مولانا عبد القیوم حقانی اور جامعہ ابوہریرہؓ

   
یکم نومبر ۲۰۱۰ء

بعض کام اس قدر اچانک اور غیر متوقع طور پر ہو جاتے ہیں کہ یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس میں ہمارے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا اور کسی نے طے شدہ منصوبے کے تحت وہ کام کروا دیا ہے۔ ۲۱ اکتوبر کو حسن ابدال میں پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس تھا، میرا پروگرام تھا کہ ۲۰ اکتوبر کو رات راولپنڈی یا ٹیکسلا میں گزاروں گا اور ۲۱ اکتوبر کو صبح اجلاس کے لیے مرکز حافظ الحدیث حسن ابدال پہنچ جاؤں گا۔ دو روز قبل نوشہرہ سے مولانا عبد القیوم حقانی کا فون آیا کہ آپ حسن ابدال آرہے ہیں تو رات کو ان کے مدرسے جامعہ ابوہریرہ آجائیں، صبح اکٹھے حسن ابدال چلیں گے۔ میں نے ہاں کر دی۔ مولانا حقانی پاکستان شریعت کونسل میں اس سے قبل باضابطہ طور پر شریک نہیں رہے اور انہیں ایک مہمان بزرگ کے طور پر اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ بھجوایا گیا تھا۔ اجلاس سے ایک روز قبل وزیرآباد سے پروفیسر حافظ منیر احمد نے فون کیا جو ہمارے پرانے ساتھیوں میں سے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نوشہرہ جانا چاہتا ہوں، اس لیے میں اسباق سے فارغ ہو کر سیدھا راولپنڈی جانے کی بجائے وزیرآباد حافظ صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ پروفیسر حافظ منیر احمد پاکستان شریعت کونسل کے ذمہ دار حضرات میں سے ہیں اور مولانا حقانی کے بھی قریبی ساتھی ہیں۔ ہم دونوں جب راولپنڈی پہنچے اور نوشہرہ جانے کے لیے فیض آباد میں کسی اچھی سی ویگن کی تلاش میں تھے کہ فون پر حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی سے رابطہ ہوگیا جو راولپنڈی میں تھے۔ انہیں ہمارے پروگرام کے بارے میں معلوم ہوا تو فرمایا کہ ذرا ٹھہر جاؤ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ ہمیں ڈائیوو کے اڈے پر پہنچ کر انتظار کرنے کے لیے کہا اور کسی دوست کو گاڑی کے لیے فون کیا۔ وہ گاڑی کسی شادی میں دلہن کو لانے کے لیے گئی ہوئی تھی، دلہن کو پہنچا کر ڈرائیور سیدھا ڈائیوو کے اڈے پر پہنچا، پھولوں سے سجی ہوئی گاڑی دیکھ کر ہمیں تعجب ہوا، اتنی دیر میں مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی پہنچ گئے اور ہم شادی کے لیے سجی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر نوشہرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈرائیور کے ساتھ اگلی سیٹ پر مولانا فداء الرحمان درخواستی تشریف فرما تھے اور لوگ انہیں دولہا کے طور پر دیکھ کر تعجب کر رہے تھے۔ ویسے یہ سیٹ بزرگی اور تجربہ دونوں حوالوں سے انہی کا حق تھا اور ہم سارا راستہ اس صورتحال کو انجوائے کرتے رہے۔ جامعہ ابوہریرہ کے قریب پہنچ کر ہم نے گاڑی کھڑی کی اور ڈیکوریشن کے اکثر حصےکو گاڑی سے الگ کیا کہ اس طرح وہاں پہنچنے پر دوست کسی اور الجھن کا شکار نہ ہو جائیں۔

جامعہ ابوہریرہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ حاضری دے چکا ہوں، مولانا عبد القیوم حقانی ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں اور میں نے انہیں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کے مستعد خدام میں دیکھا ہے جو اپنے شیخ کی خدمت بھی کرتے تھے، ان سے استفادہ بھی کرتے تھے اور ان کے فیوض و افادات لوگوں تک پہنچانے کے لیے بھی سرگرم رہتے تھے۔ وہ شعلہ نوا مقرر، تیز رفتار قلمکار اور منجھے ہوئے مدرس ہیں۔ یہ خوبیاں بہت کم لوگوں میں اکٹھی ہوتی ہیں مگر مولانا حقانی کو اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صفات سے بہرہ ور کیا ہے۔ اپنے دو دوستوں کی یہ خوبیاں میرے لیے ہمیشہ قابل رشک رہی ہیں۔ مولانا سعید الرحمان علوی میں یہ خوبی تھی کہ وہ دوستوں کی محفل میں گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تھے اور ساتھ ساتھ ان کا قلم بھی مسلسل چل رہا ہوتا تھا، نہ گپ شپ ان کی تحریر پر اثر انداز ہوتی تھی اور نہ ہی ان تحریر ان کی گپ شپ کو متاثر کرتی تھی۔ بیک وقت یہ دونوں کام کر سکنے کی مجھے حسرت ہی رہی، مجھے لکھنے کے لیے تنہائی درکار ہوتی ہے اور بسا اوقات اس کے لیے اپنے کمرے کو (عوام الناس کی آمد والے دروازے پر) باہر سے تالہ لگوا دیا کرتا ہوں۔ دوسرے مولانا عبد القیوم حقانی ہیں، وہ اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ انہوں نے تھوڑے عرصے میں جامعہ ابوہریرہ کو ایک معیاری درسگاہ کے ساتھ ساتھ ایک اچھا خاصا اشاعتی مرکز بھی بنا دیا ہے۔ وہ اپنے حلقہ قارئین کی نفسیات کو سمجھتے ہیں اور موقع محل کے مطابق کوئی نہ کوئی چیز پیش کر دیتے ہیں۔

مولانا عبد القیوم حقانی نے حال ہی میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی شخصیت اور خدمات پر ’’مرد قلندر‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔ میں نے بھی اس عنوان سے حضرت درخواستی کی سوانح لکھنے کا کچھ عرصہ قبل اعلان کیا تھا لیکن میں ابھی اس کا تانا بانا بن رہا تھا کہ مولانا حقانی کی کتاب مارکیٹ میں آگئی۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ نے میرا کام ’’ہائی جیک‘‘ کر لیا ہے لیکن مجھے اس پر شکوہ نہیں بلکہ خوشی ہے کہ ایک کام ہوگیا ہے۔ ہم بھی الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اشاعتی کام کو منظم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیں مارکیٹنگ کا تجربہ نہیں ہے بلکہ سرے سے ذوق ہی نہیں ہے اور اس حوالے سے مولانا عبد القیوم حقانی اور جامعہ ابوہریرہ ہمارے لیے ہمیشہ قابل رشک رہے ہیں۔

حضرت مولانا فداء الرحمان درخواستی کی قیادت میں ہم جامعہ ابوہریرہ پہنچے تو اساتذہ اور طلبہ نے پرجوش استقبال کیا۔ مولانا درخواستی اساتذہ اور طلبہ سے مختصر خطاب کے بعد فوری طور پر واپس اسلام آباد تشریف لے گئے اور مجھے حالاتِ حاضرہ اور علماء کرام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے قدرے تفصیلی گفتگو کا موقع مل گیا۔ رات جامعہ ابوہریرہ میں قیام ہوا، فجر کی نماز کے بعد مختصر درسِ حدیث دیا اور پھر مولانا عبد القیوم حقانی، پروفیسر حافظ منیر احمد اور راقم الحروف عازم حسن ابدال ہوگئے۔ راستے میں ’’امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کا مرکز دیکھنے کا موقع مل گیا۔ امہ ویلفیئر ٹرسٹ کی تعلیمی اور رفاہی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملتی رہتی ہیں، ٹرسٹ کا ماہانہ جریدہ بھی مطالعہ سے گزرتا ہے اور ان دوستوں کا کام دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں رفاہی اور سماجی خدمات کا ذوق اس درجے کا نہیں ہے جس طرح کا ہونا چاہیے مگر اب الرشید ٹرسٹ، الخیر ٹرسٹ، معمار ٹرسٹ، امہ ویلفیئر ٹرسٹ اور اس طرز کے بعض دیگر اداروں کی مسلسل خدمات دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ ہمارا مسلکی حلقہ اس طرف متوجہ ہو رہا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

امہ ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ مولانا محمد ادریس کا تعلق صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی سے ہے اور وہ ایک عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ ٹرسٹ انہوں نے برطانیہ میں ہی اب سے دس سال قبل رجسٹرڈ کروایا تھا جس میں ان کے ساتھ دو تین اور رفقائے کار بھی ہیں اور رفاہی کاموں کے حوالے سے ان کی خدمات کا دائرہ کار افریقہ، فلسطین، افغانستان، عراق، پاکستان، ہیٹی، بنگلہ دیش، صومالیہ، موریطانیہ اور سینیگال سمیت ۲۷ ممالک تک وسیع بتایا جاتا ہے۔ اس ادارے کا نوشہرہ کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک بڑا مرکز ہے جسے دیکھنے کی کافی دنوں سے تمنا تھی مگر میرا خیال تھا اس کے لیے شاید مستقل سفر کرنا پڑے گا۔ نوشہرہ جاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ’’امہ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے بورڈ پر نظر پڑی، میں نے ساتھیوں سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ جی ٹی روڈ پر ہی ہے چنانچہ صبح واپسی پر وہاں حاضری کا پروگرام بنا لیا اور مولانا عبد القیوم حقانی اور پروفیسر حافظ منیر احمد کے ہمراہ کچھ لمحات اس ادارے میں گزار کر مختلف شعبوں کا معائنہ کیا اور طریق کار سے واقفیت حاصل کی۔ امہ ویلفیئر کا کام تسلی بخش اور حوصلہ افزا ہے، اللہ تعالیٰ مزید ترقیات اور ثمرات و برکات سے بہرہ ور فرمائیں، آمین۔

میں نے اس کالم کی ابتدائی سطور میں جس غیر متوقع کام کا ذکر کیا ہے اس کا آخری حصہ یہ ہے کہ مولانا عبد القیوم حقانی نے پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہمارے کام اور طریق کار سے اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ ان کی اور ان کے ادارے کی خدمات اس مشن کے لیے حاضر ہیں، اس پر امیر محترم مولانا فداء الرحمان درخواستی نے اعلان کیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ہمارے صوبائی امیر حضرت صاحبزادہ شمس الدین آف موسیٰ زئی شریف تھے جن کی وفات کے بعد سے یہ منصب خالی ہے اور اس کے لیے اب مولانا عبدا لقیوم حقانی کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا حقانی کو پاکستان شریعت کونسل کو فعال اور متحرک بنانے کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter