(یوٹیوب چینل ’’عامر عثمانی پوڈ کاسٹ‘‘ پر نشر ہونے والا انٹرویو مولانا راشدی کی نظرثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
تمہید
عامر عثمانی کا سلام قبول کیجیے۔ عامر عثمانی پوڈ کاسٹ میں خوش آمدید۔ آج ہماری خوش نصیبی اور اس اسٹوڈیو کے لیے بھی بہت مسرت کا موقع ہے کہ ایک بہت معروف عالم دین اور دینی تحریکات میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے، ہمیشہ پیش پیش رہنے والے، بہت بڑے خانوادے سے تعلق رکھنے والے محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب آج اسٹوڈیو میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔
مولانا صاحب! آپ کی تشریف آوری، آپ کی محبت اور شفقت کا بہت شکریہ کہ آپ آج یہاں اسٹوڈیو تشریف لائے۔ میں چاہوں گا کہ آپ کی زندگی بہت سی تحریکات سے وابستہ رہی ہے، بڑے اکابر سے آپ کی ملاقاتیں ہیں، پھر آپ کا پورا علمی سفر ہے، تو آغاز آپ کے علمی سفر سے کرنا چاہوں گا۔
انٹرویو
سوال: آپ کے علمی سفر کا پس منظر کیا ہے؟ ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی ؟اس کے بعد پھر دینی تعلیم کا سلسلہ کیسے جاری رہا؟
جواب: سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے دوستوں کے ساتھ اس ملاقات کا موقع فراہم کیا اور میرے لیے خوشی اور سعادت کی بات ہے کہ بہت سے دوستوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ میں ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوا، میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سر العزیز کا تعلق بٹل اور شنکیاری کے درمیان ایک جگہ ہے ”کڑمنگ بالا“ وہاں سے تھا۔ ہمارے دادا محترم وہاں ہوتے تھے، چھوٹے سے زمیندار تھے۔ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ کی والدہ فوت ہو گئی تھیں تو حالات نے ان کو اس رخ پر لگایا کہ یہ مختلف رشتہ داروں کے پاس رہنے لگے۔ تو کسی اللہ کے بندے نے، اللہ پاک اسے جزائے خیر دیں اور اسے بڑی عزتیں عطا فرمائیں کہ ان دونوں بھائیوں کو وہاں سے لیا اور بفہ میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں پہنچا دیا تو انہوں نے پہلے وہاں تعلیم حاصل کی، وہاں سے گوجرانوالہ آئے اور بھی کئی جگہ تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے دیوبند میں ۱۹۴۱ء / ۱۹۴۲ء میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس اللہ سرہ العزیز سے دورۂ حدیث کیا، پھر حضرت والد صاحبؒ گکھڑ تشریف لے آئے۔ گکھڑ میں ان کا پہلے بھی تعارف تھا۔ وہاں ۱۹۴۳ء سے ۲۰۰۹ء تک امام، خطیب اور مدرس رہے۔ میری پیدائش ۱۹۴۸ء میں گکھڑ میں ہوئی۔ مجھ سے جب کوئی عمر پوچھتا ہے تو سادہ سا جواب دیتا ہوں کہ میں پاکستان سے ایک سال چھوٹا ہوں۔
گکھڑ میں گھر میں ہماری والدہ محترمہ مرحومہ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائیں، پڑھایا کرتی تھیں۔ جیسے پرانے زمانے میں پڑھی لکھی عورتیں شام کو گھروں میں تعلیم کا کوئی نہ کوئی نظم رکھتی تھیں، ایسے ہی ہمارے گھر میں محلے اور علاقے کے بچے اور بچیاں عصر سے شام تک پڑھتے تھے، یہ ایک گھریلو مدرسہ تھا۔ والدہ محترمہ قرآن پاک کا ترجمہ بھی پڑھاتی تھیں، حفظ بھی کرواتی تھیں، ناظرہ بھی پڑھاتی تھیں اور حضرت تھانویؒ کی کتاب بہشتی زیور کی تعلیم ہوتی تھی۔ وہ ہمارا گھریلو مدرسہ اب بھی چل رہا ہے، میرے چھوٹے بھائی مولانا قاری منہاج الحق خان راشد اس کو چلا رہے ہیں۔ میں نے ابتدائی دینی تعلیم والدہ محترمہ مرحومہ اور والد صاحبؒ سے حاصل کی، ان سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور قرآن پاک کی کچھ سورتیں یاد کیں۔ ان کے علاوہ ہماری دوسری والدہ تھیں، میں سوتیلی نہیں کہوں گا کیونکہ حقیقی ماؤں سے زیادہ شفقت فرماتی تھیں ان تینوں سے یعنی اپنے والد محترم سے اور اپنی دونوں ماؤں سے میں نے تعلیم کا آغاز کیا۔
پھر ۱۹۵۷ء کے لگ بھگ گکھڑ میں مسجد میں مدرسہ بنا تو میں اس وقت گھر میں پڑھتا تھا اور ایک اسکول میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ مسجد کے ساتھ سکول تھا۔ جب گکھڑ میں تعلیم القرآن کا مدرسہ بنا تو حضرت والد صاحبؒ نے مجھے سکول سے اٹھایا اور حفظ کی کلاس میں بٹھا دیا۔ میرے پہلے باضابطہ استاد قاری اعزاز الحق صاحب امروہوی رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں، وہ تشریف لائے، میں نے ان سے کچھ پارے پڑھے، پھر مختلف قاری حضرات آتے رہے، میں نے چھ سات پارے تقریباً دس بارہ استادوں سے پڑھے ہیں، اب ان سب کے نام بھی یاد نہیں ہیں۔ پھر اللہ پاک نے مہربانی فرمائی تو ہمارے استاد محترم حضرت قاری محمد انور صاحبؒ تشریف لائے ،جن کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ تھا اور مدرسہ تجوید القرآن لاہور کے فاضل تھے۔ وہ آنے کے بعد ٹک گئے الحمد للہ۔ یوں سمجھیے کہ میں نے سارا قرآن مجید ان سے حفظ کیا۔ جو پارے پہلے پڑھے تھے وہ دوبارہ ان سے پڑھے۔ یہ میری ابتدائی تعلیم ہے۔
۱۹۶۰ء میں بارہ سال کی عمر میں میرا حفظ مکمل ہوا تھا اور میں نے حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سید محمد حسن شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت قاری فضل کریم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اپنا آخری سبق سنایا اور آخری سبق کا لطیفہ بھی ہوا کہ والد صاحبؒ نے میرے حفظ کی خوشی میں گکھڑ میں جلسہ رکھا ہوا تھا، میں نے وہاں اپنا آخری سبق سنایا۔ میں بارہ سال کا بچہ تھا ، سامنے پورا جلسہ تھا، اور پیچھے اکابر بیٹھے ہوئے تھے تو میں سبق سناتے ہوئے کانپ رہا تھا اور ایک آیت بھول گیا۔ سورۃ المرسلات کا دوسرا رکوع میرا سبق تھا ، اس کی آیت ”واذا قیل لھم ارکعوا“ بھول گیا، خیر استاد صاحب نے تصحیح کرائی اور میں نے پڑھ دیا۔ یہاں تک تو بات نارمل ہے۔
پھر یوں ہوا کہ اس کے دو سال کے بعد میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں طالب علم تھا، حضرت درخواستی رحمۃ اللہ علیہ گوجرانوالہ کسی پروگرام میں تشریف لائے، مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں تشریف فرما تھے اور علماء کرام بیٹھے ہوئے تھے۔ میں زیارت کے لیے چلا گیا اور جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا کہ مجھے کون پہچانے گا ۔ حضرت درخواستی ؒ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے ادھر آؤ، اب ملتے بھی نہیں ہو، سبق یاد ہے ”واذا قیل لھم ارکعوا“ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ انہیں ابھی تک یاد ہے یہ بچہ بھولا تھا ، فلاں آیت بھولا تھا۔ فرمایا پھر سبق سناؤ ۔ چنانچہ میں نے دوبارہ سنایا ۔ یہ میری حفظ کی تعلیم ہے۔
اس کے بعد میں نے تقریباً ایک سال صرف نحو کی ابتدائی کتابیں میزان الصرف، نحو میر، شرح مائۃ عامل وغیرہ گھر میں اپنے والد صاحبؒ سے پڑھیں۔ اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں مجھے باقاعدہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل کرایا گیا، وہاں میں نے ۱۹۶۹ء تک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ میں نے ۱۹۶۹ء میں دورہ حدیث کیا ہے۔ میری عصری تعلیم بس چوتھی جماعت تک پرائمری کی ہے، اس کے بعد میری سکول کی تعلیم نہیں ہے۔ بسا اوقات عجیب سی بات بنتی ہے جب سٹیج سیکرٹری صاحبان دعوت دیتے ہوئے دیگر القاب کے ساتھ یہ کہتے ہیں ڈاکٹر مولانا زاہد الراشدی صاحب تو مجھے وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ میں پرائمری بھی نہیں ہوں، مجھے تم ڈاکٹر بنا رہے ہو۔ میں سیدھا سادا مولوی ہوں۔ میری اتنی ہی تعلیم ہے، اس کے علاوہ میں نے کوئی تخصص وغیرہ کچھ نہیں کیا ۔ صرف یہ ہے کہ تجوید کی مشق کرتا رہا ہوں، گکھڑ میں ہمارے استاد محترم حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سوات بٹ خیلہ کے تھے، ان سے تجوید کی مشق کرتا رہا اور گوجرانوالہ میں حضرت مولانا قاری عبد الصمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے قراء میں سے تھے ، ان کے پاس بھی مدرسہ اشرف العلوم میں مشق کیا کرتا تھا۔ یوں تھوڑی بہت تجوید غیر رسمی میں نے پڑھی ہے۔
سوال: یہ تو آپ کا پورا تعلیمی سفر رہا ،تعلیمی پس منظر رہا۔ پھر ظاہر ہے کہ آپ کی ایک بہت بڑی نسبت اور بہت بڑا خانوادہ ہے تو دینی تحریکات سے بھی آپ کے پورے گھرانے کا بڑا تعلق رہا، میں چاہوں گا کہ تحریکی پس منظر بھی سامنے آ جائے۔
جواب: میرا تحریکی ذوق بچپن سے تھا۔ جب طالب علم تھا پڑھتا بھی تھا اور ساتھ اس طرح کی حرکتیں بھی بہت کیا کرتا تھا۔ جب ۱۹۶۲ء میں صدر ایوب خان نے مارشل لاء ختم کیا اور عبوری آئین نافذ کیا تو عبوری آئین میں ایوب خان مرحوم نے ملک کے نام سے اسلامی کا لفظ حذف کر دیا تھا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اسلامی کا لفظ ختم کر کے ”جمہوریہ پاکستان“ نام قرار دیا تھا۔ اس کے خلاف ملک میں جلوس ، جلسے ہوتے رہے، میں جلسوں میں جایا کرتا تھا۔ میرے تحریکی ذوق کا آغاز وہاں سے ہوا۔ اس زمانے میں علماء نے ایک محضر نامہ تیار کیا تھا کہ یہ آئین قابل قبول نہیں ہے، پاکستان اسلامی ہے اور اسلامی رہے گا، تو میں اس محضر نامے پر گکھڑ میں دستخط کروانے کے مہم میں شریک تھا، مجھے یاد ہے کہ سینکڑوں لوگوں سے میں نے دستخط کروائے اور وزارت قانون کو بھجوائے۔ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ الحمد للہ یہ میرا تحریکی آغاز ہے، تب سے لے کر اس وقت تک دینی تحریکات سے الحمد للہ ہمیشہ وابستہ رہا ہوں، شاید میرا ایک سال بھی خالی نہیں ہوگا کہ میں کسی نہ کسی تحریک میں کچھ نہ کچھ حرکتیں نہ کر رہا ہوں۔ یہ میرا ریکارڈ ہے ۱۹۶۲ء سے لے کر آج تک۔
حتیٰ کہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کی کئی یادیں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔ مجھے والد صاحبؒ کی گرفتاری اور ان کی رہائی کا منظر یاد ہے۔ اس زمانے میں ہم بچے صرف کرتا پہنا ہوتے تھے ، گلیوں میں جلوس نکالا کرتے تھے اور نعرے لگایا کرتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک میں میرا اتنا سا حصہ ہے۔
تحریکوں میں باضابطہ شرکت ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں انتخابی مہم سے ہوئی۔ میں نے ۱۹۶۹ء میں دورہ حدیث کیا تھا۔ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے علاقے کے بڑے بزرگ تھے، حضرت والد محترمؒ کے استاد محترم تھے، وہ شیرانوالہ مرکزی جامع مسجد کے خطیب تھے اور مدرسہ انوار العلوم کے مہتمم تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی۔ ایک دن مدرسہ نصرۃ العلوم تشریف لائے، والد محترمؒ سے باتیں کرتے ہوئے فرمانے لگے مولوی صاحب ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بیٹے دیے ہیں، والد محترم نے کہا الحمد للہ۔ ہم نو بھائی تھے، جوان ہوئے، پڑھے۔ مفتی عبد الواحد صاحبؒ فرمانے لگے اللہ نے مجھے کوئی بیٹا نہیں دیا، آپ ایک بیٹا مجھے دے دیں ۔ والد محترم ؒ نے فرمایا سارے آپ کے ہیں جو آپ کی مرضی ہے لے جائیں۔ مفتی عبد الواحد صاحبؒ نے مجھے فرمایا زاہد! بستر اٹھاؤ اور جامع مسجد چلو۔ مرکزی جامع مسجد میں میری تقرری یوں ہوئی۔ الحمد للہ آج ۲۰۲۴ء میں بھی اسی مسند پر بیٹھا ہوں۔
۱۹۷۰ء کے الیکشن میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ جمعیت علماء اسلام کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور ان کی انتخابی مہم کا انچارج میں تھا۔ اس میں حضرت والد صاحب اور دیگر حضرات نے بہت کام کیا ،بڑے دورے کیے جبکہ جمعیت علماء اسلام کی طرف سے الیکشن آفس اور کمپین کا انچارج میں تھا اور اس وقت میں جمعیت علماء اسلام کا ضلع گوجرانوالہ کا سیکرٹری اطلاعات تھا۔
اس کے بعد ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جو تمام مکاتب فکر کی” کل جماعتی مجلس عمل“ بنی ہے تو میں اس کا رابطہ سیکرٹری تھا۔ یہ تحریک حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں چلی تھی، اس میں بریلوی مکتب فکر کے بڑے متصلب عالم مولانا ابو داؤد محمد صادق صاحب ہمارے ضلعی صدر تھے، اب بھی کوئی سنتا ہے کہ میں مولانا ابوداؤد صادق صاحب کا سیکرٹری تھا تو اسے یقین نہیں آتا۔ اہلِ حدیث بزرگ حکیم عبدالرحمٰن آزاد صاحب سیکرٹری جنرل تھے اور میں رابطہ سیکرٹری تھا۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں گوجرانوالہ شہر میں کام کرنے والی یہ ہماری ٹیم تھی۔ اور جو کام تحریکات میں ہوتے ہیں ہم نے الحمد للہ سب کیے۔
اس کے بعد مختلف تحریکات ہوتی رہیں۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفیٰ بڑی تحریک تھی۔ اس وقت الحمد للہ میں آگے بڑھتے بڑھتے جمعیت علماء اسلام پاکستان کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ضلع کا سیکرٹری اطلاعات تھا، ۱۹۷۳ء میں پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات تھا اور ۱۹۷۵ء میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں جو نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد بنا تو مرکز میں صدر مولانا مفتی محمود ؒ تھے جبکہ پنجاب کا سیکرٹری جنرل میں تھا الحمد للہ۔ پھر اس تحریک میں مذاکرات میں بھی شریک ہوئے، سب کچھ ہوا۔
سوال: حضرت! آپ نے پاکستان کا آئین بنتے دیکھا ہے؟
جواب: آئینِ پاکستان بنتے دیکھا ہے اور اس میں الحمد للہ کچھ نہ کچھ حصہ بھی لیا ہے یعنی کمپین کی ہے کہ اسلامی قانون لانا چاہیے وغیرہ، میں اس تحریک کا حصہ رہا ہوں۔
اس کے بعد ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں جب تحریک کا آغاز ہوا تو ساری رات جماعتیں اکٹھی ہوئیں۔ اس کے صدر محترم حضرت خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب ؒتھے، بریلوی مکتب فکر کے بڑے عالم مولانا مفتی مختار احمد نعیمی مرحوم سیکرٹری جنرل تھے، حضرت مولانا عبد القادر روپڑی نائب صدر تھے اور بہت بڑے شیعہ رہنما علامہ علی غضنفر کراروی نائب صدر تھے، میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں ہماری ٹیم یہ تھی۔
اس کے بعد ۱۹۸۷ء میں سینٹ میں حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف صاحبؒ اور حضرت مولانا سمیع الحق صاحبؒ نے شریعت بل پیش کیا تھا۔ اس شریعت بل کی منظوری کے سلسلہ میں عوامی جدوجہد کے لیے ملک بھر میں تحریک چلی تھی۔ اس پر کراچی میں سواد اعظم کراچی نے بہت محنت کی۔ مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبؒ، مولانا سلیم اللہ خان صاحبؒ، حضرت مولانااسفند یار خان صاحبؒ شریعت بل کی تحریک میں یہ سارا گروپ تھا اور متحدہ شریعت محاذ بنا تھا جس کے صدر اکوڑہ خٹک سے حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تھے ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد صاحب تھے اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ یہ کام ہمیشہ میرے ذمہ رہا ہے الحمد للہ۔ اور شریعت بل کی تحریک میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔
یہ میرا تحریکات کے ساتھ تعلق کا سرسری خاکہ ہے۔ اب بھی الحمد للہ یہ میرا ذوق ہے۔ اور میرا ایک اصول ہے کہ ملک میں جب کوئی نیا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس پر کوئی بات نہیں کر رہا، جبکہ بات کرنا ضروری ہے۔ تو میں اس بات آواز اٹھاتا ہوں اور صرف بات نہیں کرتا، بلکہ عملی طور پر جو میرے بس میں ہوتا اس سے گریز نہیں کرتا۔
یہ میرا ذاتی طریق کار ہے اور اب اس کے لیے میرے ساتھ ”پاکستان شریعت کونسل“ کے نام سے ہمارا مسلکی فورم بھی ہے ،جو اس ذوق کے افراد کا بہت بڑا گروپ ہے۔ جبکہ ایک ہمارا مشترکہ فورم ”ملی مجلس شرعی“ کے نام سے ہے، جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، شیعہ سب شریک ہیں، میں اس کا صدر ہوں۔ ان فورمز پر ہمارا طریق کار یہی ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے ، ہم اکٹھے ہو کر اس مسئلے میں پہلے ایک موقف قائم کرتے ہیں، پھر وہ موقف متعلقہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں، پھر اس کی لابنگ کرتے ہیں کہ یہ کام آپ نے کرنا ہے، یہ آپ نے کرنا ہے۔ اس پر الحمد للہ ہم ”پاکستان شریعت کونسل“ اور ”ملی مجلس شرعی“ کے فورم سے کام کر رہے ہیں۔ اب بھی کئی مسائل کھڑے ہوتے ہیں تو اس مسئلہ کے متعلق موقف قائم کرنا، اس مسئلہ کو ابھارنا، متعلقہ لوگوں تک پہنچانا، کمپین کرنا اور لابنگ کرنا، یہاں تک ہم کام کرتے ہیں۔
سوال: اس وقت ہمارے سماج میں مروجہ جو مذہبی جماعتیں ہیں مثلاً عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، اہل سنت والجماعت ، تحریک لبیک وغیرہ بہت ساری مذہبی جماعتیں ہیں، ان کو آپ نے بنتے ہوئے دیکھا ہے، ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب: یہ تحریکات دینی ضروریات سامنے رکھ کر بنی ہیں۔ تحریک تحفظ ختم نبوت، اور تحریک دفاع صحابہ ہمارا مستقل محاذ ہے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ یہ مخلصین کے گروپ ہیں، لیکن ادراک اور ترتیب نہیں ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور اسے کیسے ڈیل کرنا ہے؟ اس چیز کی ضرورت ہے اور اس کی کمی محسوس ہوتی ہے، میں کوشش کرتا ہوں کہ پیچھے رہ کر ان جماعتوں کو بریفنگ مہیا کروں۔ میں اور پاکستان شریعت کونسل خاموشی کے ساتھ ایک موقف طے کرتے ہیں، اور لابنگ کرتے ہیں کہ یہ کام کن لوگوں کے کرنے کا ہے۔
ملکی سطح پر یا ملت اسلامیہ کی سطح پر جو بھی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ہم اس فورم پر کھڑے ہیں۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل مدارس کے اوقاف کا مسئلہ آیا تھا، الحمد للہ ہم نے مہم چلائی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر بھی سوائے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ابتداء میں کوئی نہیں بول رہا تھا، الحمد للہ ہم نے محنت کی ، لاہور اور اسلام آباد میں کنونشن کیا اور سب کو اکٹھا کیا۔ اس قسم کی محنت ہم اب بھی کرتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔
سوال: مولانا! آپ نے بتایا کہ آپ بہت سی تحریکات کے سیکرٹری اطلاعات رہے اور یہ بہت اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اور میڈیا کا زمانہ ہے، اس وقت جو سوشل میڈیا اور جو میڈیا ہمارے سامنے ہے، اس میں مذہبی طبقے کا کردار آپ کو کیسا نظر آتا ہے؟ کیا مذہبی طبقہ آج بھی چونکہ چنانچہ والی کیفیت میں ہے یا انہیں کھل کر سامنے آنا چاہیے؟ کس محاذ پر کام کرنا چاہیے؟
جواب: خلوص، جوش و جذبہ اور محنت سے کوئی بھی کام کیا جائے ، تو مجھے کسی بھی دوست کے کام سے انکار نہیں ہے، لیکن سلیقہ، کام کے لیے درجہ بندی، ترتیب اور حکمت کی عام طور پر بہت کمی ہے۔ کون سی بات کس لہجے میں کرنی ہے، کس سطح پر کرنی ہے، کتنی کرنی ہے، کس سے کرنی ہے؟ اس کا ادراک ضروری ہے۔ اللہ کرے ہو جائے، ہم اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
سوال: جو سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے فتنے اٹھے ہیں انجینئر محمد علی مرزا اور اس طرح کے بہت سارے لوگ، انہیں آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: یہ صرف مسائل کھڑے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں جتنے بھی اہل دانش ہیں، ان کے بارے میں ایک اصولی بات عرض کیا کرتا ہوں کہ ان کا مجموعی رخ دیکھیں کہ امت کے نوجوانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو کم کرنا ان کا ٹارگٹ ہے یا بڑھانا ان کا ہدف ہے؟ ان کی گفتگو سے شکوک کم ہو رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں، میرے نزدیک معیار یہ ہے۔ میں ان کی گفتگو نہیں دیکھتا، گفتگو کا نتیجہ دیکھتا ہوں۔ مثلاً کوئی بھی دانشور ہے، وہ بہت اچھی بات کرے، لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں کیا ماحول پیدا ہوگا؟ سننے والوں کا ذہن کیا بنے گا ؟ اس سے نئی نسل کس طرف جائے گی؟ اگر کسی بھی دانشور اور میڈیا اینکر کی جدوجہد اور اس کی گفتگو سے شکوک و شبہات میں کمی آ رہی ہے تو میں اس کو مصلحین میں شمار کرتا ہوں اور اگر شکوک میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہ متجددین میں ہے۔
سوال: متجددین کی بات آپ نے چھیڑ دی ، میں اس طرف بھی آؤں گا، مگر اس حوالے سے یہ ایک سوال بڑا ضروری ہے کہ یہ جو مناظروں کا ماحول ہے۔ جب اس طرح کے لوگ اٹھتے ہیں تو پھر ہماری طرف سے بہت سارے لوگ اٹھتے ہیں اور مناظروں کے لیے بڑھتے ہیں۔ ابھی ریسنٹلی (حالیہ طور پر) بھی کچھ اس طرح کے واقعات سوشل میڈیا پر وائرل ہیں، مفتی حنیف قریشی ورسز (بمقابلہ) انجینئر محمد علی مرزا، فلاں ورسز فلاں۔
جواب: میں اس سلسلے میں دو باتیں عرض کیا کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ آج کا دور مناظرے کا دور نہیں ہے، بلکہ بریفنگ کا دور ہے۔ مناظرے کی زبان کا دور نہیں ہے، بریفنگ کی زبان کا دور ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ میں فتوے سے انکار نہیں کرتا، لیکن فتوے سے کسی کام کا آغاز ٹھیک نہیں ہے۔ پہلے سمجھائیں، آج کی نئی نسل بالکل خالی الذہن ہے، دین کی بنیادی تعلیم ان کے پاس نہیں ہے اور میں انہیں قصوروار نہیں سمجھتا۔ ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی کالج تک پہنچ گئے، ان کا ذہن خالی ہے، انہیں کالج کا ماحول مل گیا اور ساتھ موبائل مل گیا ہے تو انہیں گمراہ ہونے سے کون بچائے گا؟ اور اس میں ان کا قصور کیا ہوگا ؟ اس لیے پہلی بات یہ ہے کہ نئی نسل کی ضرورت یہ ہے کہ ان کو دین کی بنیادی تعلیم مناظرے اور فتوے سے بچا کر مثبت انداز میں فراہم کی جائے، فتویٰ سے انکار نہیں، لیکن فتویٰ آخری سٹیج ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔
گوجرانوالہ میں مرکزی جامع مسجد بڑا دارالافتاء سمجھا جاتا ہے، ڈیڑھ سو سال سے چلا آ رہا ہے۔ میں نے اس میں ایک تبدیلی کی ہے۔ اس وقت وہاں حضرت مولانا داؤد احمد صاحب میواتی مفتی ہیں اور مولانا حافظ فضل الہادی صاحب نائب مفتی ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ جب کوئی صاحب مسئلہ لے کر آئے تو پہلے اسے مشورہ دیں، اس کو راستہ بتائیں۔ یہ راستہ بتانا اور راستہ نکالنا بھی مفتی کی ذمہ داری ہے، آخر میں فتوی دیں۔ چنانچہ ہم نے اپنے دارالافتاء کا نام بھی تبدیل کر دیا ہے اور ”دارالافتاء والمشورۃ“ نام رکھا ہے۔
کسی مسئلہ میں متبادل حل بتانا اور راستہ نکالنا بھی مسئلہ بتانے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس پر عہد نبویؐ کا ایک واقعہ نقل کرتا ہوں۔ حضرت بلالؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے معاملات کے انچارج تھے، سودا لانا ، قرضہ لینا ان کی ذمہ داری تھی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت بلالؓ عمدہ کھجوریں لائے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! یہ تو ہمارے ہاں عام طور پر نہیں آیا کرتیں، نارمل کھجوریں آتی ہیں۔ یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کو اچھی کھجوریں کھلاؤں تو میں نے عام کھجوریں دو صاع دے کر ایک صاع عمدہ کھجوریں لی ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو سود ہے، جنس کا جنس سے تبادلہ ہو تو اس میں کمی بیشی سود ہوتی ہے۔ یہ کیا کیا تم نے؟ حضرت بلال نے عرض کیا یا رسول اللہ! عام کھجوروں کے برابر عمدہ کھجوریں تو کوئی نہیں دیتا اور میرا جی چاہتا تھا اچھی کھجوریں کھلانے کا، میرے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں تھا تو میں کیا کرتا؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجوریں پیسوں پر بیچ دو، انہی پیسوں سے یہ کھجوریں خرید لو۔ ایک کی بجائے دو سودے کر لو تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے حیلہ کہہ لیں یا جو بھی کہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حل نکالا۔
سماجی مسائل میں ڈیڈ لاک نہیں ہوتا، آپ کو حل دینا پڑتا ہے۔ آپ فرد کو ڈیڈلاک کر سکتے ہیں، فیملی کو بھی کر سکتے ہیں، مگر سماج کو ڈیڈلاک نہیں کر سکتے۔ اس کا حل تلاش کرنا ہوگا ، حل دینا ہوگا اور اس کا تسلسل جاری رکھنا ہوگا۔ میں اسی پر ایک اور بات عرض کرتا ہوں۔
ہماری چار بڑی فقہیں ہیں۔ ان میں سے شافعی فقہ کتابی ہے، حنبلی فقہ بھی کتابی ہے ابھی سعودی عرب میں آئی ہے۔ رول کرنے والی دو فقہیں ہیں۔ ایک فقہ حنفی کہ اس نے خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں ایک ہزار سال بطور قانون حکومت کی ہے، اور دوسری فقہ مالکی، مغرب میں تیونس اور اندلس میں فقہ مالکی نافذ ر ہی۔ ہم موطا امام مالک حضرت یحیی بن یحییٰ لیثی اندلسی کی روایت سے پڑھتے ہیں، وہ اندلس کے تھے۔ وہ جب واپس گئے تو جیسے یہاں امام ابو یوسف کا مقام و مرتبہ تھا، ان ممالک میں گویا وہ امام ابو یوسف تھے۔ چونکہ فقہ حنفی اور فقہ مالکی نے حکومت کی ہے اور بطور قانون نافذ رہی ہیں ، اور قانون ڈیڈلاک برداشت نہیں کرتا، اس لیے ان دونوں میں آپ کو بہت حیلے ملیں گے۔ جو چیز سماج کی ضرورت ہے، اس میں حل دینا ہی پڑتا ہے تو انہوں نے حل پیش کیا ہے۔ اس لیے میں مفتیان کرام سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ جب کوئی مسئلہ لے کر آئے تو پہلے اسے مشورہ دیں، اسے متبادل حل بتائیں، بعد میں فتویٰ دیں۔
سوال: آپ کے صاحبزادہ عمار خان ناصر صاحب کے حوالے سے بہت سی باتیں حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر چلی ہیں۔ ان کا آپ سے پرانا علمی تعلق اور رشتہ وغیرہ ساری چیزیں ہیں، لیکن ابھی جو حالیہ معاملات ہوئے، اس میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ باپ بیٹے کا تعلق بالکل ختم ہو گیا ہے……
جواب: میں اس کی وضاحت کر دیتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چونکہ وہ المورد اور الشریعہ دونوں سے وابستہ ہیں تو ایک اشتباہ پیدا ہو رہا تھا۔ میں نے انہی سے کہا کہ عمار! دیکھو یہ اشتباہ پیدا ہو رہا ہے تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں ماہنامہ الشریعہ کی ادارت سے الگ ہو جاتا ہوں، بس اتنی سی بات ہے۔ اب بھی وہ گھر میں ہی ہے آج بھی میری اس سے بات ہوئی ہے ۔ وہ میرا بیٹا ہے، صاحبِ علم ہے، بعض مسائل میں اس کی اپنی رائے ہے۔ رائے کا اختلاف میں بھی رکھتا ہوں۔ میں نے حضرت والد صاحبؒ سے رائے کا اختلاف کیا ہے، ان کے سامنے کیا ہے، چچا محترم صوفی عبد الحمید خان سواتی صاحبؒ سے رائے کا اختلاف کیا ہے رائے کا اختلاف ہونا کوئی بات نہیں ہے۔ ہاں وہ جو ایک اشتباہ تھا، اسے میں نے ختم کیا ہے، تاکہ الشریعہ کا دائرہ المورد کے ساتھ خلط ملط نہ ہو، اور وہ ہو گیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
سوال: ایک اور خط بھی سوشل میڈیا پر آیا ہے، آپ کی نظر سے یقیناً گزرا ہوگا۔ عمار خان ناصر صاحب نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے کچھ مسائل کے بارے میں بات کی، پھر مفتی صاحب کا جواب آیا تو عمار ناصر صاحب نے مفتی صاحب کے جواب کے بعد ایک تحریر لکھی ہے وہ شاید جواب الجواب دیا یا کچھ بھی، اس میں کچھ ایسی باتوں کا تذکرہ ہے کہ جس پر لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ شاید مناسب نہ ہو۔ جیسے انہوں نے اس میں اس بات کا ذکر کیا کہ جو اندھی تقلید ہے وہ تو کہیں پر بھی نہیں ہے، یہ چیزیں اکابر پرستی ہے۔ اور انہوں نے صحابہ کرامؓ کا تذکرہ کیا کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین یہ تمام لوگ بھی……
جواب: میں نے وہ پڑھا ہے۔ میرا موقف وہی ہے جو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنی قدس اللہ العزیز نے جماعت اسلامی کے دستور کی دفعہ نمبر چھ پر تبصرہ کرتے ہوئے خط میں لکھا تھا، میں اسی پر کھڑا ہوں، اور اسی سے جماعت اسلامی کے ساتھ ہمارے اختلافات کا آغاز ہوا تھا کہ صحابہ کرامؓ معیارِ حق ہیں اور حجت ہیں۔ میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کی زبان میں بات کیا کرتا ہوں کہ صحابہ کرامؓ کا تعامل حجت ہے اور آج کل میں یہ بات تقاریر میں دو ٹوک کر رہا ہوں کہ قرآن مجید مستقل حجت ہے، حدیث مستقل حجت ہے اور آثار صحابہ اور تابعین بھی مستقل حجت ہے۔ ہمارے اہل سنت کے حجت کے تین دائرے ہیں۔ ہاں اگر کسی کو کوئی شبہ ہے بات الگ ہے۔ دیکھیں، ایک ہے شبہ ہونا اور ایک ہے کسی کا اپنی رائے کا اظہار کرنا یہ تو ہر دور میں رہا ہے۔ اگر اس کو محاذ آرائی کا رنگ نہ دیا جائے بلکہ تفرد کے درجے میں رہنے دیا جائے تو کوئی بات نہیں، مگر ہمارے ہاں محاذ آرائی کا مزاج ہے۔ چھوٹا سا مسئلہ ہوتا ہے، ہم طوفان کھڑا کر لیتے ہیں۔ اگر ایک آدمی اپنی رائے دے رہا ہے اور آپ پر مسلط نہیں کر رہا تو اس کو اپنی رائے کا حق ہے۔ اس کی رائے کا حق آپ کیوں سلب کرتے ہیں؟
سوال: ویسے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے جسے لوگ ڈسکس بھی کرتے ہیں کہ وہ شخصیات یا وہ ذات کہ جس کے بارے میں قرآن مجید نے کہہ دیا رضی اللہ عنہم کہ اللہ ان سے راضی ہے ……
جواب: تعبیر مختلف ہے، لیکن بہرحال تعبیر ہے۔ آپ تعبیر کو موقف قرار دے کر اس پر محاذ آرائی نہیں کریں گے۔ میں آپ کو اپنے گھر کا ماحول بتاتا ہوں۔ میں نے ایک زمانے میں مزارعت کے مسئلے پر امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی حمایت میں جو مفتیٰ بہ قول نہیں ہے چھ قسطوں میں مضمون لکھا تھا، جو کہ ترجمان اسلام میں چھپا۔ میں نے اس میں لکھا کہ امام صاحبؒ کا موقف موجودہ زمانہ کی ضروریات کے حوالہ سے ٹھیک ہے، جبکہ صاحبین کا موقف خطا ہے ۔ والد صاحبؒ نے مجھ سے پوچھا یہ کیا لکھا ہے؟ میں نے کہا میں نے امام صاحب کے موقف کی حمایت کی ہے۔ فرمانے لگے یہ مفتی بہ قول نہیں ہے۔ میں نے کہا مجھے پتہ ہے، میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مفتی بہ قول نہیں ہے۔ فرمایا ٹھیک ہے، بس اتنی بات ہوئی۔ یہ واقعہ میرے ساتھ ہوا ۔ اس کے علاوہ بھی اختلاف کرتا ہوں۔ لیکن اختلاف کو اختلاف تک ہی رکھنا چاہیے۔ میری سب سے درخواست یہ ہے اختلاف کو اختلاف کے دائرے میں رکھیں، اس کا جواب دیں، اختلاف کریں، مگر محاذ آرائی ٹھیک نہیں ہے۔
سوال: وقت بہت ہو گیا ہے، اختتام کی طرف جائیں گے۔ اتنی ساری زندگی گزری ہے، کوئی ایسا یادگار واقعہ جو آپ ذکر کرنا چاہیں، لوگوں کو سنانا چاہیں۔ اپنی زندگی کا کوئی بھی یادگار واقعہ کسی کے حوالے جو اس وقت آپ کو مستحضر ہو، ذہن میں آ رہا ہو۔
جواب: بہت سے واقعات ہیں، میں کس کس کا ذکر کروں۔ ایک اپنے خواب کی تعبیر کا واقعہ ذکر کر دیتا ہوں۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ خواب کی تعبیر کے بھی اپنے دور کے بہت بڑے امام تھے ۔ گوجرانوالہ شیرانوالہ باغ سے باہر گندے پانی کا نالہ ہوتا تھا، اب تو وہ بھر دیا گیا ہے۔ میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ اس گٹر سے وضو کر رہا ہوں۔ بازو دھونے تک پہنچا تو مجھے تردد ہوا کہ میں کہاں وضو کر رہا ہوں۔ تھوڑا تردد ہوا، لیکن میں نے دو تین دفعہ پانی اٹھا کر دیکھا تو پانی بالکل صاف ستھرا تھا۔ لہٰذا میں نے تردد رد کر دیا اور وضو مکمل کیا۔ اس سے کچھ دن بعد میں حضرت والد صاحبؒ سے ملنے کے لیے گیا تو ان سے خواب ذکر کیا اور میں نے بات چھپانا چاہی تو کہا کہ حضرت! کسی نے یہ خواب دیکھا ہے، اس کی تعبیر بتا دیں۔ فرمانے لگے کس نے دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی میں نے ہی دیکھا ہے۔ فرمایا تم بہت غلط جگہ پر بیٹھ کر بہت اچھا کام کرو گے۔ اس کے بعد میرے امریکہ، برطانیہ کے دورے شروع ہوئے ہیں۔ اس لیے میں اب مطمئن ہوں کہ جو کچھ کرتا ہوں ٹھیک ہی کرتا ہوں۔
سوال: نوجوان نسل کو کوئی پیغام دینا چاہیں تو کیمرے میں مخاطب کر کے ان کو دیں۔
جواب: میں عرض کروں گا بالخصوص علماء کرام سے کہ دین کی بات کرنا ہماری ذمہ داری ہے، لیکن دین کی بات لوگوں کی فریکونسی پر اور ان کی سماجی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے لہجے میں، ان کی سطح پر بات کریں اور کسی ایسے انداز سے بات نہ کریں کہ کنفیوژن کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں۔
بہت شکریہ مولانا زاہد الراشدی صاحب!
ناظرین! یہ پوڈ کاسٹ بہت دلچسپ رہی ۔ ہم نے اکابر کی سوانح کو کتابوں میں تو بہت پڑھا ہے، لیکن جب ایسے آمنے سامنے سننے کا اور سوال کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ میں نے یہاں بیٹھ کر اس پوری پوڈ کاسٹ کو بہت محظوظ کیا ہے، میں اس سے بہت محظوظ ہوا ہوں۔ یہ وہ یادیں اور تحریکات ہیں جن کا میں نے اور آپ نے تذکرہ سنا اس وقت ہماری پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی یا ہم بہت چھوٹے تھے۔ جب ہم یہ باتیں سنتے ہیں تو ہمارے ایمان کا لیول بڑھتا ہے، جذبہ بڑھتا ہے، دین کی اہمیت بڑھتی ہے، بہت ساری چیزیں کہ ہمارے اکابر اور ہمارے بڑے ایسے تھے۔ آج انہی سب باتوں کا ہم نے دوبارہ سے مذاکرہ کیا ہے اور ان کا تکرار کیا ہے اور آج پھر ایمان کو تازگی نصیب ہوئی ہے ۔ اب تک کے لیے اتنا ہی۔ اپنے میزبان عامر عثمانی کو اجازت دیجیے۔