میڈیا کا مثبت کردار

   
۱۴ مارچ ۲۰۱۳ء

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا شعبہ ”دعوۃ اکیڈیمی“ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے لیے طویل عرصے سے سرگرم عمل ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اور ڈاکٹر خالد علویؒ جیسے ممتاز اہلِ علم اپنے اپنے دور میں اس کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دے چکے ہیں۔ آج کل صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمٰن اس ذمہ داری کو بحسنِ و خوبی سنبھالے ہوئے ہیں۔ مجھے وقتاً فوقتاً دعوۃ اکیڈیمی کی سرگرمیوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے اور کام کا ذوق اور محنت دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران دعوة اکیڈمی نے لاہور کے عامر ہوٹل میں میڈیا کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا، جو کم و بیش پانچ روز جاری رہی۔ ۵ مارچ کو اس کی ایک نشست میں ”استحکامِ پاکستان میں میڈیا کا کردار“ کے موضوع پر کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، جن کا خلاصہ نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مجھے پاکستان کے استحکام کے لیے میڈیا کے کردار کے حوالے سے معروضات پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے، اس موضوع کے مختلف پہلوؤں میں سے دو نکات پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا:

  1. پاکستان کے استحکام کو درپیش چیلنج کیا ہیں؟
  2. اور حالات کے موجودہ تناظر میں میڈیا کو کیا کرنا چاہیے؟

جہاں تک پاکستان کے استحکام کے حوالے سے درپیش مسائل کا تعلق ہے، میرے خیال میں اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کا الگ نظریاتی تشخص اور تہذیبی شناخت عالمی حلقوں کو ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی اور اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے پیچھے یہی وجہ کار فرما ہے:

  • پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا یا اسلام کے نام پر بنا تھا؟
  • اس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ تھا یا محض تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی حفاظت کا جذبہ اس کے قیام کا باعث بنا؟
  • ہندوؤں کی معاشی بالادستی کے خوف نے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کی راہ ہموار کی یا اکثریت کے حوالے سے ہندوؤں کی جمہوری اور سیاسی برتری نے مسلمانوں کو الگ ملک کے لیے سوچنے پر مجبور کیا؟

میں اس وقت ان سوالات کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، البتہ یہ ضرور عرض کروں گا کہ ان میں سے جس سوال کو بھی سامنے رکھیں یا جس زاویے سے بھی بات کریں، اسلام ان سب سوالات کے پس منظر میں صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے اور کسی بھی حوالے سے پاکستان کے قیام کو اسلام سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔ یہی بات عالمی سیکولر حلقوں کو ہضم نہیں ہو رہی، جس کا اظہار مختلف حوالوں سے مسلسل ہو رہا ہے اور اس اظہار کی شدت میں بتدریج اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان کے اس تشخص و امتیاز کو قبول نہ کرنے والے اس معروضی حقیقت کی پروا بھی نہیں کر رہے کہ پاکستانی قوم نے اپنے ملک کے اسلامی تشخص اور نظریاتی شناخت کے دستوری اور قانونی اظہار کے لیے ہمیشہ سیاسی عمل اور جمہوری ذرائع کو اختیار کیا ہے اور اس سلسلے میں جتنے فیصلے بھی ہوتے ہیں، ووٹ اور رائے عامہ کی قوت کے ذریعے ہوتے ہیں۔ قراردادِ مقاصد، دستور کی اسلامی دفعات، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور ناموس رسالت کے تحفظ کے تمام قانونی فیصلے منتخب پارلیمنٹ کے فورم پر ہوئے ہیں اور عوام کے براہ راست منتخب نمائندوں نے جمہوری اصولوں کے مطابق یہ فیصلے کیے ہیں، لیکن اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور امریکی وزارت خارجہ سمیت بہت سے عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان کی منتخب اسمبلیوں کے ان جمہوری فیصلوں کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے اور ان فیصلوں کو ختم کرانے کے لیے ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری مہم یکے بعد دیگرے سامنے آتی رہتی ہے۔

اس لیے میں پورے شرح صدر کے ساتھ عرض کروں گا کہ پاکستان کے استحکام کو درپیش مسائل کی اصل جڑ یہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور الگ ثقافتی شناخت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا اور اسے ختم یا کمزور کرنے کے لیے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور غیر مستحکم رکھنے کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ان کارروائیوں میں قومیتوں کے حوالے سے تفریق کو ہوا دینا بھی شامل ہے، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ابھارنا بھی ان کا حصہ ہے، مذہبی فرقہ واریت کو تشدد کے راستے پر لے جانے کا ہدف بھی یہی ہے اور دینی مدارس اور مذہبی حلقوں کی کردار کشی بھی اسی لیے کی جا رہی ہے۔

اس کے ساتھ میں اس بات کو بھی عدمِ استحکام کا ایک اہم باعث سمجھتا ہوں کہ نفاذِ اسلام کے سلسلے میں منتخب اسمبلیوں کے جمہوری فیصلوں کو مسلسل نظر انداز کرنے پر اس کے رد عمل میں ہتھیار اٹھانے اور عسکری جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا گیا، وہ بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور عالمی منظر میں اس کا امیج خراب کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے کی کسی صورت میں حمایت نہیں کی جا سکتی، لیکن منتخب پارلیمنٹ کے جمہوری فیصلوں کو مسلسل مسترد کرتے چلے جانے کے رویے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اسی کے رد عمل نے تشدد اور عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہے۔

اس تناظر میں میڈیا کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے، اس کے بارے میں چند اصولی باتیں گوشگزار کرنا چاہتا ہوں:

  1. ایک یہ کہ میڈیا کے کسی شعبے میں کام کرنے والے کو اس بات کا جائزہ ضرور لے لینا چاہیے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے یا ملک کو غیر مستحکم کرنے کے کسی عمل کو تقویت دے رہا ہے؟ ایسا کوئی طرز عمل جو ملک و قوم کے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بن رہا ہو، اس سے بچنا ہی میڈیا کا صحیح کردار قرار پا سکتا ہے۔ قرآن و سنت میں بھی اس حوالے سے یہی رہنمائی کی گئی، مثلاً سورة الحجرات میں قرآن کریم نے کسی بھی خبر کو نشر کرنے سے قبل یہ چیک کر لینے کی ہدایت کی ہے کہ وہ خبر درست ہے یا نہیں؟ اور کہا ہے کہ پہلے خبر کی تحقیق کر لو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم بے خبری میں قوم کے خلاف کارروائی کر ڈالو اور بعد میں تمہیں ندامت اور شرمساری کا سامنا کرنا پڑے۔
  2. پھر خبر کا صرف صحیح ہونا کافی نہیں، بلکہ اس کے نشر کرنے سے قبل اس بات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اگر خبر کے منفی اثرات کا خدشہ ہو تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ اسے روک لیا جائے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادو کر دیا، جس کے اثرات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوئے۔ وہ جادو پکڑا گیا، جادو کرنے والا ٹریس ہو گیا، جن چیزوں پر جادو کیا گیا تھا وہ برآمد ہو گئیں، مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعلان نہیں کیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے خبر کو عام نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اس شر سے بچا لیا ہے تو میں اس خبر کو عام کر کے سوسائٹی میں شر کو کیوں پھیلاؤں؟
  3. اس کا مطلب یہ ہے کہ نشر کرنے کے لیے خبر کا صرف صحیح ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ معاشرے پر اس خبر کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور اگر منفی اثرات کا خدشہ ہو تو اس خبر کو روک لینا سنت نبویؐ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم آج کے دور میں خبر اور تبصرہ دونوں حوالوں سے اس اصول کو سامنے رکھ لیں تو ایسی بہت سی باتوں سے بچا جا سکتا ہے، جو ملک کے استحکام کے لیے نقصان دہ بن جاتی ہیں۔

  4. اس کے ساتھ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اور ارشاد کا حوالہ دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے سفر میں مختلف لوگوں کو دیے جانے والے عذاب کے جو مناظر دکھائے گئے، ان میں سے ایک منظر یہ تھا کہ ایک صاحب کی باچھیں خنجر سے بار بار کانوں کی لو تک چیری جا رہی ہیں۔ پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ وہ شخص ہے جو جھوٹ گھڑتا تھا اور اس کا جھوٹ لمحوں میں دنیا کے کناروں تک پھیل جاتا تھا۔

جھوٹ گھڑ کر لمحوں میں دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بات اب سے ایک صدی قبل شاید لوگوں کو سمجھ نہ آتی ہو، مگر آج تو ہمارے سامنے یہی کچھ ہو رہا ہے اور ہم ہر روز اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ اگر ہم اس حوالے سے اسلامی اصولوں کی پیروی کو اختیار کر لیں تو ملک کے عدمِ استحکام کے بہت سے اسباب کو روکا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter