تہذیبی چیلنج ۔ سیرت طیبہؐ سے رہنمائی لینے کی ضرورت

   
مئی ۲۰۰۶ء

ربیع الاول کا مہینہ ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی تذکرہ اور یاد کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے لیکن اس ماہ میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے تذکرہ نبویؐ کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے مختلف طبقات اپنے اپنے انداز اور طریقہ کے مطابق نبی اکرمؐ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ، اور ارشادات مقدسہ کے تذکرہ کے لیے تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس سال یہ تقاریب اس حوالے سے پہلے سے زیادہ اور منفرد اہمیت کی حامل ہیں کہ یورپ کے بعض اخبارات میں جناب نبی اکرمؐ کے خیالی اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلمانان عالم میں اضطراب و احتجاج کی جو لہر اٹھی ہے، اس کے مناظر ابھی ذہنوں میں تازہ ہیں اور ربیع الاول کے یہ اجتماعات بھی اسی تسلسل کا حصہ دکھائی دے رہے ہیں۔

اس وقت عالمی سطح پر فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے مختلف رویوں کے درمیان کشمکش اور تصادم کے بڑھتے ہوئے امکانات کی جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور جس میں اسلام ایک واضح فریق کے طور پر سامنے آرہا ہے، اس کے پیش نظر نبی اکرمؐ کی سیرت و تعلیمات کے زیادہ سے زیادہ تذکرہ کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے، اس لیے کہ اس تہذیبی اور فکری کشمکش میں قرآن کریم اور سنت نبویؐ ہی سے ہم صحیح سمت کی طرف رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں، اور فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے ان رویوں کا سامنا کر سکتے ہیں جو اسلام کو عالمی منظر سے اس حوالے سے ہٹا دینے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ وہ رویے جن کا تقاضا ہے کہ جس طرح بہت سے دوسرے مذاہب سوسائٹی کی فکری رہنمائی اور ثقافتی و معاشرتی قیادت سے دستبردار ہوگئے ہیں، اسی طرح اسلام کو بھی معاشرتی قیادت کے منظر سے ہٹ جانا چاہیے اور دوسرے مذاہب کی طرح اپنی سرگرمیوں اور ہدایات کو شخصی اور پرائیویٹ دائروں تک محدود کر لینا چاہیے۔

آج کے عالمی منظر میں مسلمانوں کو فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے یہی سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور آج نبی اکرمؐ کی سیرت و تعلیمات کا اس پس منظر میں مطالعہ کرنے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیرت نبویؐ کا جس حوالے سے بھی تذکرہ کیا جائے یہ اجر و ثواب، رہنمائی، اور برکات کا ذریعہ ہے۔ آپؐ تو سراپا رحمت و برکت ہیں اور اجر و ثواب کا سرچشمہ ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو دیکھنا ہے، اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی ہے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ پھر ان ضروریات، کمزوریوں، اور کوتاہیوں کا پہلا دائرہ ہمارا داخلی دائرہ ہے، اس کے تقاضے مختلف ہیں، جبکہ دوسرا دائرہ عالمی اور بین الاقوامی ہے جو ہمارے داخلی دائرے سے الگ ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتے ہوئے گلوبل ماحول کی وجہ سے اپنے فاصلے کم کرتا جا رہا ہے، اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں نبی اکرمؐ کی سیرت و تعلیمات کے ان پہلوؤں کو ترجیحی بنیاد پر سامنے لانے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے جن کا تعلق ہماری موجودہ ضروریات، کمزوریوں، اور کوتاہیوں سے ہے۔ اسی طرح نبی کریمؐ کی تعلیمات و ارشادات کے ان حصوں کو زیادہ اہمیت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ضروری ہو گیا ہے جو آج کے عالمی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں ان اشکالات و شبہات کا جواب پایا جاتا ہے جو آج کی دنیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں نمایاں کیے جا رہے ہیں، اور جن کا جواب دینے کی مختلف اطراف سے کوششیں جاری ہیں۔ بدقسمتی سے ہم اس حوالے سے بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں اور ہماری طرف سے ان معاملات میں دو مختلف بلکہ متضاد رویے سامنے آرہے ہیں جو کنفیوژن کا باعث بن رہے ہیں اور مسائل کے حل کی بجائے ان میں اضافے کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ مثلاً ایک رویہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کو درپیش مسائل و مشکلات اور اس کے حل کے لیے منطقی اور فطری ضروریات کی نفی کرتے ہوئے اور ان سے آنکھیں بند کرتے ہوئے رسول اللہؐ کے ارشاد و تعلیمات کو اسی انداز اور ماحول میں پیش کیا جاتا ہے جس کا ہمیں اب سے دو سو سال یا تین سو سال قبل سامنا تھا۔ ہم جب آج کے ماحول اور تناظر میں تین سو سال قبل کے ماحول اور تناظر کے مطابق مسائل اور احکامات کو پیش کرتے ہیں تو اس سے منطقی طور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اسلام میں معاشرتی ارتقا کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے، اور وہ تبدیل ہونے والے حالات اور تقاضوں کو اپنے اندر ضم کرنے یا اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا ذوق نہیں رکھتا۔

اب سے تین سو سال قبل یورپ میں مسیحیت کو اس قسم کی صورت حال درپیش تھی۔ مذہب کے علمبردار اپنے احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح میں زمانے کے تغیرات اور ماحول کی تبدیلی کا لحاظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو یورپ کے عوام نے فیصلہ کر لیا کہ معاشرتی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی ان کی تمدن کی ترقی پر قدغن لگائی جا سکتی ہے، اس لیے اگر مذہب ارتقا اور ترقی کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے تو اسے اپنی جگہ کھڑا رہنے دیا جائے اور سوسائٹی کو اپنی رفتار کے ساتھ آگے بڑھنے دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اور سوسائٹی کا باہمی رشتہ ٹوٹ گیا اور مذہب کی رہنمائی اور اس کی حدود کی پابندی سے آزاد ہو کر سوسائٹی نے ’’مادر پدر آزادی‘‘ کا راستہ اختیار کر لیا جس کے خوفناک نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کے بارے میں بھی یہی سوچ نمایاں کی جا رہی ہے اور اس تاثر کو عام کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں جدید دور کے تقاضوں کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، اس لیے اسے مسجد کے دائرہ میں رہنے دیا جائے اور شخصی زندگی میں اس کے کردار کی نفی نہ کی جائے۔ البتہ سوسائٹی کو مذہب کی رہنمائی اور اس کے احکام و حدود کی پابندی سے آزاد کر دیا جائے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے ارباب دانش جو اس صورت حال سے پریشان ہیں اور اس سوال کا اپنے اپنے طور پر جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ان میں سے کچھ دوست دوسری انتہا کی طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے معاشرت و تمدن کے جدید مسائل و مشکلات اور ان کے بارے میں موجودہ انسانی سوسائٹی نے جو حل سوچ لیا ہے یا ان سے نکلنے کے لیے جو راستہ طے کر لیا ہے، اسی کو حتمی معیار سمجھ لیا جائے اور اس کے مطابق قرآن کریم اور نبی اکرمؐ کے ارشادات و تعلیمات کی نئی تعبیر و تشریح کر لی جائے، تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ تعبیر و تشریح ہماری خود ساختہ ہی کیوں نہ ہو۔

ہمارے نزدیک یہ دونوں رویے غلط ہیں اور انتہاپسندانہ ہیں۔ اصل راستہ ان دونوں کے درمیان ہے جو اگرچہ بہت نازک اور حساس ہے لیکن اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح نئی ضروریات اور ان کے بارے میں زمانے کی سوچ کو معیار تسلیم کر کے قرآن و سنت کی اس کے مطابق نئی تعبیر و تشریح کرنا غلط اور گمراہ کن طرز عمل ہے، اسی طرح نئی ضروریات کو نظر انداز کر دینا اور ان کا کوئی نہ کوئی حل نکالنے کی ضرورت محسوس نہ کرنا بھی غلط ہے اور اسلام کے مزاج کے خلاف ہے ۔نبی اکرمؐ کے بعد قرآن کریم کی جمع و ترتیب اور تدوین و کتابت کے بارے میں حضرت ابوبکر ،حضرت عمر، اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے درمیان جو مکالمہ ہوا تھا ،وہ ہماری اس گزارش کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ مختلف جنگوں میں قرآنِ کریم کے حفاظ کی کثرت کے ساتھ شہادتوں کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن کریم کو مرتب انداز میں لکھ کر محفوظ کر لینا چاہیے۔ یہ ایک نئی ضرورت تھی جو حالات کے تحت پیدا ہو گئی تھی، اسے حضرت عمرؓ نے محسوس کیا اور انہوں نے خلیفۃ المسلمین حضرت صدیق اکبرؓ کے سامنے اس ضرورت کا تذکرہ کیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے ابتدا میں یہ کہہ کر اس کام سے انکار کر دیا کہ ایک کام نبی اکرمؐ کے زمانے میں نہیں ہوا تھا، میں کیسے کر سکتا ہوں؟ لیکن جب حضرت عمرؓ نے بار بار اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلایا تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کریم کی جمع و ترتیب اور تدوین و کتابت کا اجتہادی فیصلہ کر لیا۔ لیکن جب انہوں نے جناب نبی اکرمؐ کے خصوصی کاتب حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر یہ کام ان کے سپرد کرنا چاہا تو انہوں نے بھی پہلے مرحلہ میں وہی بات کہی جو حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہی تھی کہ جو کام جناب نبی اکرمؐ کے زمانے میں نہیں ہوا تھا وہ کام مجھے کرنے کے لیے آپؓ کیسے کہہ رہے ہیں؟ ان دونوں بزرگوں نے انہیں اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلایا تب وہ اس کے لیے تیار ہوئے۔

ان بزرگوں کا یہ مکالمہ اور پھر فیصلہ ہمارے لیے اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک اصول اور بنیاد ہے کہ کوئی نئی اجتماعی ضرورت پیش آ جائے تو اسے نظر انداز کر دینا دانش مندی نہیں ہے بلکہ اس ضرورت کو تسلیم کرنا ،اس کی اہمیت کو سمجھنا، اور اس کا حل نکالنا اہل علم کی دینی ذمہ داری ہے۔ کوئی ضرورت اپنے حل سے زیادہ دیر تک محروم نہیں رہتی کیونکہ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے ۔البتہ یہ ضرور ہوگا کہ اہل علم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس کا کوئی حل نکالیں گے تو وہ شرعی اصولوں کی روشنی میں ہوگا اور دین کے دائرے میں ہوگا لیکن اگر اہل علم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو لوگ خود اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں گے جو ظاہر ہے کہ دینی اصولوں اور تقاضوں کے دائرہ کا پابند نہیں ہوگا اور اس سے دین سے انحراف کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس حوالے سے ایک اور تاریخی اور اجتہادی فیصلے کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ نبی اکرمؐ اور پہلے دونوں خلفاء حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنا بیت المال کی ذمہ داری تھی اور بیت المال کے نمائندے ہر قسم کے اموال کی زکوٰۃ سرکاری طور پر وصول کیا کرتے تھے، لیکن امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں یہ محسوس کیا کہ لوگوں کے پاس جو ذاتی اور پرائیویٹ رقم ہوتی ہے، سرکاری طور پر اس کی زکوٰۃ وصول کرنے کی صورت میں ان کی ’’پرائیویسی‘‘ متاثر ہوتی ہے اور لوگوں کے ذاتی معاملات میں سرکاری اہل کاروں کا تجسس بڑھتا ہے۔ اس لیے انہوں نے ’’اموال ظاہرہ‘‘ اور ’’اموال باطنہ‘‘ کا فرق کر کے لوگوں کی ذاتی اور پرائیویٹ رقوم کو زکوٰۃ کے سرکاری وصولی کے حکم سے مستثنیٰ کر دیا اور کہا کہ اس قسم کے اموال کی زکوٰۃ لوگ اپنی ذمہ داری پر خود ادا کیا کریں تاکہ ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو اور سرکاری اہل کار خواہ مخواہ لوگوں کی ذاتی و پرائیویٹ رقوم اور اموال کا کھوج نہ لگاتے پھریں۔

اس نوع کی بیسیوں مثالیں آپ کو اسلامی تاریخ میں ملیں گی۔ خلفائے راشدینؓ کے دور میں، صحابہ کرامؓ کے دور میں، اور ان کے بعد کم و بیش ہر دور میں آپ اس کی مثالیں دیکھیں گے کہ کوئی اجتماعی ضرورت پیدا ہوئی، کسی نئے معاشرتی تقاضے نے سر اٹھایا، تو اہل علم نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور اس کا حل نکالا۔ اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کہیں اجتہادی دائروں میں تعبیر و تشریح اور تطبیق و تنفیذ کے زاویے تبدیل کرنا پڑے تو ان سے گریز نہیں کیا۔ اسی کا نام اجتہاد ہے، اسی کو زمانے کے بدلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شریعت کو زمانے کے تقاضوں کے سانچے میں ڈھالنا اور چیز ہے، اور زمانے کے تقاضوں کا ادراک و احساس کرتے ہوئے شریعت کے اصولوں کے دائرے میں ان کو پورا کرنے کی کوشش کرنا اس سے بالکل مختلف امر ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آج نبی اکرمؐ کی سیرت طیبہ، حالات مبارکہ، اور ارشادات مقدسہ کو پیش کرتے ہوئے زمانے کی اس ضرورت کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کے جدید چیلنج سے نمٹنا کوئی زیادہ مشکل امر نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ارباب عزم و ہمت اور اصحاب فہم و ادراک کی ضرورت ہے جو آگے بڑھیں اور جدید تہذیب و فلسفہ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وقت کے فکری دھارے کا رخ موڑ دیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter