ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چند آداب

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۲۲ اکتوبر ۲۰۱۵ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جب بھی فیصل آباد حاضری ہوتی ہے مولانا عبد الرزاق صاحب مہتمم جامعہ اسلامیہ محمدیہ کا تقاضہ ہوتا ہے کہ جامعہ کے اساتذہ و طلبہ سے کچھ گفتگو ہو جائے، ان کے ارشاد کی تعمیل میں آج اس حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہماری دینی مجالس میں جہاں قرآن و سنت کے احکام کا ذکر ہوتا ہے وہاں بزرگانِ دین کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے اور ان سے راہنمائی حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ برکتوں اور رحمتوں سے بھی ہم فیضیاب ہوتے ہیں۔

بزرگانِ دین کا تذکرہ محبت و برکت کے علاوہ راہنمائی کے لیے بھی ہوتا ہے، بلکہ قرآن کریم نے ہمیں احکام و قوانین پر براہ راست عمل کرنے کی بجائے بزرگان دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے نقش قدم پر چلنے کو صراطِ مستقیم قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’واتبع سبیل من اناب الیّ‘‘ ان لوگوں کے راستے پر چلو جو میرے سامنے جھک گئے۔ اس لیے بزرگان دین کا تذکرہ ہمارے لیے ایک دینی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہماری مجالس و محافل میں ان کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔

گزشتہ ماہ سیدنا عثمان بن عفانؓ کی شہادت کے حوالہ سے ان کا تذکرہ ہوتا رہا، اس ماہ کے آغاز میں سیدنا حضرت امیر المؤمنین عمر بن الخطابؓ کی شہادت اور ان کی فضیلت و منقبت عام طور پر زیر بحث رہی۔ اور آج کل سیدنا حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ کر کے ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بزرگوں کے دن منانا یا کچھ ایام کو ان کی یاد کے لیے مخصوص کر دینا تو کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتا، لیکن انہیں یاد کرنا اور ان کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کرتے رہنا رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنتا ہے اور اس سے راہنمائی ملتی ہے۔ اس مناسبت سے میں اس کے ایک پہلو پر بھی کچھ عرض کر رہا ہوں کہ بزرگوں کے تذکرہ کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں اور کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

ہم سب سے زیادہ تذکرہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتے ہیں اور انہی کا سب سے زیادہ تذکرہ کرنا چاہیے۔ مگر قرآن کریم نے اس کے کچھ آداب بیان کیے ہیں اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے کچھ آداب کا ذکر کیا ہے، میں ان میں سے صرف دو تین کا حوالہ دینا چاہوں گا، اس وجہ سے کہ آج کل حمد و نعت کی محفلیں عام ہو گئی ہیں اور شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ خطابت میں بھی حمد و نعت اور منقبت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس میں میری طالب علمانہ رائے میں افراط و تفریط کا رنگ غالب ہو گیا ہے جس کی طرف توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔

(۱) بخاری شریف کی روایت ہے کہ عید کے روز جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں آرام فرما رہے تھے، انصار کی کچھ بچیاں موجود تھیں اور وہ اپنے ان بزرگوں کو شعروں کی صورت میں یاد کرتے ہوئے ترنم کے ساتھ اشعار پڑھ رہی تھیں جو گزشتہ جنگوں میں قتل ہو گئے تھے۔ عید کا دن خوشی کا دن بھی ہوتا ہے اور بچھڑے ہوئے بزرگوں کو یاد کرنے کا دن بھی ہوتا ہے، اور اس دن بچھڑے ہوئے لوگ بہت یاد آتے ہیں۔ وہ بچیاں اپنے اس شغل میں مصروف تھیں کہ حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور یہ منظر دیکھ کر بچیوں کو منع کرنا چاہا مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ رہنے دیں بچیاں ہیں اور عید کا دن ہے۔ لیکن جب انہی بچیوں نے اشعار پڑھتے ہوئے یہ مصرعہ پڑھا کہ ’’وفینا نبی یعلم ما فی غد‘‘ ہمارے درمیان ایسا نبی موجود ہے جو آنے والے کل کے حالات بھی جانتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں روک دیا کہ یہ بات نہ کہو اور باقی جو کچھ کہہ رہی ہو کہتی رہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مصرعہ سے اس لیے روک دیا تھا کہ اس سے عقیدۂ توحید پر زد پڑتی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگوں کے تذکرہ حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بھی اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ اس سے عقیدہ پر زد نہ پڑتی ہو۔

(۲) دوسرا واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ قریش کے شاعروں نے جب غزوۂ احزاب میں ناکامی کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور نعوذ باللہ ہجو میں اضافہ کر دیا تو ان کے جواب کے لیے حضرت حسان بن ثابتؓ سامنے آئے۔ اور ایک موقع پر اپنے جذبات کا اظہار اس طرح فرمایا کہ میں اپنی زبان کے ساتھ ان قریشیوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسانؓ! میں بھی تو قریشی ہوں۔ حضرت حسانؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں قریش کی مذمت کرتے ہوئے آپ کو درمیان سے ایسے نکال دوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنی بات پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ حضرت حسانؓ سے کہا کہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھ کر ان سے میری رشتہ داریوں کی تفصیل معلوم کر لو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کہیں انجانے میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دو جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوءِ ادب کا پہلو نکلتا ہو۔

یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ ہم مدح و منقبت میں اور کافروں کی مذمت میں بھی اس بات کے پابند ہیں کہ انتہائی احتیاط سے بات کریں، اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں انجانے میں اور بے دھیانی میں بھی کوئی بے احتیاطی نہ ہو جائے۔ جبکہ ہمارے ہاں شعر و شاعری اور خطابت دونوں دائروں میں اس امر کا لحاظ رکھنا کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم ہر وہ بات کہہ دیتے ہیں جو کسی طرح ہمارے ذہنوں میں آ جاتی ہے۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور حد درجہ احتیاط کا اہتمام کرنا چاہیے۔

(۳) جبکہ تیسری بات بھی بخاری شریف کے حوالہ سے ہی ذکر کروں گا کہ ایک موقع پر ایک انصاری صحابیؓ نے ایک یہودی کو اس بات پر تھپڑ مار دیا تھا کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سارے انسانوں پر فضیلت کی بات کہہ دی تھی۔ جس سے انصاری صحابیؓ کو غصہ آیا کہ یہ انہیں حضرت محمدؐ پر بھی فضیلت دے رہا ہے اور اس نے یہودی کو تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ وہ جب اس کی شکایت لے کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو اس لیے کہ قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہو جائیں تو میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہوں گے۔ معلوم نہیں وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آچکے ہوں گے یا بے ہوش ہی نہیں ہوئے ہوں گے، کیونکہ وہ دنیا میں ہی کوہِ طور پر ایک بار اللہ تعالیٰ کے نور کی تجلی کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئے تھے، اس لیے شاید قیامت کے دن کی بے ہوشی سے مستثنیٰ کر دیے گئے ہوں۔ یہی بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمائی کہ مجھے ان پر فضیلت نہ دو۔ بلکہ ایک موقع پر فرمایا کہ ”لا تخیرو نی من بین الانبیاء“ مجھے انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان فضیلت نہ دو۔

اس پر سوال اٹھتا ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان فضیلت کی بات تو خود قرآن کریم کہتا ہے کہ ’’تلک الرسل فضلنا بعضہم علیٰ بعض‘‘ ہم نے بعض انبیاء کرامؑ کو بعض دوسرے انبیاءؑ پر فضیلت دی ہے۔ اور سب انبیاء کرام علیہم السلام پر اپنی فضیلت اور برتری کا ذکر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو بیسیوں احادیث میں موجود ہے، اور ہمارا اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو علی الاطلاق تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت حاصل ہے۔ تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت دینے سے منع کیوں فرمایا ہے؟ شارح بخاریؒ حضرت علامہ قسطلانیؒ فرماتے ہیں کہ مطلق فضیلت بیان کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ ایسی فضیلت بیان کرنے سے روکا ہے کہ جس سے دوسرے بزرگ کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے۔ یعنی نبیوں کا آپس میں تقابل نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ تقابل کی صورت میں دوسری طرف کچھ نہ کچھ اہانت یا تخفیف کا پہلو ضرور نکل آتا ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں یہ ذوق عام ہوتا جا رہا ہے کہ حضرات انبیاء کرامؑ ہوں یا حضرات صحابہ کرامؓ ہوں، ہم دو بزرگوں یا دو گروہوں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے تولنا شروع کر دیتے ہیں اور بسا اوقات وہ کچھ کہہ جاتے ہیں جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کا تذکرہ صحیح طریقہ سے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter