السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد الحمد والصلوٰۃ۔
آج جوہر آباد میں ختمِ نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم کی معیت میں جا رہے تھے، راستے میں مغرب کی نماز مرکز اہلِ سنت میں پڑھنے کا ارادہ ہوا، نماز پڑھی، حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کے ساتھ نشست ہوئی، چائے وائے پی، اور اب تھوڑی سی بات آپ حضرات کے ساتھ، مولانا نے فرمایا کہ ملاقات ہو جائے۔
ابلاغ کے ہر زمانے میں اپنے ذرائع رہے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے زمانے میں ابلاغ کے ذرائع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس زمانے میں شاعری، خطابت اور یہ منڈیاں اور میلے جو ہوتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو نظر انداز نہیں کیا، شاعری کو بھی استعمال کیا، حضورؐ کے بہت سے صحابہؓ اسلام کے دفاع میں اور توحید کی دعوت میں اور دیگر دینی مقاصد کے لیے شاعری اور خطابت کو استعمال کرتے رہے۔ اور موقع بھی انہوں نے کوئی ضائع نہیں کیا، جہاں بھی اجتماعیت کا کوئی مظہر دکھائی دیا ہے کسی حوالے سے، حضورؐ تشریف لے گئے ہیں، وہاں اپنی بات کی ہے، دعوت پہنچائی ہے۔
آج ابلاغ کے ذرائع بہت پھیل گئے ہیں اور یہ الیکٹرانک میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف شعبے، یہ آج بڑی اہمیت اور ذہن سازی میں کم و بیش فیصلہ کن حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کے ذریعے منظم قوتیں رائے بدلتی ہیں، رائے بنواتی ہیں، رائے پر ابھارتی ہیں، رائے کو دباتی ہیں۔ آج دنیا میں ہر سطح پر، عالمی سطح پر بھی، ملکوں کی سطح پر بھی، علاقائی سطح پر بھی، یہ الیکٹرانک میڈیا ہی رائے عامہ کی تشکیل، رائے عامہ کو تبدیل کرنا، منظم کرنا، اس میں اہم کردار اس الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں بھی اس الیکٹرانک میڈیا کو، اور جو ممکنہ اور جائز ذرائع ہیں ان کو استعمال کرنا چاہیے، لیکن ترجیحات کے حوالے سے میں دو تین باتیں گزارش کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ چونکہ اس کے ذریعے ہماری رسائی دنیا تک ہے، تو ہمیں اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے تو اسلام کی دعوت، قرآن پاک کا تعارف، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ، اور آج کے انسانی مسائل کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل، میرا خیال ہے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ جو دنیا کی آبادی ہے سات ساڑھے سات ارب انسانوں کی؛ ان تک دین، قرآن پاک، توحید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف، حضورؐ کی سنت، حضورؑ کی سیرت، ہماری یہی ذمہ داری ہے، اور کون کرے گا؟ ہم ڈیڑھ پونے دو ارب ہیں، اور باقی جو ساڑھے پانچ چھ ارب ہیں، ان تک بات پہنچانا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ ایک تو یہ پہلا درجہ ہے کہ مثبت انداز میں، آج کے اسلوب کو سامنے رکھتے ہوئے، اسلام کی دعوت، توحید، قرآن پاک کی قراءت و تلاوت، اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ طیبہ اور سیرتِ مبارکہ کا تعارف۔
اس کے بعد دوسرا بڑا میدان میرے نزدیک یہ ہے کہ مختلف حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات اسلام پر، اسلام کے قوانین پر، جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ پر، قرآن پاک کے احکام پر، آج کی لاجک کے حوالے سے جو اعتراضات ہو رہے ہیں، شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں، ان شکوک و شبہات کا ازالہ، ان کا جواب۔ پہلے میں نے دعوت کی بات کی ہے، اب دفاع کی بات کر رہا ہوں۔ دفاع کا پہلا درجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر مختلف حوالوں سے آج کے اسلوب میں جو اسلام، قرآن پاک، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ، شریعت کے احکام پر جو اعتراضات ہو رہے ہیں، ان کا ہم اسی زبان میں جواب دیں، جس کو لاجک کی زبان کہتے ہیں، منطق کی زبان کہتے ہیں۔
اور تیسرے نمبر پر ہماری نئی نسل جو ہے وہ اس وقت عالمگیر یلغار کی زد میں ہے، شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ میں گزارش کیا کرتا ہوں کہ آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ کیا ہے کہ شکوک پیدا کرنے والے، تشکیک پیدا کرنے والے، وہ تو بڑے منظم اور تیاری کے ساتھ کام کر رہے ہیں، لیکن دفاع کرنے والے اُس تیاری کے ساتھ کام نہیں کر رہے۔ ہماری وہ سٹڈی نہیں ہوتی اور اس کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک بات میں ہمیشہ علماء سے کہا کرتا ہوں کہ مسائل جو پیدا ہوتے ہیں، اگر اوریجنل لوگ اس کو فیس نہیں کریں گے، اس پر بات نہیں کریں گے، تو نان اوریجنل لوگ آئیں گے اور وہ اپنی بات کریں گے، پھر ہمیں شکایت پیدا ہوتی ہے اور ہم ساری زندگی دفاع میں گزار دیتے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس کو محسوس کرنا چاہیے، اوریجنل لوگوں کو آنا چاہیے، جو جدید مسائل ہیں، جو شکوک و شبہات ہیں یا اعتراضات ہیں، نئی نسل کے ذہنوں میں جو باتیں پیدا کی جا رہی ہیں، پلاننگ کے ساتھ کی جا رہی ہیں، ان کے اسباب کو سمجھنا، ان کے لیول کو اور اسلوب کو سمجھنا، اور اس کے مطابق نئی نسل کو مطمئن کرنا، یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں اس پہ توجہ دینی چاہیے۔ یہ تو میں نے عمومی بات کی ہے۔
پھر اس کے بعد یہ بھی ہماری دینی ضروریات میں سے ہے کہ ہمارے جو مسلکی اور مذہبی تقاضے ہیں، مثلاً ہم حنفی ہیں، اہلِ سنت والجماعت ہیں، دیوبندی ہیں، اس میں اپنی صحیح تصویر پیش کرنا، صحیح مسلک کو اچھے انداز میں پیش کرنا، اور شکوک و شبہات کے دائروں کو توڑنا، جواب دینا، یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، لیکن ساری ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے ہمیں اس کی سٹڈی بھی کرنی چاہیے۔
آخری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم عام طور پر مطالعہ اور سٹڈی (کی بجائے) سنی سنائی باتوں پر، سطحی باتوں پر جاتے ہیں، اس کا اصل صحیح نہیں ہوتا، یہاں کا ماحول تو مجھے معلوم ہے، الحمد للہ مختلف ہے۔ میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ زمانہ وہ ہے کہ جس طرح فاسٹ فوڈ سے گزارا ہو رہا ہے نا، فاسٹ انفرمیشن بھی آ گئی ہے ہمارے ہاں، کہ فاسٹ انفرمیشن کے ذریعے ہم سارے مسئلے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ہمارے اکابر کا اور ہمارے بزرگوں کا معمول ہے نا (وہ ہے) اوریجنل سٹڈی۔
میں میڈیا کے محاذ پر کام کرنے والے اپنے اہلِ دانش سے یہ کہوں گا کہ اوریجنل سٹڈی کا ماحول پیدا کریں۔ اصل مآخذ، اصل حقائق، معروضی صورتحال، اسباب تک رسائی، حل کے تجزیے میں صحیح رخ اختیار کرنا، آج کل اس کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اگر صحیح طریقے سے اس میڈیا کو اسلام کی دعوت کے لیے، دفاع کے لیے، اور نئی نسل کے ایمان اور فکر کو بچانے کے لیے صحیح طور پر اور پلاننگ کے ساتھ استعمال کریں، تو ایسا نہیں ہے کہ بالکل شکست خوردہ ہوں، الحمد للہ ہم بہت کام کر سکتے ہیں اور ہو بھی رہا ہے۔ لیکن اگر کام کو تھوڑا سا منظم کر لیا جائے اور تھوڑا سا سلیقے سے کیا جائے تو الحمد للہ اس کام کی ضرورت بھی ہے، افادیت بھی ہے، اللہ کے ہاں اجر و ثواب بھی ہے، ان شاء اللہ العزیز۔ نیک نیتی کے ساتھ، صحیح اسلوب سے، اپنے بزرگوں کے افکار کو پھیلانا اور اسلام کی دعوت کو پہنچانا ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ اللہ پاک ترقیات نصیب فرمائیں، برکات نصیب فرمائیں، قبولیت عطا فرمائیں اور رضا نصیب فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔