مولانا عبد الحلیم کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور وہ ایسٹ لندن میں ویسٹ ہیم کے مقام پر بننے والے تبلیغی جماعت کے نئے مرکز کے امام ہیں۔ انہوں نے شادی پاکستان سے کی ہے اور اتفاق سے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں میں گلیانہ نامہ قصبہ میری طرح ان کا بھی سسرالی گاؤں ہے۔ سفید رنگ کا لمبا عربی کرتہ پہنتے ہیں اور اس پر سفید عمامہ باندھتے ہیں، رنگ پختہ ہے اور داڑھی سیاہ ہے اس لیے دور سے ان پر اسامہ بن لادن یا ان کے بھائی ہونے کا اشتباہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو انہوں نے ۱۱ ستمبر کے نیویارک اور واشنگٹن کے سانحات کے بعد ان کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات بیان کیے جن کا تذکرہ قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
ایک واقعہ تو مختصر سا ہے کہ وہ گیارہ ستمبر سے دو چار روز بعد لندن میں کسی جگہ جا رہے تھے، ایک مقام پر گاڑی روک کر باہر نکلے تو ایک نوجوان لڑکی نے انہیں دیکھ کر شروع مچانا شروع کر دیا کہ اسامہ بن لادن، اسامہ بن لادن۔ اردگرد کے لوگ متوجہ ہوئے اور مولانا عبد الحلیم خود بھی شور سن کر اس لڑکی کی سمت بڑھے تاکہ اس سے دریافت کریں کہ کیا بات ہے۔ مگر لڑکی انہیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر چیختی چلاتی ہوئی ایک طرف کو بھاگ گئی جبکہ اردگرد سے جمع ہونے والے حضرات مسکراتے ہوئے اپنی اپنی راہ چل دیے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ انہی دنوں ایک روز وہ صبح کی نماز کے لیے مسجد کی طرف جا رہے تھے کہ راستہ میں چیکنگ کرنے والے سرکاری عملہ نے ان کی گاڑی کو روکا اور دریافت کیا کہ وہ کدھر جا رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مائل اینڈ سے آیا ہوں اور ویسٹ ہیم کی مسجد میں نماز کے لیے جا رہا ہوں۔ پوچھا کہ آپ کے علاقہ میں کوئی مسجد نہیں ہے؟ جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ اس پر چیکنگ کرنے والے عملہ نے بتایا کہ جس علاقہ سے آپ آرہے ہیں وہاں تین چار مسجدیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ویسٹ ہیم کی مسجد میں نماز پڑھا کرتا ہوں۔ عملہ نے پوچھا کہ اگر ہم آپ کو واپس بھیج دیں تو آپ کیا کریں گے؟ جواب دیا کہ میں واپس نہیں جانا چاہوں گا اس لیے کہ سورج نکلنے کا وقت قریب ہے، واپس جاتے جاتے میری نماز قضا ہو جائے گی۔ عملہ نے پوچھا کہ اگر آپ کو ہم یہیں روکے رکھیں تو پھر کیا ہوگا؟ جواب دیا کہ میرے پاس رومال موجود ہے، یہیں روڈ پر بچھا کر نماز پڑھ لوں گا۔ اس سوال و جواب کے بعد ان کی گاڑی کی ڈگی کھلوائی گئی جہاں ایک فٹ بال پڑا ہوا تھا۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ بتایا کہ فٹ بال ہے۔ سوال کرنے والے افسر نے مولانا کو سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا اور پوچھا کہ آپ فٹ بال بھی کھیلتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں کھیلتا ہوں۔ چیکنگ آفیسر نے فٹ بال کو خود ہاتھ لگانے کی بجائے قریب کھڑے پولیس اہل کار کو بلایا اور کہا کہ اسے چیک کریں۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے فٹ بال کو حرکت دی، پھر تسلی ہونے پر کہ فٹ بال ہی ہو سکتا ہے ہاتھ سے پکڑا اور آہستہ سے زمین پر پھینکا اور جب اس کے حسب معمول اچھلنے پر اطمینان ہوا کہ فٹ بال ہی ہے تو اسے ڈگی میں رکھ دیا جس کے بعد مولانا عبد الحلیم کو وہاں سے جانے کی اجازت دے دی گئی۔
تیسرا واقعہ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ مولانا کہتے ہیں کہ ۳ اکتوبر کی بات ہے کہ وہ لندن ایسٹ میں کمرشل روڈ پر واقع اپنے نیشنل بینک میں گئے جہاں انہوں نے خودکار مشین سے اپنے اکاؤنٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھیں۔ مشین بینک کے اندر تھی اور اس پر متعدد لوگ قطار میں کھڑے تھے، وہ بھی قطار میں شریک ہوگئے۔ ان کے آگے ستر اسی برس عمر کی ایک بڑھیا تھی جسے وہ پہچانتے تھے کہ وہ اس علاقہ کی رہنے والی ہے اور ایک یہودی خاتون ہے۔ اپنی باری آنے پر اس نے مشین کو آپریٹ کیا تو کوئی غلط نمبر دب جانے کی وجہ سے مشین الارم دینے لگی۔ الارم اس سے بند نہیں ہو رہا تھا اس لیے وہ اسے اسی طرح چھوڑ کر پیچھے جا کر پھر لائن میں کھڑی ہوگئی۔ مولانا عبد الحلیم کہتے ہیں کہ انہوں نے دو تین منٹ انتظار کیا مگر نہ وہ عورت آگے بڑھی اور نہ ہی کسی اور نے الارم کو بند کیا تو وہ تھوڑے انتظار کے بعد آگے ہوئے اور الارم بند کر کے اپنی ضرورت کے لیے مشین کو آپریٹ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر وہ بڑھیا جو لائن میں پیچھے کھڑی ہوگئی تھی بھاگتی ہوئی آئی اور یہ کہہ کر جھگڑنا شروع کر دیا کہ مشین کو میں استعمال کر رہی تھی تم نے درمیان میں اسے استعمال کرنا کیوں شروع کر دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ تو پیچھے جا کر لائن میں کھڑی ہوگئی تھیں اس لیے انتظار کے بعد جب آپ آگے نہیں آئیں تو میں نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے مشین کو استعمال کیا ہے۔ اس پر اس خاتون نے جو گالیاں دینا شروع کیں تو مولانا ہکا بکا رہ گئے، وہ گالیاں دیے جا رہی ہے اور مولانا صاحب خاموشی سے کھڑے اس کا منہ دیکھ رہے ہیں۔
اس بڑھیا نے برا بھلا کہتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں برٹش ہوں، تم غیر ملکی یہاں آکر ہمیں پریشان کرتے ہو۔ اس پر بینک کے عملہ میں سے ایک بنگالی لڑکی نے اپنا کاؤنٹر بند کیا اور باہر آکر مولانا صاحب سے کہا کہ آپ بھی اسے جواب دیں اور کہیں کہ ہم بھی برٹش ہیں۔مولانا عبد الحلیم نے کہا کہ ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں اس بڑھیا سے جھگڑا کروں، اس لیے یہ جو کچھ کہتی ہے کہتی رہے میں اسے کوئی جواب نہیں دوں گا۔ بڑھیا نے تھوڑی دیر گالی گلوچ کیا اور پھر موبائل فون پر رنگ کر کے پولیس طلب کر لی۔ چند منٹوں میں پولیس اہل کار آگئے۔ بڑھیا نے پولیس افسر کو بتایا کہ اس نوجوان نے مجھے گالیاں دی ہیں اور مجھے تھپڑ بھی مارا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے اپنے کان کے قریب کوئی نشان بھی بتایا کہ یہ اس تھپڑ کا نشان ہے۔ پولیس افسر نے اس بڑھیا کا بیان قلمبند کرنے کے بعد مولانا سے دریافت کیا تو انہوں نے اصل مقصد بیان کیا اور بتایا کہ انہوں نے بڑھیا کو نہ تھپڑ مارا ہے اور نہ ہی اس کی کسی گالی کا جواب دیا ہے، آپ یہ بات بینک کے عملہ سے دریافت کر سکتے ہیں۔ پولیس افسر نے بینک کے عملہ سے پوچھا تو انہوں نے مولانا عبد الحلیم کے بیان کی تصدیق کی اور کہا کہ زیادتی بڑھیا نے کی ہے اور اس نے گالیاں بھی دی ہیں جبکہ مولانا نے خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنی ہیں اور اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اس پر پولیس افسر نے بڑھیا کا قلمبند کیا ہوا بیان کراس لگا کر کینسل کر دیا اور بڑھیا کو یہ کہہ کر پولیس اپنے ساتھ لے گئی کہ تم اس عمر میں بھی جھوٹ بول رہی ہو اور خواہ مخواہ ایک شریف آدمی پر الزام تراشی کر رہی ہو؟ بظاہر یہ ایک یہودی بڑھیا کا واقعہ ہے لیکن یہودی قوم کی نفسیات اور اجتماعی مزاج کا آئینہ دار ہے کہ کس طرح یہودی قوم جان بوجھ کر مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایک یہودی خاتون کی غلط بیانی پر کراس لگانے والے عالمی صیہونی قیادت کی غلط بیانیوں اور سازشوں پر کراس لگانے کی ضرورت بھی کبھی محسوس کریں گے؟