہ میں ایسی کسی بات کی جرأت نہیں کروں گا جب تک آیات و احادیث، صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے آثار اور اہل سنت کے الہامی علوم کے حامل خصوصی طبقات مثلاً فقہائے کرامؒ اور صوفیائے عظامؒ کو نہ دیکھ لوں کہ انہوں نے وہ بات کہی ہے اور اس پر اپنے قاعدے کی بنیاد رکھی ہے۔

اس کے ساتھ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اہل سنت اصل میں علم کلام کے کسی خاص گروہ کا نام نہیں ہے بلکہ ان کی بنیاد مسائل پر ہے۔ جن کی تفصیل یہ ہے کہ وہ مسائل جن پر اہل قبلہ نے باہم اختلاف کیا ہے اور ضروریات دین کو مان لینے کے بعد فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ وہ مسائل دو قسم کے ہیں:

  1. ایک قسم کے مسائل وہ ہیں جن پر قرآنی آیات اور صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں اور صحابہ کرامؓ، تابعین اور سلف صالحین ان کو قبول کرتے چلے آ رہے ہیں۔ لیکن جب سے ہر صاحب رائے کا اپنی رائے ہی پر خوش ہونا اور اسی کو ترجیح دینے کا ظہور ہوا اور راستے مختلف ہونے لگے تو:
    • ایک گروہ نے قرآن و سنت کے ظاہر کو تھام لیا اور سلف کے عقیدہ پر پختگی سے جم گئے، انہوں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ وہ عقائد اصول عقلیہ کے مطابق ہیں یا ان کے خلاف ہیں۔ اور اگر انہوں نے کسی موقع پر اصول عقلیہ سے استدلال کیا ہے تو وہ اپنے عقائد پر اطمینان کے اضافہ کے لیے کیا ہے، ان سے عقائد اخذ کرنے کے لیے نہیں۔ یہ لوگ اہل سنت ہیں۔ لیکن کچھ گروہ ایسے مسائل کی تاویل اور ظاہر کے خلاف ان کی مراد بیان کرنے لگ گئے جو ان کے خیال میں اصول عقلیہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چنانچہ انہوں نے معقولات سے اس لیے استدلال کیا تاکہ ان سے عقائد ثابت کریں اور نفس الامر بیان کریں۔ اس قسم کے مسائل میں قبر میں سوال و جواب، وزن اعمال، پل صراط سے گزرنا، رویت باری تعالٰی، اور اولیائے کرام کی کرامات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب وہ مسائل ہیں جو قرآن و سنت سے ظاہر ہیں اور سلف صالحین انہیں اسی طرح تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک عقل کا دائرہ انہیں قبول کرنے سے تنگ پڑ گیا ہے اس لیے وہ ان کا انکار کرتے ہیں یا تاویل کرتے ہیں۔
    • دوسرا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ ہم ان پر ایمان لائے اگرچہ ہم ان کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور ہمارے نزدیک عقلیات ان کی شہادت نہیں دیتیں۔
    • جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ان سب امور پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ آئے ہیں، اور ہمارے نزدیک عقل بھی ان کی شہادت دیتی ہے (البتہ ہماری محدود عقل کی رسائی اس تک ضروری نہیں ہوتی)۔
  2. دوسری قسم ان مسائل کی ہے جن پر نہ قرآن نے بات کی ہے اور نہ ہی کوئی سنت مشہورہ اس کے بارے میں موجود ہے، ان مسائل کو ان ہی کے حال پر رہنے دیا جائے۔ البتہ کچھ لوگوں نے ان پر بحث و تمحیص کا راستہ اختیار کیا ہے، جس کی مختلف صورتیں ہیں:
    • بعض مسائل دلائل نقلیہ سے استنباط کرتے ہوئے بیان کیے گئے ہیں، مثلاً ملائکہ پر انبیاء کی فضیلت، یا حضرت فاطمہؓ پر حضرت عائشہؓ کی فضیلت، کیونکہ ایسے مسائل پر کوئی صریح نص موجود نہیں ہے بلکہ بعض نصوص سے استنباط کے طور پر ان کا قول کیا گیا ہے۔
    • بعض لوگوں کے خیال میں کچھ مسائل ایسے ہیں جو سنت سے ثابت ہیں لیکن ان کا قبول کرنا بعض دوسری باتوں پر موقوف ہے اور ان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے جب ثابت شدہ امور کو قبول کرنا ضروری ہے تو جن پر وہ موقوف ہیں ان کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ جیسے امور عامہ اور اعراض و جواہر کے کچھ مسائل ہیں۔ اس لیے کہ اگر عالم کو حادث ماننا ضروری ہے تو اس کے لیے ہیولٰی کو باطل کہنا پڑے گا، جو بعض فلاسفہ کے نزدیک قدیم سمجھا جاتا ہے، اور جز و لایتجزٰی کی بات کرنا ہو گی۔ اسی طرح اگر یہ مانا جائے کہ اللہ تعالٰی نے پوری کائنات کو بلاواسطہ پیدا کیا ہے تو فلاسفہ کے اس قول کو باطل کہنا ہو گا کہ واحد سے واحد ہی صادر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر معجزات کو تسلیم کیا جائے تو سبب اور مسبب کے درمیان لزوم کا انکار کرنا ہوگا۔ اور معاد جسمانی کا عقیدہ اختیار کرنے کے لیے پہلے یہ ماننا پڑے گا کہ معدوم کا اعادہ ممکن ہے۔ اسی طرح کی کئی اور باتیں جن سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اور اس میں یہ بات بھی شامل کی جا سکتی ہے کہ بہت سے امور کا مدار عقل عام (کامن سینس) پر بھی ہوتا ہے۔
    • بعض مسائل کتاب و سنت کی تفصیل و تشریح کرتے ہوئے سامنے آتے ہیں اور ان کی تفصیل و تفسیر میں اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالٰی کے لیے سمع و بصر کی صفات ثابت ہیں، مگر سمع اور بصر کی کیفیات میں اختلاف کیا گیا ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ مستقل صفات نہیں بلکہ مسموعات اور مبصرات کے علم کو سمع و بصر کہا گیا ہے، جبکہ دوسرے لوگ انہیں مستقل صفات مانتے ہیں۔ یا جیسا کہ سب مانتے ہیں کہ اللہ تعالٰی حیّ، علیم، مرید، قدیر اور متکلم ہے۔ پھر ان میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے کہا کہ ان کا مطلب ان کے معانی و ثمرات کو بیان کرنا ہے، اور ان سات صفات اور رحمت، غضب اور جود کی صفات میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ سنت نے کوئی فرق واضح نہیں کیا۔ لیکن دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ یہ مستقل امور ہیں جو ذات واجب الوجود کے ساتھ قائم ہیں۔ یا مثلاً سب متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی عرش پر مستوی ہیں اور اس کے لیے وجہ اور ضحک ظاہرًا ثابت ہے۔ پھر اختلاف ہو گیا۔ ایک گروہ نے کہا کہ اس سے مراد ان کے مناسب معانی ہیں، مثلاً استواء سے مراد استعلاء (قبضہ، تسلط) اور وجہ سے مراد ذات ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ نے انہیں اسی حالت میں رہنے دیا اور کہا کہ ہم ان پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر ان کا معنی و مفہوم ہم نہیں جانتے۔

اس دوسری قسم کے مسائل میں کسی گروہ کا دوسروں پر اس طرح برتری جتانا کہ صرف وہ سنت پر ہے اور وہی اہل سنت کہلانے کا مستحق ہے، میرے نزدیک درست نہیں۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ اس لیے اگر اصل سنت کا ارادہ ہے تو وہ ایسے مسائل میں سرے سے بحث ترک کر دینے میں ہے، جیسا کہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے دور میں ان پر بحث نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اگر ان میں بحث و تمحیص کی ضرورت پڑ جائے تو ضروری نہیں کہ بعض لوگوں نے کتاب و سنت سے استنباط کر کے جو کچھ ثابت کیا ہے وہ یقیناً صحیح اور راجح ہو۔ نہ یہ ضروری ہے کہ جسے وہ کسی چیز پر موقوف قرار دیں، اس کا موقوف ہونا یا موقوف علیہ ہونا ضروری ہو۔ نہ ہی یہ لازم ہے کہ جس کو وہ رد کر دیں اس کو رد کرنا ہی مسلّم ہو جائے۔ اور نہ ہر وہ چیز جس پر غوروخوض کو ’’صعب‘‘ شمار کر کے انہوں نے ترک کر دیا ہے وہ فی الواقع مشکل بھی ہو۔ اور نہ ہر وہ بات جو وہ تفصیل و تفسیر میں بیان کریں، ضروری ہے کہ وہ دوسروں کی تفصیل و تفسیر سے زیادہ قبول کرنے کی مستحق ہو جائے ۔

اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ کسی شخص کا اہل سنت ہونا یا نہ ہونا صرف پہلی قسم کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے دوسری قسم کے مسائل میں اہل سنت کے متکلمین کثرت سے کلام کرتے ہیں جیسا کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کے اختلاف سے ظاہر ہے۔ اور آپ ہر دور کے ماہر علماء کو دیکھیں گے کہ وہ کسی ایسے نکتہ کو بیان کرنے سے نہیں ہچکچاتے جس کی سنت میں مخالفت موجود نہ ہو، اگرچہ ان سے پہلے متقدمین نے ان پر کلام نہ کیا ہو۔

اسی طرح مجھے بھی آپ دیکھیں گے کہ جب متکلمین کے راستے فروع اور مذاہب میں مختلف ہو گئے اور ان کے امور و مشارب الگ ہوئے تو میں نے درمیانہ راستہ پکڑ لیا ہے، متوسط اور مضبوط بات کو اختیار کیا ہے، اردگرد توجہ دینے کو میں نے چھوڑ دیا ہے، اور دوسروں کی تفریعات و تخریجات سے اپنے کام بند کر لیے ہیں۔

پس جان لو کہ ہر فن کی کوئی خصوصیت ہوتی ہے اور ہر مقام کا کچھ تقاضا ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث کے نادر الفاظ کی تشریح کرنے والے کا یہ کام نہیں کہ وہ حدیث کی صحت و ضعف کی بحث میں پڑے۔ اور نہ ہی احادیث کو جمع و مرتب کرنے والے کا کام ہے کہ وہ حدیث سے ثابت ہونے والے فروع و مسائل اور حدیث کے درجات کو زیر بحث لائے۔ اسی طرح احادیث کے اسرار اور حکمتوں پر گفتگو کرنے والے متکلم کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان میں سے کسی بحث میں الجھے۔ اس کی محنت و کاوش تو صرف اس حد تک ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کس حکمت کے تحت فرمائی ہے۔ اس کے لیے یہ بات برابر ہے کہ وہ ارشاد و حکم باقی ہے یا منسوخ ہو گیا ہے۔ یا اس کے مقابلے میں کوئی اور حدیث بھی موجود ہے، جس کی وجہ سے یہ حدیث کسی فقیہ کی نظر میں مرجوح قرار پا گئی ہے۔

البتہ یہ بات کسی بھی فن میں غوروخوض کرنے والے ہر عالم کے لیے ضروری ہوتی ہے کہ وہ اس فن کی ایسی باتوں کو زیر بحث لائے جو اس فن کے اعتبار سے زیادہ لائق توجہ ہیں۔ جبکہ احادیث کے علم میں اقرب الی الحق وہ احادیث ہیں جو مختلف علاقوں کے محدثین کی احادیث و روایات مرتب ہونے کے بعد، فقہاء کرام کے آثار سامنے آنے پر، متعدد احادیث کی متابعت میں آنے والی روایات کے ظہور، اور راویوں کی کثرت و قوت کے باعث منتخب قرار پائی ہیں۔ اس کے باوجود اگر مندرجہ بالا امور میں سے کوئی بات چلتے چلتے زیربحث آ جائے تو مسائلِ اجتہادیہ میں گفتگو اور حق سے زیادہ قریب بات کی تحقیق اہل علم کے لیے کوئی نئی بات بھی نہیں، اور نہ ہی ایسی کسی بات پر طعن کی جاتی ہے۔ ’’ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکل والیہ انیب‘‘۔

اس کے ساتھ ہی میں ایسی ہر بات سے برأت کا اظہار کرتا ہوں جو قرآن کریم کی کسی آیت، جناب نبی کریمؐ کی سنت قائمہ، جن زمانوں کے خیر ہونے کی شہادت دی گئی یعنی خیر القرون کے کسی اجماع، جمہور فقہائے امت کے اختیار کردہ کسی قول، یا غالب مسلم اکثریت کے تعامل کے خلاف ہو۔ اگر ایسی کوئی بات دکھائی دے تو وہ خطا ہے۔ جو شخص ایسی کسی غفلت سے ہمیں آگاہ کرے گا اور ایسی کسی خطا کی توجہ دلائے گا، اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ اس کے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائیں۔ مگر وہ حضرات جو متقدمین کے کلام سے تخریج و استنباط کر کے بحث کرتے ہیں اور مناظرہ و مجادلہ سے نسبت رکھتے ہیں، ہمارے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کی ہر بات کی موافقت کریں جو ان کے منہ سے نکل جائے، کیونکہ ’’ہم رجال و نحن رجال‘‘ ہم بھی ان کی طرح بحث مباحثہ اور اخذ و استنباط کا حق رکھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ ہمارے اور ان کے درمیان پانی کے ڈول کی طرح ہے جو کبھی ہمارے ہاتھ میں ہو گا اور کبھی ان کے ہاتھ میں ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter