عشرہ محرم الحرام کے دوران ایک اہم خبر گزارشات کا عنوان نہ بن سکی جو اگست کے اواخر میں اس صورت میں سامنے آئی تھی کہ:
’’سندھ حکومت نے صوبے میں موجود مدارس کو تعلیمی اداروں کے طور پر رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان وزیر اعلٰی کے مطابق سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نیشنل ایکشن پلان سمیت معاملات پر بریفنگ دی گئی۔ آئی۔ جی سندھ نے بریفنگ میں بتایا کہ سندھ میں ۸۱۹۵ مدارس اور امام بارگاہیں ہیں۔ اس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے میں مدارس تعلیمی اداروں کے طور پر رجسٹرڈ کیے جائیں گے اور انہیں محکمہ تعلیم رجسٹرڈ کرے گا۔ اس موقع پر وزیر اعلٰی نے کہا کہ مدارس کا مفت تعلیم دینے میں اہم کردار ہے۔‘‘ (روزنامہ اسلام لاہور ۔ ۲۵ اگست ۲۰۲۰ء)
ہمارے خیال میں دینی مدارس کے حوالہ سے سندھ حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون اور دیگر صوبوں میں بھی اسی نوعیت کے فیصلوں کا ماحول پیدا کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس ہمارے معاشرہ میں اس خلا کو پورا کرنے میں ڈیڑھ صدی سے مسلسل مصروف ہیں جو ۱۸۵۷ء کے بعد ریاستی تعلیمی نظام و نصاب سے قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور عربی و فارسی زبانوں سے اخراج کے بعد پیدا ہو گیا تھا۔ اور جس سے واضح طور پر یہ خطرہ سامنے آگیا تھا کہ قومی تعلیمی نصاب کے یہ مضامین جو صدیوں سے جنوبی ایشیا کے تعلیمی نظام کا حصہ چلے آرہے تھے اور مسلم سوسائٹی کی بنیادی ضروریات میں شامل تھے، رفتہ رفتہ اجنبی ہو جائیں گے اور ان کا تسلسل سوسائٹی میں باقی نہیں رہے گا۔ دینی مدارس کا آزادانہ تعلیمی نظام جس ایثار و حوصلہ، کفایت شعاری اور اعتماد کے ساتھ ڈیڑھ سو سال سے اس سلسلہ میں مصروف عمل ہے وہ تاریخ کا ایک روشن اور تابناک باب ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ایک آزاد اور خود مختار مسلم ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ جس طرح برطانوی حکمرانوں نے ریاستی تعلیمی نظام سے (۱) قرآن کریم (۲) سنت و حدیث (۳) فقہ و شریعت اور (۴) عربی و فارسی زبانوں کو خارج کر دیا تھا، اسی طرح پاکستان کے ریاستی تعلیمی نظام میں ان مضامین کو دوبارہ شامل کیا جاتا تاکہ تعلیمی نظام کی وہ دوئی ختم ہو جاتی جو انگریزی حکومت نے پیدا کر دی تھی۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا بلکہ اس کے برعکس دینی مدارس کو کسی نہ کسی طرح ادھورے اور یکطرفہ ریاستی تعلیمی نظام کا حصہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس کے لیے ہر قسم کے دباؤ کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
دینی مدارس اس دوران مختلف محکموں کے درمیان فٹ بال بنے رہے اور دیدہ و نادیدہ اداروں کی مسلسل دخل اندازی کا شکار رہے۔ جس کا سب سے بڑا ہدف دینی مدارس کو ان کے آزادانہ تعلیمی کردار سے محروم کرنا اور ان کے جداگانہ دینی تعلیمی نصاب کو اجتماعی دھارے کے نام سے بتدریج تحلیل کر دینا دکھائی دے رہا تھا۔ مگر دینی مدارس کے وفاقوں نے حوصلہ اور تدبر کے ساتھ اس صورتحال کا سامنا کیا اور اب بھی وہ اسی آزمائش سے دوچار ہیں۔ چنانچہ اسی پس منظر میں دینی مدارس کے وفاقوں نے حکومت سے تقاضہ کیا کہ تعلیمی اداروں کے طور پر ان کے کردار کو تسلیم کیا جائے اور ان سے متعلقہ مسائل و معاملات کو محکمہ تعلیم کے ذریعے ڈیل کیا جائے، مگر اس سلسلہ میں محکمہ تعلیم اور دینی مدارس کے وفاقوں کے درمیان باقاعدہ معاہدہ کے باوجود ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہو رہی اور مختلف محکموں اور اداروں کے درمیان گلی ڈنڈے کا کھیل بدستور جاری ہے۔
دینی مدارس کا یہ تقاضہ کسی طرح بھی ناقابل فہم نہیں ہے کہ وہ باقاعدہ تعلیمی ادارے ہیں، دینی تعلیم کے بنیادی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں خواندگی کی شرح بڑھانے کا مؤثر ذریعہ ہیں، اور ملک کے عام شہریوں کو مفت تعلیم دے کر وہ ذمہ داری بھی پوری کر رہے ہیں جو دراصل ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عام شہریوں کو مفت تعلیم مہیا کیا جائے۔ حتٰی کہ دینی مدارس تو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے نادار طبقات کے افراد کو رہائش اور خوراک، لباس اور علاج کی سہولتیں بھی بلا معاوضہ فراہم کر رہے ہیں جس کا اعتراف مذکورہ بالا خبر کے مطابق وزیر اعلٰی سندھ نے بھی کیا ہے۔ مگر دینی مدارس پر محکموں اور اداروں کا دباؤ کسی طرح کم نہیں ہو رہا حتٰی کہ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ غیر رجسٹرڈ مدارس کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔، دوسری طرف رجسٹریشن کا کوئی باقاعدہ نظام محکمہ تعلیم اور وفاقوں کے درمیان معاملات طے ہو جانے کے باوجود سامنے نہیں آرہا۔ جبکہ اس کے ساتھ رجسٹریشن کے حوالہ سے مختلف اطراف سے نئے نئے سسٹم دکھائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کی بجائے ان کے الجھاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں اصل ایجنڈا کنفیوژن اور دباؤ کو برقرار رکھنے اور انہیں اعتماد و اطمینان کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنے کا موقع فراہم نہ کرنے کا ہے، جس سے بے یقینی بڑھ رہی ہے۔
ان حالات میں سندھ حکومت کا یہ فیصلہ بہرحال خوش آئند ہے کہ دینی مدارس کو تعلیمی اداروں کے طور پر رجسٹرڈ کیا جائے گا اور ان کی رجسٹریشن محکمہ تعلیم کرے گا۔ یہ ایک مثبت پیشرفت محسوس ہوتی ہے جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم متعلقہ محکموں اور اداروں کو ایک اور کنفیوژن کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتے ہیں جو رجسٹریشن یا الحاق کے عنوان سے دکھائی دے رہی ہے۔
جہاں تک رجسٹریشن اور اس کے ذریعہ دینی مدارس کے ضروری معاملات کی نگرانی اور انجام دہی کا تعلق ہے وہ تو قابل فہم ہے، لیکن رجسٹریشن کے عنوان سے الحاق کا ماحول پیدا کرنے کی بات دینی مدارس کے آزادانہ تعلیمی کردار اور ان کے جداگانہ تشخص و امتیاز کے منافی ہو گی، جسے قبول کرنا دینی مدارس کے اجتماعی ماحول کے لیے مشکل ہو گا۔ اس لیے دینی مدارس کے بارے میں جہاں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ وہ تعلیمی ادارے ہیں، وہاں یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں اور اپنا الگ تشخص اور جداگانہ نظام رکھتے ہیں، جس کا احترام کرنا ان کے تعلیمی کردار اور تاریخی تسلسل کا ناگزیر تقاضہ ہے۔
ہمیں امید ہے کہ دینی مدارس کے وفاقوں اور محکمہ تعلیم کے درمیان یہ معاملات جلد از جلد خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہوں گے اور دینی تعلیمی ادارے اپنے دینی و تعلیمی کردار کو اعتماد کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔