(شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی نے ۷ جنوری ۲۰۱۰ء کو فیصل آباد کا دورہ کیا اور مختلف اجتماعات سے خطاب کیا۔ (۱) نماز ظہر کے بعد سبینا ٹاؤن لاہور روڈ میں نئی تعمیر شدہ جامع مسجد الرشید میں قاری خالد رشید صاحب کی دعوت پر حفظ قرآن کریم کی کلاس کے آغاز کے حوالہ سے گفتگو کی اور دعا کے ساتھ تعلیمی سلسلہ کا افتتاح کیا۔ (۲) نماز عصر کے بعد النور ٹرسٹ کے تحت اذان ٹی وی کے لیے درس قرآن کریم ریکارڈ کرایا۔ (۳) نماز مغرب کے جامع مسجد امین کوٹ خان محمد پیپلز کالونی میں درس قرآن کریم کے اختتام کی تقریب سے خطاب کیا، اس مسجد میں مولانا مفتی محمد سعید نے چار سال قرآن کریم کا درس مکمل کیا ہے۔ (۴) اس کے بعد جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں مولانا مفتی محمد طیب، مولانا مفتی محمد زاہد اور دیگر اساتذہ سے ملاقات کی اور متعدد امور پر ان سے تبادلۂ خیالات کیا جبکہ نماز عشاء کے بعد جامعہ امدادیہ اسلامیہ کے قریب ایک مسجد میں نوجوانوں کے لیے فہم دین کورس کے آغاز کی تقریب سے خطاب کیا۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے مدرس مولانا حافظ محمد عامر اس دورے میں آپ کے ہمراہ تھے۔ جامع مسجد امین میں درس قرآن کریم کی تکمیل کے موقع پر خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ادارہ نصرۃ العلوم)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم قرآن کریم کے حوالہ سے ایک تقریب میں جمع ہیں، آپ کے خطیب و امام مولانا مفتی محمد سعید صاحب نے چار سال میں آپ کو درس کے ذریعے پورا قرآن کریم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ سنایا ہے جو بڑی سعادت کی بات ہے، امید ہے کہ وہ اس مبارک سلسلہ کو دوبارہ شروع کریں گے۔ میں اس سعادت پر مفتی صاحب اور آپ سب دوستوں کو مبارک باد دیتے ہوئے فہم قرآن کریم کے ایک پہلو پر کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا، دعا کریں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں عرض کرنے کی توفیق دیں اور پھر ان پر ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق سے بھی نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
فہم قرآن کے حوالہ سے بیسیوں پہلو ہیں جن کے بارے میں عرض کیا جا سکتا ہے اور ان کی ضرورت بھی ہے لیکن آج میں صرف اس ایک پہلو پر گزارش کروں گا کہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھتے ہوئے کسی تفسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یا درس سنتے ہوئے قرآن کریم کی کسی آیت کے مفہوم کے بارے میں ذہن الجھ جائے، مغالطہ لگ جائے، غلط فہمی پیدا ہو جائے، کنفیوژن ہو جائے، کوئی اشکال سامنے آجائے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ جہاں تک مغالطہ لگ جانے یا الجھن پیدا ہونے کی بات ہے یہ فطری بات ہے، انسانی ذہنوں میں بہت زیادہ تفاوت ہے اس لیے کہیں نہ کہیں غلط فہمی ہو ہی جاتی ہے اور ذہن کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کو مغالطے لگ جاتے ہیں، حضرات صحابہ کرامؓ کو بھی بعض آیات کے سمجھنے میں غلطی لگ جاتی تھی اور وہ الجھنوں کا شکار ہو جاتے تھے، لیکن ان کے پاس اس کا ایک سیدھا سا حل موجود تھا کہ وہ ایسی کسی بھی الجھن پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے اور حضورؐ اس آیت کا جو مفہوم بیان کرتے اور اشکال کا جو حل پیش کرتے اس پر ان کا اطمینان ہو جاتا۔ ظاہر بات ہے کہ نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اللہ کے نمائندے ہیں، وہ قرآن کریم کی کسی آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے اور وہی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی منشا ہوتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اس سلسلہ میں بیسیوں واقعات موجود ہیں ان میں سے بات سمجھانے کے لیے ایک دو کا تذکرہ کرتا ہوں۔
حضرت عدی بن حاتمؓ جناب نبی اکرمؐ کے معروف صحابی ہیں، حاتم طائی کے بیٹے ہیں، اسلام قبول کرنے سے پہلے عیسائی تھے، اسلام قبول کیا، قرآن کریم پڑھا تو ایک جگہ ان کا ذہن اٹک گیا۔ قرآن کریم نے عیسائیوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اتخذوا احبارھم ورھبانہم اربابًا من دون اللّٰہ‘‘ انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے ورے رب بنا لیا تھا۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ ہم جب عیسائی تھے تو اپنے علماء اور مشائخ کو رب نہیں کہتے تھے اور نہ ہی رب کا درجہ دیتے تھے، انہوں نے یہ اشکال جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں پیش کیا، جس کی ظاہری صورت یہ تھی کہ خدانخواستہ قرآن کریم نے ایک خلاف واقعہ بات کہہ دی ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے عدیؓ سے پوچھا کہ کیا تمہارے ہاں علماء و مشائخ کو حلال و حرام میں ردوبدل کا اختیار تھا یا نہیں؟ عدیؓ نے کہا کہ یہ تو تھا، یعنی مسیحیوں کے ہاں ان کے علماء و مشائخ کو یہ اتھارٹی حاصل تھی کہ وہ جس چیز کو حلال کہہ دیں وہ حلال ہے اور جسے حرام کہہ دیں وہ حرام ہے۔
یہ اختیار آج بھی کیتھولک عیسائیوں میں پاپائے روم کو اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں میں آرچ بشپ آف کنٹر بری کو حاصل ہے کہ وہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے سکتے ہیں۔ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ علماء و مشائخ کو اس اختیار اور اتھارٹی کا حامل سمجھنا ہی ان کو ’’اربابًا من دون اللہ‘‘ سمجھنا ہے اور قرآن کریم نے اسی کی نشاندہی کی ہے۔ جبکہ اسلام میں یہ اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی کسی چیز کو حرام کر سکیں یا اللہ تعالیٰ کی حرام قرار دی ہوئی کسی چیز کو حلال بتا سکیں۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو یہ اختیار دیتے تو کس کو دیتے؟
ظاہر بات ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو جناب نبی اکرمؐ ہی اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے کہ انہیں حلال و حرام میں ردوبدل کا اختیار دیا جاتا، لیکن یہ بات نبی اکرمؐ سے ہی اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے کہ ’’لم تحرم ما احل اللّٰہ لک؟‘‘ جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی ہے اسے آپ کیسے حرام قرار دے رہے ہیں؟ اس لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال یا حرام کہا ہے اسے تبدیل کرنے کا اگر جناب نبی اکرمؐ کو اختیار نہیں ہے تو پھر کائنات میں کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اسے حلال و حرام میں ردوبدل کی اتھارٹی تسلیم کیا جائے۔ لیکن میں اسی حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی اس آیت کے مفہوم میں حضرت عدیؓ کو اشکال ہوا تو انہوں نے جناب نبی اکرمؐ سے رجوع کیا اور آنحضرتؐ نے اس کی جو وضاحت فرمائی اس پر ان کا اطمینان ہو گیا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ معروف صحابہ کرامؓ میں سے ہیں، صف اول کے جرنیل تھے اور بہت بڑے ڈپلومیٹ بھی تھے، ترمذی شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے انہیں نجران کے علاقے میں اسلام کی دعوت کے لیے بھیجا جو عیسائیوں کا علاقہ تھا، انہوں نے وہاں جا کر جب قرآن کریم پر ایمان لانے کی دعوت دی تو وہاں کے عیسائی علماء نے قرآن کریم پر اعتراض کر دیا جس کا جواب مغیرہ بن شعبہؓ نہ دے سکے اور وہاں سے واپس آگئے۔ وہ اعتراض یہ تھا کہ قرآن کریم نے حضرت مریم علیہا السلام کا تذکرہ ایک مقام پر ’’یا اخت ھارون‘‘ کہہ کر کیا ہے اور انہیں ہارون کی بہن قرار دیا ہے، عیسائی علماء نے کہا کہ حضرت ہارونؑ تو حضرت موسٰیؑ کے بھائی تھے جبکہ مریم حضرت عیسٰیؑ کی والدہ محترمہ تھیں، دونوں کے درمیان صدیاں حائل ہیں اس لیے حضرت ہارون اور حضرت مریم علیہما السلام کیسے آپس میں بہن بھائی ہو سکتے ہیں؟
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے اس کا جواب نہ بن پڑا اور انہوں نے مدینہ منورہ واپسی پر جناب نبی اکرمؐ کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ بندۂ خدا تو اتنی سادہ سی بات بھی ان سے نہیں کہہ سکا کہ وہ لوگ اپنے بچوں کے نام انبیاء کرام علیہم السلام کے ناموں پر برکت کے لیے رکھا کرتے تھے اور حضرت مریمؑ کے بھائی کا نام بھی ہارون تھا جو حضرت ہارونؑ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہاں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو قرآن کریم کی ایک آیت کے بارے میں الجھن میں ڈالا گیا تو انہوں نے جناب نبی اکرمؐ سے رجوع کیا اور آپؐ کی وضاحت پر ان کا اطمینان ہو گیا۔
اس لیے میں آپ حضرات سے پہلی گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش میں کہیں نہ کہیں الجھن ہو سکتی ہے، مغالطہ لگ سکتا ہے، جہاں ایسا ہو تو سب سے پہلے جناب نبی اکرمؐ کی طرف رجوع کریں، اپنی طرف سے دھکا نہیں کریں۔ اور جب کسی آیت کے بارے میں نبی اکرمؐ کے ارشاد یا عمل سے راہنمائی مل جائے تو پھر کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ بسا اوقات کسی بات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے اس کے بیک گراؤنڈ سے واقفیت ضروری ہو جاتی ہے اور جب تک اس کی بیک گراؤنڈ سامنے نہ آئے صحیح مفہوم تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے، اس حوالہ سے بھی احادیث میں متعدد واقعات موجود ہیں، ان میں سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہوں گا۔
قرآن کریم میں صفا اور مروہ کی سعی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما‘‘ جو شخص حج کرے یا عمرہ کرے تو کوئی حرج نہیں کہ وہ صفا مروہ کی سعی بھی کرے۔ اس جملہ کے ظاہری مفہوم کا تقاضہ یہ ہے کہ صفا مروہ کی سعی کی صرف اجازت دی گئی ہے اور وہ حج یا عمرہ میں کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ یہ اشکال صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی سامنے آیا، بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عروۃ بن زبیرؒ نے ام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں یہ اشکال پیش کیا، ام المومنینؓ نے جواب دیا کہ جاہلیت کے دور میں قریش اور ان کے بعض حلیف قبائل تو حج اور عمرہ میں بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا مروہ کی سعی کرتے تھے لیکن انصارِ مدینہ اوس اور خزرج کے لوگ صفا مروہ کی سعی نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کی جگہ قدید کے مقام پر واقع بت خانے مناۃ میں جایا کرتے تھے اور صفا مروہ کی سعی کو جاہلیت کی علامت قرار دیا کرتے تھے۔ لیکن جب فتح مکہ کے بعد مناۃ اور دیگر بت خانے توڑ دیے گئے تو اوس اور خزرج کو، جو دونوں انصار مدینہ کے قبیلے تھے، اشکال ہوا کہ وہ بیت اللہ کے طواف کے بعد کہاں جائیں گے؟ اس پر اللہ تعالی ٰنے انصار مدینہ سے کہا کہ صفا مروہ کی سعی جاہلیت کی بات نہیں بلکہ شعائر اللہ کی تعظیم کی بات ہے اس لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ بیت اللہ کے طواف کے ساتھ صفا مروہ کی سعی بھی کر لی جائے۔ ام المومنینؓ کا ارشاد ہے کہ ’’لاجناح علیہ‘‘ کا جملہ انصار مدینہ کے لیے کہا گیا ہے جو اسے حرج اور جاہلیت کی بات سمجھا کرتے تھے۔ ام المومنینؓ کی اس وضاحت کی روشنی میں غور فرمائیں کہ اگر یہ وضاحت سامنے نہ ہو اور اس آیت کا یہ پس منظر، جسے ہماری اصطلاح میں شانِ نزول کہا جاتا ہے، علم میں نہ ہو تو اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اور اسی وجہ سے آج بھی بعض متجددین اسی شبہ کا شکار ہیں جس کا اظہار حضرت عروہ بن زبیرؓ نے کیا تھا لیکن ان کا شبہ ام المومنینؓ کی وضاحت کے بعد دور ہو گیا تھا جبکہ ہمارے دور کے متجددین مسلسل مغالطہ کا شکار ہیں۔
حضرت قدامہ بن مظعونؓ بدری صحابی تھے، حضرت عمرؓ کے برادر نسبتی تھے اور ان کے دور خلافت میں بحرین کے گورنر تھے۔ ان کے بارے میں رپورٹ ملی کہ وہ کبھی کبھی شراب پیتے تھے، انکوائری کرائی گئی تو رپورٹ درست ثابت ہوئی، حضرت عمرؓ نے انہیں طلب کر لیا اور پوچھا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ کبھی کبھی تھوڑی بہت پیتے ہیں اور اس لیے پیتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ انہیں قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے مغالطہ ہوا تھا جو شراب کی حرمت و ممانعت کے بعد ہے اور جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا‘‘ جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے ان پر کوئی حرج نہیں جو انہوں نے تھوڑی بہت چکھ لی۔ حضرت عمرؓ کو ان کی زبان سے یہ سن کر سخت غصہ آیا اور فرمایا کہ اگر تم بدری صحابی نہ ہوتے تو میں تمہاری چمڑی اتار دیتا۔ خدا کے بندے یہ تمہارے بارے میں نہیں کہا گیا بلکہ جب شراب کی حرمت و ممانعت کا اعلان ہوا اور اسے قرآن کریم میں ’’رجس‘‘ گندگی قرار دیا گیا تو بعض صحابہؓ کو اشکال ہوا کہ ہمارے جو بھائی شراب کی حرمت کے اعلان سے پہلے پیتے تھے اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں تو کیا یہ ’’رجس‘‘ گندگی ان کے پیٹوں میں ان کے ساتھ گئی ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے انہوں نے شراب کی حرمت سے پہلے جو شراب پی لی ہے اس میں ان پر کوئی حرج نہیں ہے۔ گویا ’’لا جناح‘‘ شراب کی حرمت کے بعد کے لیے نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے کے حوالہ سے ہے۔
یہاں بھی میں اس بات پر غور و فکر کی دعوت دوں گا کہ اگر اس آیت کا یہ شان نزول سامنے نہ ہو جو حضرت عمرؓ بیان کر رہے ہیں تو اس کا صحیح مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور اسی وجہ سے اس آیت کے بارے میں بھی بعض متجددین مغالطے کا شکار ہیں اور لوگوں کو مغالطہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حضرات محترم! میں نے چند واقعات آپ کو یہ بات سمجھانے کے لیے پیش کیے ہیں کہ قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے مغالطے اور الجھن کا شکار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے، یہ فطری چیز ہے اور بڑے بڑے لوگ بڑے بڑے مغالطوں کا شکار ہوتے رہے ہیں، لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم ان مغالطوں پر اڑ جائیں یا انہیں اپنی عقل اور سمجھ سے ہی حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں، بلکہ ایسے کسی بھی مغالطے، الجھن، غلط فہمی، کنفیوژن اور اشکال کو دور کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت تلاش کی جائے اور اسے اللہ تعالیٰ کی منشا سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ جس آیت کریمہ کے بارے میں الجھن پیدا ہو رہی ہے اس کے پس منظر اور شانِ نزول کو معلوم کرنے کی کوشش کی جائے جو ظاہر ہے کہ کسی صحابیؓ سے معلوم ہو گی۔کوئی صحابی ؓ ہی یہ بتائے گا کہ یہ آیت کب نازل ہوئی تھی اور کسی ماحول اور تناظر میں اس کا نزول ہوا تھا۔
اس طرح قرآن کریم کے صحیح فہم کے لیے ہمارے پاس دو ہی راستے اور معیار ہیں: ایک سنت رسولؐ اور دوسرا اقوال صحابہ کرامؓ۔ ان دو اصولوں کو اگر ہم پلے باندھ لیں تو قرآن کریم کو سمجھنے میں کہیں بھی کوئی الجھن پیش نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فہم قرآن کریم کی نعمت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔