وزیر آباد بار ایسوسی ایشن نے سترہ مئی کو سیرت النبیؐ کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا جو بار کے صدر چودھری اعجاز احمد چیمہ ایڈووکیٹ کی زیر صدارت منعقد ہوئی اور ایڈیشنل سیشن جج میاں فرید حسین نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں مجھے ”نظامِ عدل سیرت طیبہ کی روشنی میں“ کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی گئی اور اس موقع پر میں نے جو گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
چونکہ یہ تقریب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے منعقد ہو رہی ہے، اس لیے سب سے پہلے وزیر آباد بار ایسوسی ایشن کو اور اس کی وساطت سے تحصیل وزیر آباد کے عوام کو عامر چیمہ شہید کی شہادت پر مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا کہ تحصیل وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا عملی اظہار کیا اور ایک گستاخِ رسول پر غیرت مندانہ حملہ کرنے کے بعد اپنی جان بھی ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لیے قربان کر دی۔ یہ بات عامر چیمہ شہید کے اہل خاندان اور ملک بھر کے مسلمانوں، خاص طور پر تحصیل وزیر آباد کے لیے باعثِ افتخار ہے۔
اس کے بعد میں وزیر آباد بار ایسوسی ایشن سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عامر چیمہ شہید کی جرمن پولیس کی حراست کے دوران موت کے قانونی پہلوؤں اور تقاضوں پر وزیر آباد بار کو توجہ دینی چاہیے اور اگر وزیر آباد بار اس مسئلے کو اپنے باقاعدہ ایجنڈے میں شامل کر کے پیش رفت کرے، تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کا عملی اظہار بھی ہو گا اور اس سلسلے میں اپنی دینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی طرف مثبت پیش رفت بھی ہو گی۔ میری تجویز ہے کہ وزیر آباد بار اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے اور اسلام آباد میں جرمنی کے سفارت خانے سے ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنا کردار سنجیدگی کے ساتھ ادا کرے۔ میرا تعلق بھی وزیر آباد تحصیل سے ہے اور میرا آبائی شہر گکھڑ اسی تحصیل کا حصہ ہے، اس حوالے سے بھی یہ بات کہہ رہا ہوں اور اگر وزیر آباد بار اس بارے میں کوئی سنجیدہ قدم اٹھاتی ہے تو ایک کارکن کے طور پر میں بھی ہر خدمت و تعاون کے لیے حاضر ہوں۔
ان دو گزارشات کے بعد اپنے موضوع کی طرف آ رہا ہوں کہ نظام عدل کے حوالے سے ہمیں جو مسائل اور مشکلات درپیش ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ میں ان کے حل کے لیے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے اور ہم اسوہ نبویؐ سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں؟
یہ بات عالمی سطح پر مسلمات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح قانون اور عدل کے شعبے میں بھی پوری نسل انسانی کے لیے آئیڈیل اور رہنما کی حیثیت رکھتی ہے اور قانون کی تشکیل، اس کی تشریح و تعبیر اور اس پر عملدرآمد تینوں حوالوں سے نسل انسانی کے چوٹی کے ماہرین کی صف اول میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سرفہرست شمار ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل اللہ تعالیٰ کے قانون کے علمبردار اور اس کے نمائندہ ہیں، لیکن اس قانون خداوندی کے سب سے بڑے شارح اور اس پر عملدرآمد کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عملی مثالیں اور روایات قائم کی ہیں، وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور میں آج کی محفل میں ان میں سے دو اصولی باتوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
ایک یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوسائٹی میں جس قانون اور ضابطے کا اعلان کیا، اس پر عملدرآمد کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ پہلے خود عمل کیا اور پھر لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اس قانون اور ضابطہ کی پابندی کریں۔ اس سلسلے میں حجۃ الوداع کے خطبے میں سے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی حرمت اور سودی لین دین کے خاتمے کا اعلان کیا تو اس کی ابتدا اپنے گھر سے کی اور اعلان فرمایا کہ میرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سودی کاروبار کرتے رہے ہیں، لیکن آج کے بعد ان کے مقروض صرف اصل رقم انہیں واپس کریں گے اور سودی رقم معاف ہو گی۔
یہ اصلاحات کے گھر سے آغاز کا عمل تھا اور کسی نئے ضابطہ اور قانون پر پہلے خود عمل کی روایت تھی، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے اور عدل و قانون کے شعبہ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جاہلی رسم کے خاتمے کا اعلان بھی فرمایا، وہ یہ کہ قبائلی نظام میں باہمی قتل و قتال عام تھا اور قتل کے بدلے نسل در نسل چلتے رہتے تھے۔ انتقام در انتقام کے اس سلسلے میں قبائل کے درمیان جنگیں کئی نسلوں تک جاری رہتی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے اپنے خاندان کے ایک نوجوان کا خون معاف کرنے کا اعلان فرمایا کہ قبائلی رواج کے مطابق اپنے اس مقتول نوجوان کے خون کا جو بدلہ ہمارے ذمہ چلا آ رہا تھا، ہم نے اس کو معاف کر دیا ہے۔
اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون کی یکساں عملداری کی راہ ہموار کی اور یہ بتایا کہ قانون پر اس کو نافذ کرنے والے پہلے عمل کریں گے تو قانون اپنے نتائج و ثمرات حاصل کرے گا۔ لیکن اگر نافذ کرنے والے خود اپنے لیے تحفظات تلاش کرتے پھریں گے تو قانون اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا، کیونکہ باقی لوگ بھی پھر تحفظات کی طرف بھاگیں گے اور قانون کے نفاذ کا راستہ رک جائے گا۔
اس سلسلے میں ایک اور واقعہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مستدرک حاکم کی روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ان گھڑی ٹہنی تھی۔ ایک صحابی جن کے بدن پر کرتا نہیں تھا، قریب بیٹھے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے تکلفی سے وہ چھڑی اس صحابی کی کمر پر مار دی، جس سے اس کے جسم پر کچھ خراش بھی آ گئی۔ اس صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلے کا تقاضا کر دیا کہ میں آپ سے اس چھڑی کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ آج کا دور ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفظات کے بہت سے دروازے کھلے تھے۔ آپ سربراہ مملکت تھے، آپ سربراہ حکومت تھے، عدلیہ کے سربراہ تھے، فوج کے سربراہ تھے اور اپنے وقت کے سب سے بڑے دینی پیشوا بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی حیثیت کا بھی حوالہ دے سکتے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی تردد کے بغیر اپنی کمر اور چھڑی دونوں اس صحابی کے سامنے پیش کر دیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون کے نفاذ اور اس کی عملداری میں چھوٹے اور بڑے کے فرق کو عملاً ختم کیا اور دنیا کو یہ عملاً بتایا کہ قانون کی یکساں عملداری کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔
ایک مشہور واقعہ ہم اکثر سنتے اور بیان کرتے رہتے ہیں، آج کے عنوان کی مناسبت سے اس کا بھی حوالہ دوں گا کہ بنو مخزوم کی خاتون فاطمہ نے چوری کی اور چوری کا جرم ثابت ہونے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ اس پر قبیلہ والوں کو تشویش ہوئی اور انہوں نے سزا کی معافی کے لیے سفارش تلاش کرنا شروع کر دی۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ نوجوانوں میں سے تھے، انہیں سفارشی بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا گیا۔ لیکن جب انہوں نے فاطمہ کے بارے میں بات کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف انہیں ڈانٹ دیا، بلکہ مسجد نبویؐ میں اس سلسلے میں باقاعدہ خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
”تم سے پہلے قوموں کی بربادی کے اسباب میں ایک بات یہ بھی تھی کہ قانون کا اطلاق یکساں نہیں ہوتا تھا، عام اور غریب آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی اور بڑا آدمی وہی جرم کرتا تو اسے کسی نہ کسی حیلہ سے سزا سے معافی مل جاتی تھی۔“
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے فاطمہ کا ہاتھ کاٹ دیا اور اس موقع پر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ
”اگر (خدانخواستہ) میری بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“
ہم اپنے آج کے حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ مبارکہ کو دیکھیں تو ہمیں رہنمائی کا واضح راستہ ملتا ہے۔ آج ہماری حالت یہ ہے کہ قانون صرف اس کے لیے ہے جس کی کوئی اپروچ نہیں ہے اور جسے کوئی اپروچ میسر ہے وہ قانون کے دائرے سے خود کو مستثنیٰ سمجھنے لگتا ہے۔ اسی طرح قانون اور دستور میں کچھ شخصیات اور طبقات کو جو تحفظات فراہم کیے گئے ہیں، ان کے سامنے قانون جب بے بسی کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اہداف و مقاصد سے محروم ہو جاتا ہے۔
اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ قانون، عدل اور انصاف کے صحیح تقاضوں کے ادراک اور انہیں پورا کرنے کے لیے ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی اور اس سلسلے میں آج کی گفتگو میں قانون اور عدل کے حوالے سے اسوۂ نبویؐ کے صرف دو پہلوؤں کا مختصر تذکرہ کیا ہے:
- ایک یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی قانون اور ضابطہ نافذ کیا، اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا اور پہلے خود عمل کر کے پھر دوسرے لوگوں کو اس کی پابندی کی تلقین فرمائی۔
- جبکہ دوسری بات یہ کہ معاشرے میں قانون کے یکساں نفاذ اور عملداری کا اہتمام کر کے ان تحفظات اور پروٹوکول کا خاتمہ کر دیا جو قانون کے نفاذ میں رکاوٹ بن جایا کرتے تھے۔
ہمارے آج کے بڑے مسائل بھی یہی ہیں، جنہوں نے عدل و قانون کے پورے نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ خدا کرے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے والے بن جائیں، تاکہ دنیوی و اخروی مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔