(مدرسہ نصرت العلوم کے شیخ الحدیث والتفسیر مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ۱۹ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو جامعۃ العلم والہدیٰ، بلیک برن، برطانیہ میں بخاری شریف کے اختتام کی تقریب سے خطاب۔ ادارہ نصرۃ العلوم)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ابھی آپ کے سامنے دورۂ حدیث کے ایک طالب علم نے بخاری شریف کا آخری باب اور حدیث پڑھی ہے۔ میں سب سے پہلے بخاری شریف مکمل کرنے والے طلبہ اور ان کے اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بخاری شریف پڑھنے اور تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس حدیث کے پڑھنے کے ساتھ ہی آپ حضرات رسمی طور پر علماء کرام کی صف میں شامل ہو جائیں گے اور عالم کہلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو علم اور اس کے ساتھ عمل کی دولت سے بھی مالامال فرمائیں۔
اس وقت علماء کرام، طلبہ اور ان کے ساتھ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی شریکِ مجلس ہے۔ اس لیے پہلے تو طلبہ کے لیے ایک باب اور حدیث کی مناسبت سے کچھ گزارشات پیش کروں گا، اور اس کے بعد مدارسِ دینیہ کے خلاف اس وقت عالمی سطح پر جاری مہم کے حوالہ سے ان مدارس کی اہمیت اور کردار کی بابت کچھ معروضات آپ کے سامنے رکھوں گا۔ دعا کریں کہ اللہ رب العزت کچھ مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق دیں اور دینِ حق کی جو بات علم اور سمجھ میں آئے اس پر عمل کی توفیق سے بھی نوازیں۔
بخاری شریف کے اس آخری باب اور حدیث کے بارے میں کچھ طالب علمانہ سوالات عام طور پر ہوتے ہیں، ان میں دو کا تذکرہ کروں گا اور پھر حدیث کے بارے میں مختصرًا بات ہو گی۔
(۱) ایک سوال تو یہ ہے کہ یہ حدیث امام بخاریؒ نے ’’کتاب التوحید‘‘ کے تحت درج کی ہے جو بخاری شریف کا آخری باب ہے۔ اور اس کے عنوان کو دو طریقہ سے پڑھا گیا ہے: ’’کتاب التوحید والرد علی الجہمیۃ وغیرہم‘‘ اور ’’کتاب الرد علی الجہمیہ وغیرہم التوحید‘‘۔ یعنی توحید اور جہمیہ وغیرہ پر رد کی کتاب، یا جہمیہ وغیرہ کی توحید کے رد میں کتاب۔ توحید کا تعلق عقائد اور ایمانیات سے ہے اور امام بخاریؒ کتاب کے آغاز میں ایمانیات کی بحث ایک مستقل باب کی صورت میں کر چکے ہیں۔ تو اب آخر میں پھر توحید کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے؟ اس کے جواب میں دو باتیں عرض کروں گا۔
ایک یہ کہ امام بخاریؒ اپنی عظیم کتاب کا آغاز اور اختتام دونوں عقائد اور توحید کے ساتھ کر کے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں اصل چیز عقیدہ ہے اور اول و آخر ایمانیات ہیں۔ عقیدہ اگر درست ہے اور ایمانیات کا معاملہ صحیح ہے تو سب کچھ صحیح ہے۔ اور اگر ایمان و عقیدہ ہی درست نہیں ہے تو کچھ بھی صحیح نہیں ہے۔ اور عقائد کی بنیاد چونکہ توحید پر ہے اس لیے توحید کا ذکر آخر میں دوبارہ کر دیا۔
دوسری بات یہ کہ بخاری شریف کے آغاز میں امام بخاریؒ نے ایمانیات کا ذکر کیا ہے لیکن آخر میں ایمان و عقیدہ کی تعبیرات کا ذکر فرماتے ہیں، اور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس طرح عقیدہ و ایمان کا مدار وحئ الٰہی پر ہے، اسی طرح عقائد کی تعبیرات کا مدار بھی وحئ الٰہی پر ہے، اور وحئ الٰہی سے ہٹ کر محض عقل کی بنیاد پر عقائد کی تعبیرات و تشریحات کا رجحان درست طرز عمل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ امام بخاریؒ نے عقل کی بنیاد پر عقائد کی تعبیر و تشریح کرنے والے فرقوں کے رد کو بھی عنوان میں شامل کیا ہے، جن میں جہمیہ سرفہرست ہیں اور ان کے ساتھ معتزلہ اور بعض دوسرے فرقے بھی ہیں۔
جہمیہ جہم بن صفوان کے پیروکاروں کو کہتے ہیں جس نے اپنی عقل و فہم کے حوالہ سے عقائد کی من مانی تعبیرات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ اس کے غلط عقائد بہت سے منقول ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ کہتا تھا کہ ’’لا اصفہ بوصف لا یطلق علی غیرہ‘‘۔ میں اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسی صفت بیان نہیں کروں گا جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور پر بھی ہو سکے۔ مثلاً یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ سنتے ہیں، اس کے نزدیک درست نہیں ہے، کیونکہ ہم بھی سنتے ہیں اور سننے کا وصف مخلوقات پر بھی بولا جاتا ہے۔ جہم بن صفوان کا کہنا تھا کہ اس سے شرک لازم آتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا بولنا اور دوسری صفات جن کا اطلاق مخلوقات پر بھی کیا جاتا تھا، وہ ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے بیان نہیں کرتا تھا، صرف اس وجہ سے کہ اس سے اس کے نزدیک شرک لازم آتا ہے۔
حالانکہ اس نے صرف ظاہر پر نظر کی ہے اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ اللہ تعالیٰ کے دیکھنے سننے اور بولنے اور ہمارے سننے دیکھنے اور بولنے میں بہت بڑا فرق ہے، دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ ہمارا دیکھنا سننا بولنا اسباب کے تحت ہے، عارضی ہے اور محدود ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا بولنا سننا دیکھنا اسباب سے ماورا ہے، ازلی ہے، لا متناہی ہے اور ذاتی ہے۔ مگر ظاہری مشابہت کی وجہ سے اس نے یہ حکم لگا دیا کہ ان صفات کو اللہ تعالیٰ کے لیے بیان کرنے سے شرک لازم آتا ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ نے اس آخری کتاب میں زیادہ تر احادیث وہ بیان کی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہے اور قرآن کریم اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے سننے بولنے دیکھنے اور اس قسم کی دیگر صفات کا صراحت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے۔
اور اس طرح امام بخاریؒ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ عقائد کے ثبوت کی طرح ان کے تعبیر و تشریح میں بھی قرآن کریم اور ارشاداتِ نبویہ ہی کی طرف رجوع کیا جائے۔ عقل ان باتوں کو سمجھنے کے لیے معاون اور مددگار ضرور ہے، اس کی حیثیت سے انکار نہیں، لیکن عقائد اور ان کی تعبیرات کا مدار عقل پر نہیں ہے۔ گویا عقل بات کو سمجھنے کے لیے ہے، اس کا فیصلہ کرنے کے لیے نہیں ہے۔ ان معاملات میں فیصلہ اسی بات پر ہو گا جو قرآن کریم نے فرمائی ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے۔ اس سے ہٹ کر نہ کوئی عقیدہ قابلِ قبول ہو گا اور نہ ہی کسی عقیدہ کی تعبیر و تشریح کو تسلیم کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہ توحید کا جو مفہوم میری سمجھ میں آئے میں اس پر اڑ جاؤں، اور جو مفہوم آپ سمجھیں آپ اس پر اصرار شروع کر دیں، بلکہ اس سلسلہ میں جو قرآن و سنت میں ہے وہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے، توحید اور دوسرے عقائد کی تعبیر و تشریح اسی کے مطابق ہو گی۔
(۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ آخری حدیث امام بخاریؒ کو بار بار ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کے جواب میں عرض کرنا چاہوں گا کہ امام بخاریؒ صرف محدث نہیں، فقیہ اور مجتہد بھی ہیں۔ ان کا شمار امت کے اعلیٰ درجہ کے مجتہدین میں ہوتا ہے۔ اور اگرچہ ان کی فقہ کی امت میں تقلید نہیں کی گئی لیکن امام بخاریؒ بہرحال مجتہد مطلق ہیں، اسی طرح جیسے حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ مجتہد مطلق کے درجہ پر فائز ہیں۔ امام بخاریؒ کا شمار بھی اسی صف میں ہوتا ہے۔ چنانچہ امام بخاریؒ صرف حدیث بیان نہیں کرتے، اس میں سے مسئلہ کا استنباط بھی کرتے ہیں اور اسی کے مطابق حدیث کا عنوان قائم کرتے ہیں۔
علمائے حدیث جانتے ہیں کہ بخاری شریف کے پڑھنے پڑھانے میں سب سے زیادہ اہمیت اسی بات کو دی جاتی ہے کہ امام بخاریؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کی مناسبت اس کے تحت درج کی جانے والی حدیث کے ساتھ کیا ہے۔ اس کو تراجم و ابواب کہتے ہیں اور اس پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ یہی کام امام بخاریؒ کا اجتہاد اور استنباط و استخراج ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات باب اور اس کے تحت درج حدیث میں اتنی دور کی مناسبت ہوتی ہے کہ اسے معلوم کرنے کے لیے بہت زیادہ دقتِ نظر سے کام لینا پڑتا ہے۔
اس پس منظر میں بخاری شریف کی آخری حدیث پر نظر ڈالیں اور یہ بھی دیکھیں کہ اس سے قبل امام بخاریؒ اس حدیث کو دو جگہ بیان کر چکے ہیں، تو یہ نظر آتا ہے کہ امام بخاریؒ نے تینوں جگہ اس حدیث سے الگ الگ مسئلہ مستنبط کیا ہے اور ہر جگہ اس کی مناسبت سے حدیث کا تذکرہ فرمایا ہے۔ مثلاً ’’کتاب الدعوات‘‘ میں باب فضل التسبیح کے تحت یہ حدیث مذکور ہوئی ہے اور امام بخاریؒ نے حدیث کے لفظ سبحان سے استدلال کرتے ہوئے وہاں یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے اور اس کا بڑا اجر و ثواب ہے۔ سبحان کا معنی پاک ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس لفظ کا ذکر کر کے ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔
یہ حدیث ’’کتاب الایمان‘‘ میں بھی مذکور ہوئی ہے جہاں امام بخاریؒ یہ مسئلہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حلف اٹھا لے کہ وہ کسی سے کلام نہیں کرے گا اور اس کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرے، یا ذکر اذکار کرے، یا تسبیح کا کوئی جملہ زبان سے ادا کرے، تو کیا اس سے اس کی قسم تو ٹوٹ نہیں جائے گی؟ اور کیا تلاوت اور ذکر پر کلام کا اطلاق ہوتا ہے؟
اس مسئلہ میں احناف کا موقف تو صاحبِ شرح وقایہ کی تشریح کے مطابق یہ ہے کہ اگر کسی نے کلام نہ کرنے کی قسم اٹھا لی ہے تو قرآن کریم پڑھنے یا ذکر اذکار کرنے سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی اور اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ عرفاً اور شرعاً ان چیزوں پر کلام کا اطلاق نہیں ہوتا۔ عرفاً اس لیے کہ عرف عام میں کلام آپ کی گفتگو کو کہا جاتا ہے۔ اور شرعاً اس لیے کہ نماز میں کلام کی ممانعت ہے لیکن قرآن کریم اور تسبیح و ذکر کی اجازت ہے۔ امام شافعیؒ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ اس سے حلف ٹوٹ جائے گا اور ایسا کرنے والے کو کفارہ دینا پڑے گا۔ امام بخاریؒ نے کتاب الایمان میں یہ روایت اسی مسئلہ کی وضاحت کے لیے ذکر کی ہے اور حدیث کے لفظ ’’کلمتان‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ تسبیح و ذکر پر بھی کلام کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن مذکورہ مسئلہ میں حکم انہوں نے تیسرا لگایا ہے جو پہلے دونوں سے مختلف ہے۔ انہوں نے درمیان کی راہ اختیار کی ہے اور فرمایا ہے کہ ’’فہو علی نیتہ‘‘ کہ اس کا مدار تلاوت اور ذکر کرنے والے کی نیت پر ہے۔ اگر اس کی نیت یہ ہے کہ وہ کلام کر رہا ہے تو حانث ہو گا۔ اور اگر کلام کی نیت نہیں ہے تو تلاوت کلام پاک اور ذکر و تسبیح سے حانث نہیں ہو گا۔
اور اب آخر میں امام بخاریؒ نے اس حدیث کو تیسرے مسئلہ کے حوالے سے ذکر فرمایا ہے۔ وہ یہ کہ جہمیہ، معتزلہ اور بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن نہیں ہو گا۔ اس کے جواب میں امام بخاریؒ نے اپنے اسلوب اور طریقہ کے مطابق پہلے قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیا کہ ’’ونضع الموازین القسط‘‘ ہم قیامت کے دن انصاف کے لیے ترازو قائم کریں گے۔ اور اس کے بعد یہ حدیث بیان کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے دو جملے ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ قیامت کے دن میزان پر وزنی ثابت ہوں گے۔ یہاں امام بخاریؒ نے میزان کے لفظ سے استدلال کیا ہے کہ وزن ہو گا اور اس کے لیے ترازو قائم کیے جائیں گے۔ معتزلہ اور ان کے ساتھی ’’وزنِ اعمال‘‘ کے انکار میں عام طور پر دو باتیں کہتے تھے:
(۱) ایک یہ کہ وزن کی ضرورت اسے پیش آتی ہے جسے معلوم نہ ہو، اللہ تعالیٰ کو تو سب کچھ معلوم ہے۔ اس لیے اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کا وزن کریں گے تو اس سے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی جہالت لازم آتی ہے۔
اس کے جواب میں علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ ہر چیز کا وزن خود معلوم کرنے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ ایک استاذ اپنے کسی شاگرد کو لوگوں کے سامنے کھڑا کر کے اس سے سوالات کرتا ہے، حالانکہ استاد کو خود تو اپنے اس شاگرد کی حیثیت معلوم ہوتی ہے لیکن وہ لوگوں پر اس کی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے اس سے سوال و جواب کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کے اعمال کا وزن کریں گے، اس کا مقصد خود معلوم کرنا نہیں ہو گا بلکہ ایک تو خود اس شخص پر اتمامِ حجت کرنا ہو گی کہ تمہیں تمہارے ان جرائم کی سزا دی جا رہی ہے جو تمہارے سامنے ترازو پر تولے گئے۔ اور دوسرا لوگوں پر بھی یہ واضح کرنا مقصود ہو گا کہ جس شخص کو جہنم میں بھیجا جا رہا ہے اس کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی بلکہ یہ اس کے اعمال کی پوزیشن ہے جس کی وجہ سے اس کے لیے جہنم کا معاملہ کیا گیا ہے۔
(۲) معتزلہ وغیرہ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ اعمال کا تعلق اعراض سے ہے، جن کا اپنا کوئی وجود اور حجم نہیں ہوتا، اس لیے ان کو کیسے تولا جا سکتا ہے؟ کیونکہ وزن جواہر کا ہوتا ہے اعتراض کا نہیں۔ اس کے جواب میں عرض ہے، یہ سوال اور اشکال اُس دور میں تو قابلِ توجہ تھا جب اعراض کا وزن کرنا واقعی ممکن نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب اس قسم کے سوالات کا کوئی محل نہیں ہے، اس لیے کہ اب اعراض تولے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی آلات سے انسانی جسم کے بخار کو تولا جاتا ہے، موسم میں حرارت اور برودت کا وزن کیا جاتا ہے، اور دیگر بہت سے اعراض اور کیفیات کو وزن کے دائرہ میں لایا جاتا ہے، اس لیے اس سوال کی سرے سے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی۔
ان دو سوالات کی وضاحت کے بعد اب ہم باب اور حدیث کی مختصر وضاحت کی طرف آتے ہیں۔ باب اور عنوان میں امام بخاریؒ نے قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم انصاف کے لیے ترازو قائم کریں گے۔ آیت کریمہ میں انصاف کے لیے قسط کا لفظ بولا گیا ہے، اس کی وضاحت میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ قسطاس کا لفظ بھی قرآن کریم میں آیا ہے جو رومی زبان میں عدل کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم نے یہ لفظ رومی زبان سے مستعار لیا ہے، کیونکہ قرآن کریم عربی مبین میں ہے اور عربی کا دامن اتنا تنگ نہیں ہے کہ اسے دوسری زبانوں سے لفظ مستعار لینا پڑیں۔ البتہ بعض الفاظ مترادف ہوتے ہیں جو مختلف زبانوں میں مشترک طور پر استعمال ہوتے ہیں، قسطاس بھی ایسے ہی الفاظ میں سے ہے۔
اس کے بعد امام بخاریؒ نے ایک اور اشکال کی طرف اشارہ کر کے اس کا جواب دیا ہے کہ قرآن کریم میں قسط کا لفظ دو متضاد معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ قاسطون آیا ہے جو مجرد کا اسمِ فاعل ہے۔ اس کا معنی ہے ’’ظالم لوگ‘‘۔ اور دوسری جگہ مقسطین ہے جو بابِ افعال کا اسم فاعل ہے اور اس کا معنی ہے ’’عادل لوگ‘‘۔ اب عادل اور ظالم دونوں کے لیے قرآن کریم میں قسط کا مادہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قسط کا اصل معنی تو ظلم ہی ہے لیکن جب اس کو باب افعال پر لے جائیں تو باب افعال کے خواص میں سے ایک خاصہ سلبِ معنی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں روزہ کے حوالہ سے ’’وعلی الذین یطیقونہ‘‘ کا معنی مفسرین کرام اسی اصول کے تحت یہ کرتے ہیں کہ جو لوگ روزے کی طاقت نہیں رکھتے ان پر فدیہ لازم ہے۔
یا جس طرح ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ’’افاقہ‘‘ بولا جاتا ہے، ہم کسی بیمار سے حال پوچھتے ہیں تو سوال کرتے ہیں کہ کچھ افاقہ ہوا؟ اب اس افاقہ کا مادہ ’’فوق‘‘ سے ہے جس کا معنی اوپر کی طرف جانا ہے۔ تو اگر افاقہ کو اسی معنی میں لیا جائے تو پھر ہمارے سوال کا مطلب یہ بنے گا کہ کیا بیماری کچھ بڑھی ہے؟ اس کے جواب میں بیمار یہ کہتا ہے کہ بحمد اللہ افاقہ ہوا ہے۔ تو یہ مسئلہ بہت خراب ہو جائے گا۔ یہاں بھی بات یہ ہے کہ باب افعال پر جا کر ’’افاقہ‘‘ میں سے فوق کا معنی سلب ہو گیا ہے اور اس کی ضد آ گئی ہے۔ اس لیے افاقے کا معنی بیماری کا بڑھنا نہیں بلکہ کم ہونا ہے۔ اسی طرح قاسط کا معنی ظالم ہے لیکن یہی لفظ جب باب افعال میں جا کر مقسط ہو گا تو اس کا معنی عادل ہو جائے گا۔
حدیث کے عنوان کے بارے میں مختصراً گزارشات کے بعد اب حدیث کی طرف آتے ہیں۔ آپ کے استاد محترم حضرت شیخ الحدیث صاحب نے آپ کو اپنی سند بتائی ہو گی۔ حدیث کی بنیاد سند پر ہوتی ہے اور سند کے تین درجے ہوتے ہیں۔ ایک درجہ ہم سے امام ولی اللہ دہلویؒ تک، دوسرا ان سے امام بخاریؒ تک جو معروف کتاب میں موجود ہے۔ اور تیسرا درجہ امام بخاریؒ سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جو ہر حدیث کے ساتھ مستقل طور پر مذکور ہے۔ چونکہ میں آپ کے سامنے آخری حدیث کے بارے میں کچھ عرض کر رہا ہوں تو اصولاً مجھے بھی اپنی سند بیان کرنی چاہیے۔
میری مختلف اسناد ہیں، ان میں قرأۃ و سماع اور باقاعدہ تعلیم و تعلم کی سند تو حضرت والد محترم مولانا سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کی وساطت سے ہے۔ میں نے بخاری شریف ان سے پڑھی ہے، انہوں نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے، انہوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے، انہوں نے حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے، انہوں نے حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ سے، انہوں نے حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ سے، انہوں نے حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ سے اور انہوں نے حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ سے بخاری شریف پڑھی ہے۔
لیکن ایک اور سند کا اس موقع پر تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے مکہ مکرمہ کے معروف محدث اور مسند حضرت الشیخ ابو الفیض محمد یاسین الفادانی الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے بھی روایتِ حدیث کی اجازت حاصل ہے۔ میں نے ان کی خدمت میں حاضری دی تھی، انہوں نے چند مسلسلات سنائیں اور روایتِ حدیث کی تحریری اجازت مرحمت فرمائی۔ انہیں اپنے وقت کے دیگر بہت سے محدثین کرامؒ کے علاوہ ایک عظیم محدثہ حضرت الشیخۃ امۃ اللہ محدثہ دہلویہؒ سے بھی اجازت حاصل ہے۔ یہ حضرت شاہ عبد الغنی دہلویؒ کی بیٹی ہیں اور ان کی علمی جانشین تھیں جنہوں نے سو برس سے زیادہ عمر پائی ہے اور حجاز مقدس میں پون صدی تک حدیث اور دیگر دینی علوم کی تعلیم دی ہے۔ انہیں اپنے والد محترم حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ سے اجازت حاصل ہے، اور حضرت شاہ عبد الغنی دہلویؒ اپنے عظیم شیخ حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ کے شاگرد اور جانشین ہیں۔ اور اس طرح بحمد اللہ تعالیٰ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ تک میری حدیث کی سند اور بھی قریب ہو جاتی ہے۔ آپ حضرات کے سامنے میں نے اس سند کا تذکرہ تحدیثِ نعمت کے طور پر کیا ہے اور دورۂ حدیث کے طلبہ میں سے جو حضرات حدیثِ نبویؐ کے پڑھنے پڑھانے کا شوق رکھتے ہیں انہیں اس سند کی اجازت بھی دیتا ہوں۔
اس سند کے ساتھ بخاری شریفؒ کی یہ آخری حدیث ہم پڑھ رہے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں، زبان پر ہلکے پھلکے ہیں مگر میزان پر بہت وزنی ثابت ہوں گے ’’سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘۔ اب وقت اتنا زیادہ نہیں رہا کہ اس حدیث کی تشریح میں کچھ عرض کیا جائے، اس لیے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے دورۂ حدیث سے فارغ التحصیل ہونے والے عزیز طلبہ سے بطور نصیحت دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
(۱) ایک یہ کہ واقعی آپ حضرات مبارکباد کے مستحق ہیں کہ طالب علمی کے رسمی دور سے فارغ ہو کر آپ علماء کی صف میں شامل ہو رہے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ ابھی عالم نہیں بنے بلکہ عالم بننے کی صلاحیت اور استعداد سے بہرہ ور ہو گئے ہیں۔ یہ استعداد ہے جو اِس وقت تک آپ نے حاصل کی ہے، علم کا اصل میدان آگے ہے۔ اگر آپ اس استعداد کو کام میں لائیں گے، مطالعہ اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو علم کے ساتھ آپ کا تعلق قائم رہے گا اور اس سے فائدہ بھی ملتا رہے گا۔ اور اگر اسی بات میں مگن رہے کہ ہم تو عالم ہو گئے ہیں، سند ہمارے پاس ہے اور دستار بھی ہمیں مل گئی ہے تو اس پڑھنے پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور علم کے ساتھ آپ کی مناسبت باقی نہیں رہے گی۔
اس حوالہ سے میں آپ حضرات کی خدمت میں حضرت امام ابو یوسفؒ کا یہ ارشاد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ تو ایک معمولی نوجوان کی حیثیت سے حضرت امام ابوحنیفہؒ کی مجلس میں آئے تھے، آج اتنا بڑا علمی مقام آپ نے حاصل کر لیا ہے تو اس کی بڑی وجہ کیا ہے؟ حضرت امام ابو یوسفؒ نے فرمایا کہ علم کے حصول کے لیے میرا طریقہ یہ رہا ہے کہ ’’ما استنکرت من الاستفادۃ و ما بخلت بالافادہ‘‘ میں نے علم حاصل کرنے میں کبھی اپنی بڑائی کا خیال نہیں کیا، اور علمی فائدہ پہنچانے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔
آج کی زبان میں حضرت امام ابو یوسفؒ کے اس ارشاد کا یہ ترجمہ کرتا ہوں کہ پڑھنے پڑھانے اور علم کے حصول اور اسے پھیلانے میں میرا کوئی پروٹوکول نہیں ہے، جہاں سے مجھے علم کی کوئی بات ملتی ہے اسے لے لیتا ہوں، اور جو بھی مجھ سے علم کا طلبگار ہوتا ہے اسے انکار نہیں کرتا۔ آپ حضرات بھی اس ارشاد کو سامنے رکھیں اور علم کے ساتھ تعلق قائم رکھتے ہوئے اس پر عمل کو اپنا شعار بنائیں۔
(۲) اور دوسری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنی عقل اور فہم پر کبھی اس درجہ میں بھروسہ نہ کریں کہ اپنے اسلاف سے ہی کٹ جائیں۔ دین کے بارے میں قرآن کریم اور سنتِ رسولؐ کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ سب سے بڑا معیار ہیں، ان کی تعلیمات و ارشادات کے دائرہ میں رہیں اور ان میں سے کسی دائرے بھی باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں ورنہ گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
بخاری شریف کے آخری باب اور آخری حدیث کے بارے میں چند طالب علمانہ گزارشات کے بعد اب میں مجلس میں شریک دوسرے دوستوں سے بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہم اس وقت ایک دینی درسگاہ کی تقریب میں بیٹھے ہیں اور یہ دینی مدارس آج نئی دنیا کے اعتراضات اور تنقید کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ ان مدارس کو مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے اور ان کے کردار کو ختم کرنے کے پروگرام بن رہے ہیں۔ اس لیے میں آپ حضرات کی وساطت سے ان لوگوں سے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جو ان مدارس کی مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں، اور خاص طور پر مغرب کے اہلِ دانش جنہوں نے ان مدارس کی مخالفت کو اپنے مستقل پروگرام کا حصہ بنا رکھا ہے۔
(۱) ان سے پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ان مدارس کو ختم کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ تم اس سے قبل دینی تعلیم کو ختم کرنے کے لیے تین بار تجربہ کر چکے ہو لیکن تینوں بار تمہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تم نے جنوبی ایشیا میں ۱۸۵۷ء کے بعد ان مدارس کو بند کیا، جائیدادیں ضبط کر لیں، بلڈنگیں قبضہ کر لیں یا مسمار کر دیں، ہزاروں علماء کو گرفتار کیا، ہزاروں کو شہید کر دیا، اور اپنے خیال میں تم نے دینی تعلیم کے پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ لیکن آج نتیجہ دیکھ لو کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں دینی مدارس اور ان میں پڑھنے پڑھانے والوں کی تعداد کیا ہے اور تمہارے تجربے کا حشر کیا ہوا ہے؟
تم نے ترکی میں خلافت کے خاتمہ کے بعد دینی تعلیم کا پورا نظام تہہ و بالا کر دیا۔ مدارس و مساجد بند کر دیے۔ عربی زبان خلافِ قانون قرار دے دی۔ عربی زبان میں اذان اور نماز تک کی ممانعت کر دی۔ اسلامی شعائر پر اس حد تک قدغن عائد کی کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ کو اس وجہ سے پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم ہونا پڑا کہ وہ ننگے سر پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ تم نے ترکی میں اسلامی تعلیم اور اسلامی اقدار و روایات کو مٹانے کے لیے قانون و دستور کا ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن پون صدی کے اس مسلسل عمل کے بعد دیکھ لو کہ تمہیں کتنی کامیابی ہوئی ہے؟ اگر آج ترکی میں عوام کو فوج کے جبر سے آزاد کر کے ایک آزادانہ الیکشن کرا دیا جائے تو تمہیں اپنے تجربہ کا نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔
تم نے وسطی ایشیا میں دینی تعلیم کو ختم کرنے اور دینی اقدار و شعائر کے ساتھ عام مسلمانوں کا رشتہ کاٹنے کے لیے جبر و تشدد کا ہر حربہ آزمایا۔ مساجد بند کر دیں، مدارس پر تالے لگا دیے، قرآن کریم اور دینی کتابوں کی اشاعت ممنوع قرار دے دی، اور ستر سال تک جبر و تشدد کی فضا وہاں مسلط رکھی۔ لیکن آج جبر کی چادر ہٹنے کے بعد دیکھ لو کہ دینی تعلیم اب بھی وہاں موجود ہے، اور اس دوران خفیہ تہہ خانوں میں مسلسل یہ تعلیم جاری رہی ہے۔
اس لیے یہ بات نوٹ کر لو کہ دینی تعلیم کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ تمہارے پہلے تجربے بھی ناکام ہوئے ہیں اور اس نئے تجربے سے بھی تمہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
(۲) دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ مدارس صرف مسلمانوں کی ضرورت نہیں بلکہ پوری نسلِ انسانی کی ضرورت ہیں، اور خود تمہاری ضرورت بھی ہیں۔ اس لیے کہ تم نے وحئ الٰہی سے بغاوت کر کے محض عقل کی بنیاد پر جس نظام اور کلچر کی بنیاد رکھی تھی وہ ناکام ہو گیا ہے۔ اور خود تمہارے دانشور اس تجربہ کو ناکام قرار دے کر واپسی کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر ’’بیک ٹو بیسکس‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور شہزادہ چارلس ’’وجدان کی طرف واپسی‘‘ کی ترغیبات دے رہے ہیں۔ اس لیے یہ سوچ لو کہ کل کسی وقت تمہیں ’’وجدان‘‘ اور ’’بیسکس‘‘ کی طرف واپسی کا فیصلہ کرنا پڑ گیا تو یہ دونوں چیزیں آخر کہاں سے ملیں گی؟
وحئ الٰہی اور آسمانی تعلیمات تو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم کے پاس محفوظ حالت میں موجود نہیں ہیں۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کے ذخیرے کو اصل اور محفوظ حالت میں سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ اور تمہیں جب بھی ضرورت محسوس ہوئی یہ سودا تمہیں صرف اور صرف اسی دکان سے ملے گا۔ اس لیے جو مدارس قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے ہیں، پوری نسلِ انسانی کے لیے وحئ الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی حفاظت کر رہے ہیں، جن کی نسلِ انسانی کو مستقبل میں کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کی ضرورت بہرحال اقوامِ عالم کو پڑے گی کیونکہ اس کے سوا دنیا کے پاس نجات کا اور کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔
ان گزارشات کے ساتھ میں گفتگو کا سلسلہ سمیٹتا ہوں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت کے ساتھ سچی وابستگی نصیب فرمائیں اور ان مدارس و مراکز کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔