لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اجتماع سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کا خطاب میں نے لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا عیسیٰ منصوری کے گھر بیٹھ کر سنا۔ مجھے ۵ مئی کو لاہور سے لندن کے لیے سفر کرنا تھا، اسی روز جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب کے لاہور ہائیکورٹ بار سے خطاب کی خبر اخبارات میں پڑھی تو دو حوالوں سے تشویش ہوئی، ایک اس حوالہ سے کہ جب وہ گوجرانوالہ سے گزریں گے تو میں ان کے استقبال میں شریک نہیں ہو سکوں گا اور دوسری یہ کہ اس روز لاہور کی کیا صورتحال ہو گی اور کیا میں ایئرپورٹ پہنچ سکوں گا؟ بہت سے دوستوں نے مشورہ دیا کہ ۴ مئی کو جمعہ پڑھا کر لاہور چلا جاؤں اور ہفتہ کے روز لاہور کے سفر کا رسک نہ لوں، میں نے بھی ایک بار ارادہ کر لیا، مگر پھر خیال آیا کہ چیف جسٹس نے صبح ساڑھے سات بجے اسلام آباد سے روانہ ہونا ہے اور مجھے سات بجے تک ایئرپورٹ پہنچنا ہے، کیونکہ دس بجے میری ہیتھرو کے لیے پی آئی اے کی پرواز ہے، اس لیے شاید اتنی صبح پولیس اپنی ”روایتی کاروائیاں“ شروع نہ کرے، اسی تذبذب کی کیفیت میں مغرب کے بعد کسی کام کے لیے لاہوری دروازے تک گیا تو ہمارے پڑوسی تھانہ کوتوالی کے ایک آفیسر راستہ میں مل گئے، میں نے ان سے دریافت کیا کہ یار کل کس وقت آپ لوگوں نے اپنے ”کام کاج“ کا آغاز کرنا ہے، اس لیے کہ مجھے صبح ایئرپورٹ جانا ہے۔ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ صبح سویرے نکل جائیں، اس لیے کہ بعد میں حالات شاید ٹھیک نہ رہیں۔ مذکورہ پولیس آفیسر سے میری بات اتفاقاً راہ چلتے ہو گئی تھی، لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ شاید میں لاہور جانے کے لیے تھانہ والوں سے این او سی لے رہا ہوں۔
بہرحال میں صبح نماز فجر سے فارغ ہوتے ہی روانہ ہو کر سات بجے سے پہلے اطمینان کے ساتھ لاہور ایئرپورٹ پہنچ گیا اور جب پی آئی اے کا طیارہ سوا دس بجے لاہور سے روانہ ہو کر کم و بیش سوا آٹھ گھنٹے کی پرواز کے بعد لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا تو وہاں کے وقت کے مطابق دن کے اڑھائی بج رہے تھے۔ اس بار خلاف معمول ایئرپورٹ سے باہر آنے خاصی دیر لگ گئی۔ رش بہت زیادہ تھا، امیگریشن کا عملہ کم تھا اور رفتار بہت سست تھی۔ اس سے قبل ہیتھرو ایئرپورٹ پر ایسا تجربہ کبھی نہیں ہوا، جبکہ میں کم و بیش بائیس سال سے لندن آ رہا ہوں۔ ایئرپورٹ سے باہر نکل کر ساؤتھ آل کی ابوبکر مسجد میں پہنچا تو ساڑھے پانچ کا وقت تھا۔ جلدی جلدی ظہر کی نماز ادا کی کہ اس کا وقت ختم ہو رہا تھا، اتنے میں مولانا عیسیٰ منصوری کا فون آگیا کہ بھئی کہاں پہنچے ہو؟ ٹی وی پر آپ کے چیف جسٹس کا جگہ جگہ استقبال مسلسل دکھایا جا رہا ہے اور اس وقت وہ گوجرانوالہ میں ہیں۔ انہوں نے ایک دوست کو فون کیا کہ وہ مجھے جتنی جلدی ہو سکے ان کے گھر پہنچائیں تاکہ میں ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ مناظر دیکھ سکوں۔ ساؤتھ آل سے وائٹ چیپل میں مولانا منصوری کے گھر تک پہنچنے میں کچھ وقت لگ گیا، لیکن جسٹس افتخار محمد چودھری ابھی گوجرانوالہ ہی میں تھے اور مولانا منصوری سارے کام کاج چھوڑ کر ٹی وی کے سامنے براجمان تھے۔ وہ ساتھ ساتھ اپنے مخصوص انداز میں کمنٹری بھی کرتے جا رہے تھے، مسلسل سفر کی تھکاوٹ کے باوجود میں ان کے ساتھ دو گھنٹے بیٹھا رہا اور جسٹس افتخار محمد چودھری کے والہانہ استقبال کا اسکرین پر مختلف چینلوں کے حوالے سے مشاہدہ کرتا رہا۔ البتہ جب چیف جسٹس کا قافلہ کامونکی سے گزر گیا تو میں نے مولانا منصوری سے گزارش کی کہ اب مجھے کھانا کھلائیں اور اجازت دیں کہ میں نماز عشاء ادا کر کے سو جاؤں، اس لیے کہ تھکاوٹ اور نیند کے غلبے کا باعث اب زیادہ بیٹھنا میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
میرا خیال تھا کہ سونے کے بعد فجر کے لیے اٹھوں گا تو سارے مراحل گزر چکے ہوں گے اور نیوز میں ان کی جھلکیاں دیکھ لوں گا، لیکن صبح بیدار ہوا تو منصوری صاحب نے، جو رات بھر ٹی وی کے سامنے رہے، کہا کہ جسٹس صاحب ابھی لاہور پہنچے ہیں اور اجتماع سے خطاب کرنے والے ہیں، اس لیے جلدی سے نماز پڑھ کر میرے کمرے میں آجاؤ۔ اب پھر میں مولانا منصوری کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا اور زندہ دلان لاہور کی زندہ دلی کا نظارہ کر رہا تھا۔ یہ الیکٹرانک میڈیا کا کمال ہے کہ لاہور سے ہزاروں میل دور لندن میں بیٹھا اس جلسے کی کاروائی یوں دیکھ اور سن رہا تھا، جیسے میں خود اس میں موجود ہوں اور اس میں حصہ لے رہا ہوں۔ میں نے لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر جناب احسن بھون اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے وکیل چودھری اعتزاز احسن کے خطابات لفظ بہ لفظ سنے۔ انہوں نے جو کچھ کہا، وہ صرف ان کے اور وکلاء برادری کے جذبات کی ترجمانی نہیں تھی، بلکہ وہ پوری قوم کے اجتماعی احساسات کی عکاسی کر رہے تھے۔ خصوصی طور پر چودھری اعتزاز احسن کے مختصر خطاب سے یہ محسوس کہ وہ بطور خاص میرے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ میں وکیل نہیں ہوں، اس موقع پر لاہور میں ہوتا تو بھی میرے لیے اس میں شرکت کو کوئی موقع نہیں تھا، لیکن چودھری اعتزاز احسن کا خطاب سنتے ہوئے میرے دل میں یہ احساس ابھر رہا تھا کہ اگر مجھے اس اجتماع کے سامنے اظہار خیال کا موقع ملتا تو میں بھی ایک ”مولوی“ کی حیثیت سے وہی کچھ کہتا جو ”وکیل“ کی حیثیت سے چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے، چنانچہ میں دل ہی دل میں اس خطاب پر چودھری اعتزاز احسن کا شکریہ ادا کرتا رہا۔
آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بحالی کی اس جدوجہد میں جسٹس افتخار محمد چودھری اپنی منصبی ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قومی تقاضوں کے تکمیل کی طرف جس حوصلے اور تدبر کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں اور جس طرف ملک بھر کی وکلاء برادری، بنچ اور بار کے دونوں فورموں سے ان کا ساتھ دے رہی ہے، وہ میرے جیسے پرانے سیاسی کارکنوں کے لیے تو ایک خوبصورت خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا کرے کہ اس کی عملی تعبیر بھی جلد دیکھنے کو مل جائے۔ آمین یا رب العالمین۔
چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے اپنے اس تاریخی خطاب میں انسانی حقوق کے حوالے سے سپریم کورٹ کے کردار کو موضوع گفتگو بنایا، چونکہ یہ میرا دل پسند موضوع ہے، اس لیے ظاہر ہے پوری توجہ سے سنا۔ انہوں نے اپنے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے بعد اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کی جس عملی پیشرفت کا ذکر کیا، وہ ہم سب کے سامنے ہے اور پوری قوم اس کی معترف اور شکر گزار ہے، لیکن میرے لیے چیف جسٹس کے خطاب کا جو حصہ سب سے زیادہ دلچسپی، اطمینان اور خوشی کا باعث ہوا، وہ ”قرارداد مقاصد“ کے حوالے سے بنیادی انسانی حقوق کا تذکرہ اور ان کی تشریح ہے۔ گویا انہوں نے اس ”قومی کمٹمنٹ“ کا اعادہ کیا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی تعبیر و تشریح میں اسلام اور قرآن و سنت کو بنیاد کا درجہ حاصل ہے اور میرے جیسے ”خالص مولوی“ کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کونسی ہو سکتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے نزدیک
- چودھری اعتزاز احسن کے خطاب میں بنچ اور بار کو مولوی تمیز الدین مرحوم کیس سے ظفر علی شاہ کیس تک کی آئینی پٹیشنوں کی یادہانی
- اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے تاریخی خطاب میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے قرآن و سنت کا ایک بنیاد کے طور پر تذکرہ
اس ساری تقریب کا ماحصل ہے، کیونکہ یہی دو بنیادیں ہیں جن کے عملی احترام کا اہتمام ہو جائے تو وطن خداداد پاکستان کے صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ ہونے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس محترم نے اپنے خطاب میں ان طبقات کا ذکر کیا جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ یہ صرف چند طبقات کی بات نہیں بلکہ کم و بیش ہر طبقے میں ہمارے ہاں ایسے افراد موجود رہتے ہیں جو قانون سے بالاتری کو اپنا استحقاق تصور کرتے ہیں اور قانون کی پابندی ان کے نزدیک اپنے مقام و مرتبے کو کم کرنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایسے طبقات اور افراد کو قانون کے دائرے میں لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے جو بہت مبارک ہے۔ اگر وہ ایسا ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ایک بہت بڑا قومی معرکہ سر کرنے پر ان کا نام تاریخ کے ایک روشن باب کا عنوان بن جائے گا۔
آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی اس مہم کی قیادت اگرچہ وکلاء برادری کر رہی ہے، لیکن یہ صرف وکلاء کی جدوجہد نہیں، بلکہ پوری قوم اس جدوجہد میں ان کے ساتھ شریک ہے۔ جس کا عملی اظہار چیف جسٹس آف پاکستان کے اسلام آباد سے لاہور تک کے پچیس گھنٹے کے سفر میں بخوبی ہو گیا ہے اور امید قائم ہونے لگی ہے کہ پاکستانی قوم آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی منزل حاصل کرنے میں ان شاء اللہ العزیز جلد کامیاب ہو جائے گی۔
خدا جانے ٹی وی چینلز پر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی اس تقریب کے مناظر دیکھتے ہوئے ”لال مسجد“ کیوں باربار یاد آتی رہی، کئی بار ایسا ہوا کہ لاہور ہائیکورٹ کا ماحول دیکھتے ہوئے لال مسجد کے مینار آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ شاید اس لیے کہ وہ بھی ایک مورچہ ہے، جس کا عنوان اسلام کی بالادستی ہے اور اس مورچے کے لیے صف بندی کرنے والوں کا عزم یہ ہے معاشرے کو اسلامی احکام کی کھلے بندوں نافرمانی سے پاک کیا جائے اور اسلامی احکام و روایات کی عملداری کو یقینی بنایا جائے۔ یہ مورچہ بھی کمزور نہیں تھا اور اگر اسے ڈھنگ سے منظم کیا جاتا تو لاہور ہائی کورٹ کے اس مورچے سے کہیں زیادہ دلکش اور حوصلہ پرور مناظر دیکھنے میں آتے، لیکن حکمت و تدبر کے فقدان نے اسے قوم کے جذبات کی ترجمانی اور اظہار کا سب سے بڑا مورچہ نہیں بننے دیا، جس کا کم از کم مجھے تو بہت افسوس اور صدمہ ہے۔ اگر لال مسجد کے دوست زیادہ ناراض نہ ہوں تو ان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور ہائیکورٹ بار کے اس مورچے کی کامیاب پیشرفت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسے ایک شخصیت یا ادارے کا مسئلہ بنائے رکھنے کی بجائے ملک بھر کی وکلاء برادری کا مشترکہ مسئلہ بنایا، بنچ اور بار دونوں کو اعتماد میں لیا، ملک گیر مشاورت کا نظام قائم کیا، بڑوں کی سنیارٹی کا احترام کیا، جوش و جذبے کا تعلق حکمت و تدبر کے ساتھ قائم رکھا اور شخصی فیصلوں اور اقدامات کی بجائے اجتماعیت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا، جس کی وجہ سے وہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی مہم کو قومی تحریک کی شکل دینے میں کامیاب نظر آرہی ہیں۔ اگر لال مسجد بھی اسی طرح حکمت و تدبر کا راستہ اختیار کرتی اور اسلامی قوانین و احکام کی عملداری، منکرات و فواحش کے سدباب اور مساجد کے تحفظ کی مقدس مہم کو صحیح رخ پر آگے بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کر لیتی تو یہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لئے ایک مفید اور مؤثر تحریک ثابت ہوتی، لیکن ابھی تو ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں ”وکیل“ بازی جیت رہا ہے اور ’’مولوی‘‘ کو ابھی تک شخصی دائروں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔