مسیلمہ کذاب کا دعوائے نبوت

   
مرکزی جامع مسجد، شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
۱۵ جنوری ۲۰۱۶ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کچھ عرصہ سے جمعۃ المبارک کے بیان میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے کسی نہ کسی پہلو پر گفتگو چل رہی ہے، آج سیرت مبارکہ کے اس پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا تھا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں چار اشخاص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ ان پر وحی آتی ہے، ان میں سے تین مرد تھے (۱) یمامہ کا مسیلمہ کذاب (۲) یمن کا اسود عنسی (۳) بنو اسد کا طلیحہ بن خویلد اور (۴) ایک خاتون تھی سجاح جس کا تعلق بنو تغلب سے تھا اور اس نے غالباً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔

ان میں سے اسود عنسی اور طلیحہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی بات کرنے کی بجائے ان کے مقابلہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا:

  • چنانچہ طلیحہ نے باقاعدہ جنگ لڑی تھی جس میں مسلمانوں کے لشکر کے کمانڈر حضرت ضرار بن ازورؓ تھے اور اسی جنگ میں حضرت عکاشہ بن محصن فزاریؓ خود طلیحہ کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے تھے، جبکہ طلیحہ اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔
  • اسود عنسی نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا، جسے حضرت فیروز دیلمیؓ نے ایک گوریلا کاروائی میں موت کے گھاٹ اتار کر یمن پر مسلمانوں کے اقتدار کو پھر سے بحال کر دیا تھا۔

البتہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر نہیں کیا تھا بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ تسلیم کر کے وہ ان کی پیروی میں اپنے لیے بھی نبوت و وحی کی بات کرتا تھا۔ وہ اپنے ماننے والوں سے پہلے ”محمد رسول اللہ“ کا اقرار کرواتا تھا اور پھر کہتا تھا کہ مجھے بھی رسول اللہ تسلیم کرو، حتیٰ کہ ان لوگوں کی اذان کی ترتیب بھی یہی تھی کہ پہلے ”محمد رسول اللہ“ اور پھر (نعوذ باللہ) ”مسیلمۃ رسول اللہ“ کا اعلان کیا جاتا تھا۔

عقیدۂ ختم نبوت پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے صحابی حضرت حبیب بن زید انصاریؓ ہیں جو عقیدہ ختم نبوت کے شہیدِ اول ہیں، انہیں مسیلمہ نے شہید کرایا تھا۔ اور محدثین نے ان کی شہادت کا جو واقعہ بیان کیا ہے اس میں یہ تفصیل موجود ہے کہ مسیلمہ نے حضرت حبیب بن زیدؓ سے دریافت کیا کہ کیا وہ حضرت محمدؐ کو رسول اللہ مانتے ہیں؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا تو پھر پوچھا کہ کیا وہ اسے یعنی مسیلمہ کو بھی رسول اللہ تسلیم کرتے ہیں؟ انہوں نے جب انکار کیا تو انہیں شہید کر دیا گیا۔

بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ مسیلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”من مسیلمۃ رسول اللّٰہ الی محمد رسول اللّٰہ“ یعنی وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی دے کر اپنے لیے رسالت کی بات کر رہا تھا۔ یہ خط لے کر دو نمائندے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ ”محمد رسول اللہ“ کی شہادت دیتے ہیں؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا تو پھر پوچھا کہ کیا وہ اس کے بعد مسیلمہ کے لیے بھی ”رسول اللہ“ ہونے کی گواہی دیتے ہیں؟ انہوں نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا۔ جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما“ اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ماننے کے بعد کسی اور کے لیے نبوت و رسالت کی بات کرنا ارتداد کہلاتا ہے جس کی سزا قتل ہوتی ہے۔

روایات میں آتا ہے کہ مسیلمہ کذاب اپنے جاسوس مدینہ منورہ بھجوا کر یہ معلوم کیا کرتا تھا کہ مختلف مواقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور طریق کار کیا ہوتا تھا تاکہ وہ اس کی پیروی کر سکے۔ اس سلسلہ میں متعدد واقعات محدثین نے بیان کیے ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ حضرت ملا علی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں کہا ہے کہ ایک کانا شخص مسیلمہ کے پاس گیا اور کہا کہ میرے لیے دعا کرو تاکہ میری خراب آنکھ درست ہو جائے۔ مسیلمہ نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ ایسے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے؟ اس نے کہا کہ ایک بار ایک نابینا شخص کی درخواست پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا تو اس کی دونوں آنکھیں ٹھیک ہو گئی تھیں، یہ معلوم کر کے مسیلمہ نے اس کانے شخص کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو خدا کی قدرت کہ اس کی صحیح آنکھ بھی ضائع ہو گئی، آخر سچے نبی اور جھوٹے نبی میں یہ فرق تو ہوتا ہی ہے۔

میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسیلمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول تسلیم کر کے آپ کی پیروی میں رسول اللہ ہونے کی بات کی تھی۔ حتیٰ کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اپنے خط میں بھی یہی لکھا تھا کہ ”أشرکت معک فی الأمر“ مجھے آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہے، یعنی میں مستقل نبی نہیں بلکہ آپ کا شریک نبی ہوں۔ اور اس کا تقاضہ اتنا ہی تھا کہ اسے کارِ نبوت میں شریک مان لیا جائے۔

بخاری شریف کی روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب ایک بار بڑے وفد کے ساتھ خود مدینہ منورہ آیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے۔ یہاں ایک بات اور بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و فراست کے حوالہ سے دیکھیں کہ مسیلمہ کو ایک بڑا خطیب ہونے کا دعویٰ تھا اور اپنی خطابت پر بہت ناز تھا اس لیے اس کے ساتھ مذاکرات کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت ثابت بن قیسؓ کو لے کر گئے تھا جو بہت بڑے خطیب تھے، انہیں خطیب رسول للہ، خطیب الأنصار اور خطیب الاسلام کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ کے ساتھ ایک دو اصولی باتیں کرنے کے بعد مذاکرات کا باقی معاملہ حضرت ثابت بن قیسؓ کے حوالہ کر دیا تھا اور خود واپس تشریف لے گئے تھے۔

اس موقع پر مسیلمہ کی طرف سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیشکش کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مسیلمہ کو اپنا جانشین نامزد کر دیں، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو علاقے تقسیم کر لیں۔ اس کے لیے مسیلمہ کا کہنا تھا کہ ”لنا وبر ولک مدر“ کچی اینٹیں ہماری اور پکی اینٹیں آپ کی، یعنی شہروں کے نبی آپ ہوں اور دیہات کی نبوت مسیلمہ کے سپرد کر دیں۔ اربن پیغمبر آپؐ ہوں اور رورل پیغمبر مسیلمہ کو بنا دیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ ”ان الارض یورثہا من یشاء من عبادہ“ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔ یعنی خلافت دینا یا شہروں اور دیہات کی تقسیم کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجور کی ٹہنی دکھا کر فرمایا کہ اگر تم مجھ سے یہ ٹہنی مانگو تو میں یہ دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں۔

مسلیمہ کذاب کے حوالہ سے ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کے بعد پیروی میں کیا تھا، اسی لیے وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے دوران مقابلہ پر نہیں آیا اور اس کوشش میں لگا رہا کہ کسی طرح اسے شریک پیغمبر کے طور پر تسلیم کر لیا جائے، مگر جناب نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے کسی قسم کی نبوت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، نہ کوئی مستقل نبی آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی تابعدار اور پیروکار نبی ہو سکتا ہے، اور نبوت کا دروازہ اب قیامت تک کے لیے قطعی طور پر بند ہو چکا ہے۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ فروری ۲۰۱۶ء)
2016ء سے
Flag Counter