افغان قوم کا نیا سفر اور انسانی سماج کا مستقبل

   
ستمبر ۲۰۲۱ء

افغانستان سے امریکی اتحاد کی افواج کے بتدریج انخلا کے ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان کی تیز رفتار پیشرفت دنیا کے بہت سے حلقوں کے لیے حیرانگی کا باعث بنی ہے۔ مگر واقفانِ حال کے لیے کوئی بات خلاف توقع نہیں ہے بلکہ امریکہ کی مسلح مداخلت کے آغاز پر خود ہم نے اس کے منطقی انجام تک پہنچنے کے لیے جو اندازہ اپنے مضامین میں پیش کیا تھا اس سے بہت تاخیر ہو گئی ہے، جس کی وجہ امارت اسلامی افغانستان کے بعض ہمدرد نما حلقوں کی جلد بازی یا بے تدبیری بنی ہے، ورنہ ہمارے خیال میں جو کچھ اب ہو رہا ہے اسے آٹھ دس سال قبل ہو جانا چاہئے تھا۔ بہرحال ہر کام کا ایک وقت تقدیر کی دنیا میں طے ہوتا ہے اور وہی درست ہوتا ہے۔

افغان قوم کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے برطانوی استعمار کی عسکری یلغار کے قدم اس وقت روک دیے تھے جب وہ پورے جنوبی ایشیا پر قابض ہو چکا تھا مگر افغان قوم کی حریت پسندی کے آگے اس کا بس نہ چل سکا۔ اس کے بعد جب سوویت یونین نے افغانستان کو اپنی عسکریت کی جولانگاہ بنایا تو دیکھنے والے یہ سمجھ رہے تھے کہ اس دفعہ افغان قوم کے لیے اپنی آزادی کو قائم رکھنا شاید ممکن نہ ہو، مگر جب وہ اپنے عقیدہ، آزادی اور تہذیب کے تحفظ کی خاطر جہاد کا پرچم اٹھائے مزاحمت کے میدان میں کودے تو نہ صرف یہ کہ ان کے جذبۂ قومی اور حمیت دینی کا پرجوش منظر دنیا نے پھر ایک بار کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا، جبکہ اس دفعہ انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ دنیا بھر کے وہ مسلمان حلقے جو جہاد کی فرضیت اور برکات و ثمرات مسلسل سنتے رہنے کے باوجود اس کے عملی مناظر دیکھنے کے لیے ترس کر رہ گئے تھے انہیں اپنے ایمانی جذبات کے اظہار کا میدان مل گیا، اور عالمی سرد جنگ میں سوویت یونین کے حریف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی موقع ملا کہ وہ اس سرد جنگ کو مسلح معرکہ آرائی میں تبدیل کر کے سوویت یونین کی شکست کی راہ ہموار کریں۔ چنانچہ سوویت یونین کو نہ صرف عسکری پسپائی اختیار کرنا پڑی بلکہ مختلف ممالک و اقوام کا یہ عالمی کنبہ خود بھی بکھر کر رہ گیا۔

پھر افغان قوم میدان جنگ میں تنہا رہ گئی اور اسے کسی بیرونی سہارے اور سپورٹ کے بغیر آزادی اور خود مختاری کی یہ جنگ صرف اپنے جذبہ ایمانی اور قومی حمیت کے ہتھیاروں کے ساتھ لڑنا پڑی، البتہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد نیٹو کے سیکرٹری کا یہ کہنا کہ ’’ابھی اسلام باقی ہے‘‘ جن لوگوں کو یاد رہا ان کی دعاؤں اور ہمدردیوں کی کمک کا تسلسل امارت اسلامی افغانستان کی پشت پر موجود رہا، اور وہ کچھ نہ کر سکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمیشہ پر امید رہے کہ برطانیہ اور روس کی غلامی سے افغان قوم کو محفوظ رکھنے والا خدا امریکی اتحاد کے تسلط سے بھی انہیں ضرور بچائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ تاریخ کے طالب علم کے طور پر افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ہمارا پہلا تاثر یہ ہے کہ افغان قوم نے اپنی آزادی اور خود مختاری کا امتیاز ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے جو بہرحال تاریخ کا ایک اعزاز ہے اور انسانی سماج کی تاریخ اسے کبھی نظر انداز نہیں کر پائے گی

اس کے ساتھ ہی یہ سماجی حقیقت پھر سے نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ مذہب انسانی سماج کی فطری ضرورت اور قوت ہے جسے خود ساختہ فلسفوں اور مصنوعی اسباب کے ذریعہ شکست نہیں دی جا سکتی۔ اور چونکہ اس وقت دنیا میں مذہب اپنی اصل حالت میں محفوظ تعلیمات اور زندہ ثقافت کے ماحول میں صرف اور صرف اسلام کی صورت میں موجود ہے، اس لیے مذہب اور آسمانی تعلیمات کی انسانی سماج پر عملداری کا پرچہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور دنیا کے پاس اس مقصد کے لیے اس کی طرف متوجہ ہونے کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں رہا۔ اس موقع پر ہم ہاورڈ یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر ڈاکٹر نوح فلڈ مین کا وہ تبصرہ جو انہوں نے چند سال قبل نیویارک ٹائمز میں ’’شریعت کیوں؟‘‘ کے عنوان سے اپنے تفصیلی مضمون میں کیا تھا، اس کا صرف ایک حصہ پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ شرعی قوانین کے مخالفین ان کی مخالفت اس وجہ سے نہیں کر رہے کہ شریعت کے احکام و قوانین میں کوئی کجی یا کمزوری ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف ان کا یہ ادراک ہے کہ اگر دنیا میں انسانی سوسائٹی کے کسی حصے پر آسمانی احکام اور شرعی قوانین کو آزادانہ عملداری کا کچھ عرصہ موقع مل گیا تو معاشرہ میں ان کے فطری نتائج اور ثمرات و برکات سامنے آنے کے بعد انسان کے خود ساختہ نظاموں اور فلسفوں کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑے رہنا مشکل ہو جائے گا۔

ہمارے خیال میں اب اس کا وقت آگیا ہے اور افغانستان میں شریعت اور آسمانی تعلیمات کے ساتھ مخلصانہ کمٹمنٹ رکھنے والوں کی یہ پیشرفت اگر اسی رفتار سے اپنا سفر کچھ عرصہ جاری رکھ سکی تو انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کی بجائے ’’خدا کی زمین پر خدا کا نظام‘‘ کا منظر نسلِ انسانی ایک بار پھر دیکھے گی اور انسانی سماج کو انصاف، عدل اور امن و خوشی کی حقیقی منزل نصیب ہو گی، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter