بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پروگرام کے مطابق آج ہماری اس سال کی آخری نشست ہے۔ اس سال ان فکری نشستوں کا موضوع” یادداشتیں “ تھا۔ مختلف تحریکات، اسفار اور مصروفیات کے بارے میں اپنی یادداشتیں اور معلومات بیان کر رہا تھا ریکارڈ بھی ہو رہی ہیں۔ آج مولانا محمد عبد اللہ راتھر نے فرمایا کہ ان یادداشتوں میں امریکہ کی کوئی بات نہیں ہے، حالانکہ امریکہ کے میرے درجنوں سفر ہوئے ہیں اور یادگار سفر ہیں اور بڑی یادیں وابستہ ہیں ، لیکن آدھ پون گھنٹے کی نشست میں تو سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتا کہ میں پہلے سفر کی کچھ باتیں عرض کر دوں۔
میرا امریکہ کا پہلا سفر ۱۹۸۷ء میں ہوا تھا۔ سفر کے محرک حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری دامت برکاتہم تھے، جو میرے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند اور جانشین ہیں۔ جب ۱۹۸۴ء میں قادیانیوں کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسلام کا نام استعمال کرنے سے روک دیا گیا اور یہ قانون نافذ ہوا کہ قادیانی اپنے مذہب کے لیے اسلام کا نام استعمال نہیں کر سکیں گے ،اسلام کے شعائر اور اصطلاحات استعمال نہیں کر سکیں گے، تو اس پر قادیانیوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور یہاں سے اپنا ہیڈ کوارٹر لندن منتقل کر لیا۔ لندن منتقل ہونے کے بعد برطانیہ کی کانفرنس کا ذکر میں کر چکا ہوں کہ وہ کس ماحول میں ہوئی تھی۔ لیکن قادیانیوں نے اس صدارتی آرڈیننس کو، جو بعد میں پارلیمنٹ کی منظوری سے ملک کا باضابطہ قانون بنا اور ” امتناعِ قادیانیت کا قانون‘‘ کہلاتا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا کہ ہمارے شہری اور انسانی حقوق پامال ہو گئے ہیں اور ہمیں شہری آزادیاں میسر نہیں ہیں۔ لندن میں ہیڈ کوارٹر منتقل کرنے کے بعد قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے اقوام متحدہ میں درخواست دی کہ پاکستان میں ہمارے انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور مذہبی حقوق غصب کر لیے گئے ہیں، ہماری دادرسی کی جائے۔
اقوام متحدہ کا نظام یہ ہے کہ باقاعدہ بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن ہے جس کا ہیڈ کوارٹر جنیوا میں ہے۔ وہاں شکایات ہوتی ہیں ، وہ اس کی سماعت کرتے ہیں اور اس پر رائے دیتے ہیں کہ یہ شکایت درست ہے یا نہیں ہے۔ یہ ان کا باقاعدہ ایک نظم ہے، انسانی حقوق کے چارٹر میں کچھ قوانین ہیں وہ خود بھی واچ کرتے رہتے ہیں اور اگر کسی ملک سے شکایت آئے کہ ہمارے وہ حقوق جو اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ ہیں پامال ہو رہے ہیں، ہماری آزادیاں سلب ہو رہی ہیں تو جنیوا کے ہیومن رائٹس کمیشن میں اس کیس کی باقاعدہ سماعت کی جاتی ہے۔ مرزا طاہر احمد نے جنیوا کے ہیومن رائٹس کمیشن میں درخواست دائر کی کہ ہمارے شہری اور انسانی حقوق پامال ہو گئے ہے، ہمارے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہو رہی ہے، ہماری دادرسی کی جائے۔
طریقہ کار یہ ہے کہ جس ملک کے خلاف شکایت آتی ہے ، اس ملک کا سفیر جنیوا میں اپنے ملک کی طرف سے پیش ہوتا ہے۔ وہ بلاتے ہیں کہ آپ کے خلاف یہ شکایت آئی ہے، صفائی پیش کرو۔ یہ شکایت پاکستان کے خلاف تھی تو پاکستان کے سفیر نے پیش ہونا تھا اور پاکستان کی صفائی دینی تھی۔ اتفاق کی بات تھی یا یہ اتفاق پیدا کر لیا گیا تھا کہ اس وقت جنیوا میں پاکستان کے سفیر مسٹر منصور احمد قادیانی تھے۔ یہ پلاننگ کا حصہ تھا یا اتفاق کی بات تھی لیکن بہرحال یہ امر واقعہ ہے کہ جس وقت حکومت پاکستان کے خلاف قادیانیوں نے جنیوا انسانی حقوق کمیشن میں درخواست دی ہے، اس وقت پاکستان کا دفاع کرنے کے لیے جو وہاں سفیر تھے وہ منصور احمد قادیانی تھے۔ ہمیں یہاں معلوم ہوا ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل سید ریاض گیلانی ہمارے دوست تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہاں یہ ہو رہا ہے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور میں نے بھاگ دوڑ کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ، وزیر قانون اور وزیر مذہبی امور راجہ ظفر الحق سے بات کی کہ جب درخواست قادیانی دے رہا ہے اور جواب بھی قادیانی دے رہا ہے تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔ اس لیے فوری طور پر اس کا حل نکالنا چاہیے۔ ہماری تجویز یہ تھی کہ اس کیس کی پیروی کرنے کیلئے پاکستان سے باقاعدہ وفد جانا چاہیے۔ سب نے ہمارے اس موقف سے اتفاق کیا کہ ٹھیک ہے ، اصولی بات ہے کہ علماء اور وکلاء کا ایک وفد جانا چاہیے جو پاکستان کے کیس کی وکالت کرے اور دفاع کرے۔ لیکن ہمارے ہاں فائل ورک میں اتنے دن گزر گئے کہ جنیوا حقوق کمیشن نے درخواست قبول کر لی اور فیصلہ دے دیا کہ پاکستان میں فی الواقع احمدیوں کے انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور مذہبی حقوق مجروح ہو گئے ہیں، ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، حکومت پاکستان ظالم ہے، احمدی مظلوم ہیں۔ ہم یہاں فائل ورک کرتے رہے ادھر ہیومن رائٹس کمیشن نے فیصلہ صادر کر دیا۔
جب یہ فیصلہ ہو گیا تو مرزا طاہر احمد یہ فیصلہ امریکہ لے کر گئے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر ہے، وہاں لابنگ کے لیے گئے تاکہ اقوام متحدہ حرکت میں آئے اور امریکی کانگریس جو بڑی قوت ہے وہی فیصلے کرتی ہے اور وہی سب پر حاوی ہے۔ اس میں لابنگ شروع کر دی۔ جنیوا ہیومن رائٹس کا یہ فیصلہ ان کے پاس بہت مضبوط ہتھیار تھا کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے ، ہمارے شہری حقوق پامال کر دیے گئے ہیں، اس لیے امریکہ اور اقوام متحدہ ہماری سپورٹ کریں اور ہمیں اس ظلم سے نجات دلائیں۔ ۱۹۸۵ء تا ۱۹۸۷ء دو تین سال اس عمل میں لگ گئے۔
حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری نے ایک دن مجھے کہا کہ وہاں قادیانی لابنگ کر رہے ہیں، پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف پوری دنیا میں مہم چل رہی ہے تو ہم بھی چل کر کوشش کرتے ہیں۔ میاں صاحب الحمد للہ بہت اچھے انگلش کے خطیب اور مقرر ہیں، ان کی انگلش بہت اچھی ہے اور میرے بارے میں یہ تاثر ہے کہ قادیانیت کو جانتا ہے اور قادیانیوں کے ہتھکنڈے سمجھتا ہے۔ میاں صاحب نے کہا کہ چلیں، دونوں مل کر وہاں کچھ کوشش کریں گے۔ میں نے کہا میں تیار ہوں۔ سفر کا سارا خرچہ میاں صاحب نے برداشت کیا۔ ویزا، ٹکٹ وغیرہ سب انہوں نے لگوایا، میرا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ میاں صاحب نے سارے مراحل مکمل کیے اور ہم تقریباً ایک مہینے کا ارادہ لے کر نیویارک چلے گئے کہ وہاں جا کر محنت کے راستے تلاش کریں گے، کانگریس کے ارکان ، صحافیوں اور میڈیا سے گفتگو اور قادیانیوں کے اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے سفر کا اصل مقصد یہ تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو میرے ہم زلف برادرم محمد یونس صاحب اس زمانے میں وہاں نئے نئے گئے تھے ،نیویارک میں بروکلین میں رہتے تھے، ہم نے انہیں اطلاع کر دی ، وہ ہمارے میزبان تھے۔
ہم جس مقصد کیلئے گئے اس کے لیے بڑی کوشش کی۔ ہم نے امریکہ پہلی دفعہ دیکھا تھا ہمیں کیا پتہ تھا کہ امریکہ کیا چیز ہے۔ ہم تو اس جذبے سے گئے تھے کہ جا کر کانگریس کے ارکان سے ملیں گے، یہ کریں گے وہ کریں گے۔ لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ یہ سب کچھ سردست ممکن نہیں ہے، یہاں ان سے ملاقات کے لیے، میڈیا اور لابنگ کے لیے پانچ چھ مہینے پہلے لابنگ کرنا پڑتی ہے، وقت لینا پڑتا ہے، پھر اس کے مطابق پیپر ورک کرنا پڑتا ہے، ہوم ورک کرنا پڑتا ہے۔ اتنی آسان بات نہیں ہے کہ میں جا کر گھنٹی بجاؤں ، کوئی باہر آئے اور میں اسے کہوں کہ میں نے آپ سے باتیں کرنی ہیں۔ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ہمیں وہاں جا کر اندازہ ہو گیا کہ ہم بغیر پلاننگ کے آئے ہیں۔ جیسا ہمارا ہمیشہ معمول ہے، ہم علماء کرام ہر کام بغیر پلاننگ کے کرتے ہیں اور نتیجہ بھی وہی ہوتا ہے۔ وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ ہم کسی بھی قسم کی تیاری کے بغیر آگئے ہیں۔
لیکن وہاں چلے ہی گئے تھے تو اب کیا کرتے۔ دوستوں سے مشورہ کیا۔ نیویارک میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی بروکلین میں ہے۔ وہاں مکی مسجد ہمارا سب سے بڑا مرکز ہے ، جہاں آزاد کشمیر کے مولانا حافظ محمد صابر صاحب امام و خطیب تھے، اب بھی وہیں ہیں، جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں پڑھتے رہے ہیں اور اچھے خطیب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں اب اور تو کچھ نہیں ہو سکتا ، البتہ میں یہ کر سکتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے قادیانیت کے تعارف کے لیے مکی مسجد میں ایک کورس کا اہتمام کر دیتا ہوں۔ کم از کم یہاں کے مسلمانوں کو قادیانیت کے بارے میں کچھ بتائیں تو سہی۔ یہ کام ہو سکتا ہے، اس کے سوا سردست کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے جو ہو سکتا ہے وہی کریں۔ الحمد للہ میں نے مکی مسجد بروکلین میں مسلسل دو ہفتے قادیانیت کے حوالے سے ایک تعارفی کورس کروایا ،جس میں وہاں کے علماء ، عام مسلمانوں اور پڑھے لکھے دوستوں کو قادیانیت کے تعارف کے ساتھ ساتھ یہ بتایا کہ یہ مسئلہ ہے اور یہ زیادتی ہوئی ہے۔
یہ میرا امریکہ کا پہلا سفر تھا۔ اس دوران مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ایک الگ داستان ہے، لیکن ایک ملاقات میں یہاں ضرور بیان کرنا چاہوں گا، جس کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی بڑی شہرت اور تشہیر ہوئی ہے۔
بعض صحافی بھی اس معاملے میں متحرک تھے۔ ان کا یہ بھی ایک میدان تھا۔ ایک یہودی جرنلسٹ سے نیویارک میں میری ملاقات ہوئی۔ انہیں کسی نے بتایا تھا کہ پاکستان سے ایک مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں ، جن کا ختم نبوت کی تحریک سے تعلق ہے اور وہ قادیانیت کے بڑے مخالفین میں سے ہیں۔ وہ یہودی صحافی قادیانیوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ میرے ساتھ ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ وہ میرے پاس تشریف لائے، درمیان میں ترجمان تھا، کیونکہ مجھے تو انگریزی نہیں آتی۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ احمدیوں کو مسلمان کیوں نہیں مانتے؟ میں نے کہا آپ کو انہیں مسلمان منوانے میں کیا دلچسپی ہے؟ ہم انہیں مسلمان نہیں مانتے تو نہیں مانتے، آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگے یہ زیادتی ہے۔ میں نے کہا کیسے؟ انہوں نے کہا آپ اپنے آپ کو چھوڑیں، دنیا کسے مسلمان کہتی ہے؟ جو آدمی اللہ، محمد صاحب اور قرآن کو مانتا ہے وہ دنیا کی نظر میں مسلمان ہے، جب احمدی بھی اللہ، محمد اور قرآن کو مانتے ہیں تو وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ ان کی یہ بات غلط نہیں ہے کہ دنیا والے اسی کو مسلمان سمجھتے ہیں جو اللہ، محمدؐ اور قرآن کو مانتا ہے۔ یہ ان کا کامن سینس کا سوال تھا کہ جب احمدی قرآن کو مانتے ہیں، اللہ کو، محمد رسول اللہ کو اور بیت اللہ کو مانتے ہیں تو آپ کے نزدیک وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کو ماننا ضروری تو ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اس کے بعد کسی اور کو نبی نہ ماننا بھی ضروری ہے۔
میں نے اس سے مثال کے طور پر بات کی کہ آپ اس لیے یہودی کہلاتے ہیں کہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور تورات کو مانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی حضرت موسٰیؑ اور تورات کو مانتا ہوں، جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں ویسے ہی حضرت موسٰیؑ پر ایمان رکھتا ہوں، جیسے قرآن کو اللہ کی سچی کتاب مانتا ہوں تورات کو بھی مانتا ہوں۔ تو کیا اگر میں خدانخواستہ کہیں دعویٰ کروں کہ مجھے یہودی مانیں تو آپ مجھے یہودی تسلیم کریں گے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے کہا کیونکہ آپ موسیٰ اور تورات کے بعد ایک نیا نبی اور نئی وحی مانتے ہیں، اس لیے آپ کو یہودی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
پھر میں نے سوال کیا کہ مسیحی کیوں عیسائی کہلاتے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو مانتے ہیں اس لیے عیسائی ہیں۔ میں نے کہا میں بھی انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو مانتا ہوں، بلکہ ہم مسلمان عیسائیوں سے بڑھ کر انہیں مانتے ہیں، تو اگر خدانخواستہ دنیا کے کسی فورم پر میں دعویٰ کروں کہ مجھے عیسائی تسلیم کیا جائے تو کیا تسلیم کر لیا جائے گا؟ اس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ تو اس نے کہا کہ آپ حضرت عیسٰیؑ اور انجیل کو تو مانتے ہیں، لیکن چونکہ ان کے بعد حضرت محمدؐ کو اور قرآن مجید کو بھی مانتے ہیں اس لیے آپ عیسائی کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔
میں نے کہا اگر ایک عیسائی دعویٰ کرتا ہے کہ میں چونکہ موسیٰؑ اور تورات کو مانتا ہوں اس لیے مجھے یہودی مانا جائے تو اسے یہودی مانو گے؟ کہنے لگا نہیں! میں نے کہا کیوں؟ پھر میں نے اسے کہا کہ خدا کے بندے! موسیٰ علیہ السلام اور تورات کو ماننا یہودی ہونے کے لیے ضروری ہے، لیکن کافی نہیں ہے بلکہ بعد میں کسی اور کو نہ ماننا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل کو ماننا عیسائی ہونے کے لیے کافی نہیں ہے، بعد میں کسی اور کی نفی کرنا بھی ضروری ہے، بالکل اسی طرح قرآن پاک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں ہے، بعد والوں کی نفی کرنا بھی ضروری ہے۔
میں نے کہا جس طرح ایک عیسائی تورات اور حضرت موسیٰؑ کو ماننے کے باوجود یہودی نہیں ہے، اس لیے کہ وہ الگ نبی اور کتاب مانتا ہے، جس طرح مسلمان تورات اور موسیٰ علیہ السلام، انجیل اور عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے کے باوجود نہ یہودی کہلا سکتا ہے نہ عیسائی کہلا سکتا ہے ، اس لیے کہ وہ الگ نبی اور الگ وحی مانتا ہے، یقیناً ہمیں تورات اور حضرت موسٰیؑ کو ماننے، انجیل اور حضرت عیسٰیؑ کو ماننے کے باوجود یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں، کیونکہ ہم اس کے بعد نیا نبی اور نئی وحی تسلیم کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح احمدی قرآن کو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہوں گے، لیکن اسی بنیاد پر کہ چونکہ وہ قرآن مجید کے بعد اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی وحی اور نیا نبی مانتے ہیں اس لیے وہ مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ جس دلیل پر میں عیسائی نہیں ہوں، اسی دلیل پر قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ جس دلیل پر میں یہودی کہلانے کا حقدار نہیں ہوں، اسی دلیل پر قادیانی مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں۔ وہ جب تک نئی نبوت سے دستبردار نہیں ہوں گے اور نئی وحی سے براءت کا اعلان نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں قطعاً مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر وہ کہنے لگا انڈر سٹینڈ بات سمجھ آ گئی ہے۔
اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ ٹھیک ہے، سمجھ آ گئی ہے کہ آپ انہیں مسلمان کیوں نہیں مانتے۔ لیکن انسان ہونے کے ناطے ان کے شہری حقوق اور انسانی حقوق ہیں اور انہیں مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ آپ انہیں مذہب کا نام نہیں لینے دیتے ، مسجد نہیں بنانے دیتے۔ یہ نہیں کرنے دیتے، وہ نہیں کرنے دیتے۔ ان کے حقوق تو ہیں، ان پر آپ نے کیوں قدغن لگا رکھی ہے؟ میں نے کہا ان کے حقوق ہم بالکل تسلیم کرتے ہیں ،لیکن ان کے حقوق بطور مسلم کے ہیں یا ایک نئے مذہب کے پیروکار کے طور پر ہیں؟ کہتا ہے کہ نئے مذہب کے پیروکار کے طور پر ہیں۔ میں نے کہا جھگڑا یہی ہے۔ ہم انہیں کہتے ہیں کہ اپنا ٹائٹل تسلیم کرو کہ تم مسلمان نہیں ہو، جس طرح ہمارے ملک میں عیسائی، سکھ اور دوسری غیر مسلم اقلیتیں رہتی ہیں تم بھی رہو۔ غیر مسلم اقلیت کے طور پر جو حقوق عیسائیوں کے ہیں تمہارے بھی ہیں، لیکن تم مسلمان نہ ہو کر مسلمانوں والے ٹائٹل کے ساتھ حقوق مانگو یہ نہیں ہو گا۔
میں نے کہا جھگڑا حقوق کا نہیں ہے، جھگڑا ٹائٹل کا ہے۔ ہم قادیانیوں سے کہتے ہیں کہ اپنا ٹائٹل اور سٹیٹس تسلیم کرو۔ ہم نے دستور میں تمہارا سٹیٹس طے کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں عیسائی رہتے ہیں، نہ انہیں کوئی اعتراض ہے نہ ہمیں، سکھ رہتے ہیں نہ انہیں کوئی اعتراض ہے نہ ہمیں، پاکستان میں ہندو رہتے ہیں نہ انہیں کوئی اعتراض ہے نہ ہمیں۔ احمدیوں پر ہمیں کیوں اعتراض ہے؟ صرف اس لیے کہ ہم کہتے ہیں کہ قادیانی اپنا ٹائٹل تسلیم کریں، اس ٹائٹل کے تحت جو حق ان کا بنتا ہے وہ ہم مانیں گے اور دینے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمارے ٹائٹل کے ساتھ حق مانگنے والے کون ہوتے ہیں؟ وہ اپنا ٹائٹل اور اپنا اسٹیٹس تسلیم کریں ، اس کے تحت حقوق کا مطالبہ کریں اور ملک میں رہیں، لیکن ہمارے ٹائٹل کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
میں نے اس سلسلہ میں ایک مثال دی کہ مثلاً سو سال سے ایک پرانی کمپنی چلی آ رہی ہے، جس کی ساکھ مارکیٹ میں قائم ہے، اس کا تعارف اور ایک بھرم ہے، اس کا مونوگرام، ٹریڈ مارک اور اسٹیمپ ہے۔ اس سو سال پرانی فرم میں سے چند آدمی نکل کر نئی فرم بنانا چاہیں تو بنا لیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس نئی فرم کو پرانی کمپنی کا نام استعمال کرنے کا حق نہیں ہے، اس کا ٹائٹل، ٹریڈ مارک، مونوگرام، اسٹیمپ اور لیٹر ہیڈ استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر نئی فرم پرانی فرم کی شناخت استعمال کرے گی تو اس کو قانون کی زبان میں فراڈ کہتے ہیں۔ قادیانی ہمارے نام پر حقوق کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ یہی جھگڑا ہے ہم کہتے ہیں کہ جب ان کی کمپنی نئی ہے تو اپنی کمپنی کو نیا نام دیں اور اس کے تحت حقوق کا مطالبہ کریں۔ ہمارا سیدھا سا مطالبہ ہے کہ اپنا سودا اپنے نام سے بیچیں، ہمارے نام سے بیچنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسلام چودہ سو سال سے چلا آ رہا ہے، اس کی ایک ساکھ ہے۔ مسجد اس کی علامت ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں مسجد ہوگی تو وہ مسلمانوں کی سمجھی جائے گی۔ نماز، ام المومنین ، امیر المؤمنین ہماری اصطلاحات ہیں۔ قادیانی ہماری اصطلاحات، ہماری ٹرمز، ہمارا مونوگرام، ہمارا ٹریڈ مارک چھوڑ دیں، نام نیا استعمال کریں، نئی اصلاحات استعمال کریں تو کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اس نے کہا بات سمجھ آ گئی ہے۔
پھر میں نے کہا دو سوال آپ نے کیے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا موقف آپ کو سمجھ آ گیا ہے۔ اب ایک سوال میرا بھی ہے کہ میرا ایک نام ہے، میری ساکھ ہے، میرا تعارف ہے، لوگ مجھے ایک نام اور ایک کام سے پہچانتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی کھڑا ہو کر میرا نام لے کر اپنا کام شروع کر دے تو یہ کیا ہے؟ اس کو دنیا کیا کہے گی؟ کہنے لگا یہ فراڈ ہے۔ اس پر میرے ساتھ ایک لطیفہ بھی ہو چکا ہے۔ پرانی بات ہے، میں دنیا بھر میں زاہد الراشدی کے نام سے متعارف ہوں۔ ایک اور صاحب تھے جو زاہد الراشدی کہلاتے تھے۔ پتہ نہیں کیوں کہلاتے تھے۔ میں ان دنوں لندن میں تھا کہ اچانک انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کی اور شیعہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اخبارات میں خبر چھپی کہ علامہ زاہد الراشدی نے شیعہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ میں لندن میں تھا مجھے کچھ خبر نہیں تھی۔ باقی اخبارات نے تو گول مول کی، البتہ نوائے وقت نے انصاف کیا کہ اس نے خبر لکھی کہ یہ وہ مولانا زاہد الراشدی نہیں ہیں جو پاکستان قومی اتحاد کے لیڈر تھے۔ لوگ اکٹھے ہو گئے، ایک کہرام مچ گیا، میں نے بڑی مشکل سے صفائی دی کہ میں وہ نہیں ہوں، میں لندن میں بیٹھا ہوں ، میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہے۔
میں نے اس یہودی جرنلسٹ سے کہا کہ میری کمپنی کا نام لے کر میرے ٹریڈ مارک کے ساتھ کوئی کمپنی کام شروع کر دے تو دنیا کی نظر میں وہ کیا کہلائے گا؟ کہنے لگا سراسر فراڈ ہے۔ میں نے کہا میں تم مغرب والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم نے زیادتی زیادتی کی تسبیح پکڑی ہوئی ہے اور قادیانیوں کی حمایت کر رہے ہو، اگر کوئی آدمی میرا نام لے کر مارکیٹ میں گیا ہے اور میرے نام سے اپنا سودا بیچ رہا ہے۔ میں شور مچاتا ہوں کہ یہ میرا نام غلط استعمال کر رہا ہے تو زیادتی کا مرتکب وہ ہے یا میں ہوں؟ کہنے لگا وہ زیادتی کر رہا ہے۔ میں نے کہا تم کس کا ساتھ دے رہے ہو؟ جب یہ زیادتی ہم نہیں کر رہے بلکہ ہم مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کہ احمدی ہمارا نام اور اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں تو آپ قادیانیوں کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں؟ جو زیادتی کر رہا ہے آپ اسے مظلوم بنا کر اور ہمیں ظالم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ کیا آپ اس بات کو سمجھنے کے بعد اپنے طرز عمل میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں؟ یہ میرا سوال ہے۔ کیا تم کل کا کالم میرے حق میں لکھو گے؟ کیا آئندہ میرے حق میں کوئی رپورٹ کرو گے؟ کہنے لگا نہیں! میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا کہ اخبار کی پالیسی پر چلنا ہوتا ہے۔
آخر میں ایک سوال اس نے مجھ سے کیا جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے کہا مولوی صاحب! آپ اپنا کیس اس عمدگی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ، آپ انگریزی کیوں نہیں جانتے؟ کہنے لگا آپ نے جس طریقے سے اپنا کیس میرے سامنے پیش کیا ہے، اگر آپ کو انگریزی آتی ہوتی اور یہاں کے دو چار فورمز میں چلے جاتے تو کایا پلٹ جاتی۔ میں نے کہا میں نے انگریزی نہیں پڑھی اور اب بڑھاپے میں پڑھ بھی نہیں سکتا۔
بہرحال آج کی نشست میں امریکہ کے پہلے سفر کی تھوڑی سی جھلک عرض کی ہے۔ بہت لمبی تفصیلات ہیں، کبھی موقع ملا تو اس پر باتیں ہوں گی، ان شاء اللہ العزیز۔