حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ

   
تاریخ : 
۲۶ اگست ۱۹۹۸ء

حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی قدس اللہ سرہ العزیز کو میں نے پہلی بار ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو دیکھا تھا جب میرا حفظ قرآن کریم مکمل ہوا۔ میں نے قرآن کریم سب سے پہلے اپنے والد محترم اور والدہ مرحومہ سے پڑھنا شروع کیا، پھر جب مرکزی جامع مسجد گکھڑ منڈی میں مدرسہ تجوید القرآن کا قیام عمل میں لایا گیا تو وہاں حفظ کا آغاز کیا جو اکتوبر ۱۹۶۰ء میں مکمل ہوا۔ میرے استاد محترم قاری محمد انور صاحب نے، جو آج کل مدینہ منورہ کے ایک مدرسہ میں قرآن کریم کی تدریس میں مصروف ہیں، اس موقع پر اپنے دو اساتذہ حضرت مولانا قاری فضل کریم صاحبؒ اور حضرت مولانا قاری سید حسن شاہ صاحبؒ کو مدعو کیا ہوا تھا اور ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا تاکہ میں ان بزرگوں کو آخری سبق سناؤں۔ اچانک اس روز حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ صوبہ سرحد کے کسی شہر سے واپس جاتے ہوئے پہلے گکھڑ اور پھر گوجرانوالہ میں رکے تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں اس تقریب کے لیے روک لیا۔ اور اس طرح مجھے اپنا آخری سبق حضرت درخواستیؒ کو سنا کر ان سے تلمذ کا شرف حاصل کرنے کی سعادت مل گئی۔ سورۃ المرسلات کا دوسرا رکوع میرا آخری سبق تھا جو میں نے حضرت درخواستیؒ اور مندرجہ بالا تینوں بزرگوں کو ایک عام اجتماع میں سنایا۔ شاید یہ ان حضرات کا رعب تھا کہ میں اس چھوٹے سے سبق میں بھی بھول گیا اور سناتے ہوئے ایک آیت مجھ سے رہ گئی۔

اس کے تقریباً دو برس بعد کی بات ہے جب میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا، ایک روز معلوم ہوا کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں تشریف لائے ہیں۔ میں بھی زیارت و ملاقات کی نیت سے وہاں پہنچا، وہ عقیدت مندوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے، میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ خیال تھا کہ جب ہجوم کم ہوگا تو مصافحہ کر لوں گا۔ مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے نظر پڑتے ہی مجھے آواز دے کر بلوایا اور کہا ’’او! ادھر آؤ اب ملتے بھی نہیں ہو‘‘۔ میں نے قریب ہو کر مصافحہ کیا تو انہوں نے وہ آیت پڑھی جو میں آخری سبق میں بھول گیا تھا۔ اور پوچھا کہ اب یہ آیت یاد ہے یا نہیں؟ میرے لیے اتنی بات ہی کافی تھی کہ اس بزرگ کو دو تین سال قبل ایک عام اجتماع میں سبق سنانے والے طالب علم کا چہرہ بھی یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ وہ سبق سناتے ہوئے کون سی آیت بھول گیا تھا۔

اس کے چند برس بعد اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہوا کہ جہلم میں جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام کا سالانہ جلسہ تھا۔ حضرت درخواستیؒ اس جلسہ میں خطاب کے لیے آئے ہوئے تھے اور میں بھی ایک سامع کی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔ حضرت درخواستیؒ جلسہ گاہ میں پہنچے تو بے شمار لوگ قطار میں لگے ان سے باری باری مصافحہ کر رہے تھے۔ میں بھی لائن میں لگ گیا اور رومال کے ساتھ اپنے منہ کو اس طرح ڈھانپ لیا کہ آنکھیں اور چہرے کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا، اس خیال سے کہ پہچان لیں گے تو کہیں پھر سبق والی بات نہ کہہ دیں۔ میری باری آئی، چلتے چلتے مصافحہ کیا تو میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ’’او! اب چھپتے بھی ہو، سبق یاد ہے؟‘‘

یہ ان کی بے پناہ قوت حافظہ اور یادداشت کا اظہار بھی تھا اور محبت و شفقت کا مظاہرہ بھی جو ان کے ہر عقیدت مند کے حصہ میں ہمیشہ آتا رہا ہے۔ وہ پرانی وضع کے ایک نیک دل، سادہ منش اور صاف گو عالم دین تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ انہیں شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بعد جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا تو بہت سے حضرات متعجب ہوئے کہ وہ اس ڈھب کے آدمی نہیں ہیں اور انہیں آج کی سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے جس جرأت کے ساتھ علماء کے اس قافلہ کی قیادت کی وہ تاریخ کا ایک مستقل باب ہے۔

وہ اپنے ذوق کے لحاظ سے ’’فنا فی الحدیث‘‘ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو یاد کرنا، ہر وقت ان کا تذکرہ کرتے رہنا، اور ہر موقع پر جناب نبی اکرمؐ کی کوئی نہ کوئی حدیث سنا دینا ان کے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ انہیں حافظ الحدیث کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا اور بلاشبہ انہیں اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ احادیث یاد کرنے کا شرف حاصل تھا۔ ایک موقع پر یاد پڑتا ہے کہ کسی شخص نے ان سے سوال کیا کہ کسی کو آپ سے زیادہ حدیثیں بھی یاد ہیں؟ تو غالباً ان کا جواب یہ تھا کہ یہاں تو نہیں البتہ مدینہ منورہ میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی تھی جنہیں مجھ سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں۔ کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ یہ خاتون شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کی دختر محدثہ امۃ اللہ دہلویہؒ تھیں جنہوں نے حجاز مقدس میں نصف صدی تک علم حدیث کی مسند تدریس آباد رکھی اور بڑے بڑے محدثین ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر کے ان سے روایت حدیث کی اجازت لینے پر فخر کیا کرتے تھے۔

حضرت درخواستیؒ کا احادیث نبویہؓ کے ساتھ شغف انہیں اپنے سب معاصرین میں ممتاز کیے ہوئے تھا۔ وہ جب رسول اللہؐ کا تذکرہ کرتے یا آپؐ کی کوئی حدیث سناتے تو اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو آجایا کرتے تھے اور وہ صرف خود نہیں روتے تھے بلکہ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے بھی آنسوؤں کو روکنا مشکل ہو جایا کرتا تھا۔ رسول اللہؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے اور آپؐ کی احادیث سناتے ہوئے انہیں نہ وقت گزرنے کا کوئی احساس ہوتا تھا اور نہ ہی گرد و پیش کا کوئی ہوش رہتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں رات کو خطاب کر رہے ہیں اور ذکرِ یارؐ میں اس قدر محو ہیں کہ صبح کی اذان کا وقت ہوگیا ہے۔ وہ روایتی طرز کے مقرر نہیں تھے اور نہ ہی ان کی گفتگو میں کوئی ربط اور ترتیب ہوتی تھی۔ لیکن حدیث نبویؐ کے ساتھ ان کے جذب و مستی کا یہ عالم تھا کہ لوگ گھنٹوں ان کے سامنے بیٹھے جھومتے اور سبحان اللہ کا ورد کرتے رہتے تھے۔ وہ آخری وقت تک جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر رہے اور مجھے ان کی امارت میں کم و بیش تیس برس تک ایک کارکن اور مختلف مناصب کے ذمہ دار کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔

عام جلسوں، خصوصی اجلاسوں، نجی محافل، اور تنہائی کی ملاقاتوں کا شمار اندازے سے بھی کرنا چاہوں تو میرے بس میں نہیں ہوگا۔ انہیں خوشی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں دیکھا اور خلوت و جلوت کے کم و بیش ہر انداز کا مشاہدہ کیا۔ لیکن ایک کیفیت جس میں کسی حالت میں بھی فرق نہیں دیکھا وہ ان کی دینی حمیت تھی۔ وہ دین کے معاملہ میں قطعی بے لچک تھے، گھر میں بھی، جماعت کی خصوصی مجالس میں بھی، اور عام اجتماعات میں بھی۔ اور اس بارے میں وہ کسی سے رعایت نہیں کرتے تھے، وہ جس چیز کو ناجائز سمجھتے تھے کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی ان سے اس کے بارے میں لچک کا تقاضا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔

نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کو انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد قرار دے رکھا تھا۔ عام اجتماعات میں سب سے زیادہ انہی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ جس علاقہ میں جاتے وہاں کے علماء اور دینی کارکنوں کو اس جدوجہد کے لیے تیار کرتے۔ ان سے عام اجتماعات میں عہد لیتے اور بعض کی دستار بندی کراتے۔ جس عالم یا کارکن کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے اس کے سر پر سب کے سامنے پگڑی باندھتے اور نفاذ شریعت کے لیے کام کرنے کا وعدہ لیتے۔ یہ ان کا حوصلہ افزائی کا مخصوص انداز تھا جسے ان کے عقیدت مند اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے۔ بہت سے علماء اور کارکنوں نے وہ رومال اور دستاریں برکت کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں جو کسی نہ کسی موقع پر حضرت درخواستیؒ نے ان کے سر پر بندھوائی تھیں۔ خود میرے ساتھ کئی بار اس شفقت کا مظاہرہ فرمایا۔

ایک بار مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کا بیان تھا، حسب روایت بہت سے علماء اور کارکنوں کی دستار بندی کی پھر مجھے آواز دی۔ مگر جب میں پہنچا تو دستاریں اور رومال ختم ہو چکے تھے۔ سردیوں کا موسم تھا انہوں نے اپنے سر پر گرم ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر رومال بندھا تھا، وہ رومال کھول کر ٹوپی اتاری اور میرے سر پر رکھ دی۔ یہ ٹوپی اب بھی میرے پاس محفوظ ہے اور کبھی کبھی تبرک کے لیے پہنا کرتا ہوں۔ بعد میں کئی مواقع پر انہوں نے اس کا تذکرہ کیا اور مختلف مجالس میں یوں کہا کہ ’’میں نے راشدی والوں کو اپنی ٹوپی پہنا دی ہے اور اب اڑا پھرتا ہے۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میں اس وقت جو کچھ بھی ہوں چند بزرگوں کی دعاؤں اور شفقتوں کے باعث ہوں۔ ورنہ اپنے دامن اعمال کی طرف دیکھتا ہوں تو اس میں شرمندگی اور حسرت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

نفاذ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کلمہ حق بلند کرنے اور علماء اور کارکنوں کو اس کی خاطر تیار کرتے رہنے کے علاوہ قدرت نے جو خصوصی ذوق حضرت درخواستیؒ کو ودیعت کیا تھا وہ دینی مدارس کا قیام تھا۔ جس علاقے میں جاتے دینی مدارس کی امداد کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتے۔ مدارس کے سالانہ اجتماعات میں خود اپیل کر کے چندہ کراتے، جہاں گنجائش ہوتی اپنی جیب سے بھی دیتے۔ اپنے عقیدت مندوں کا نام لے لے کر انہیں جلسے میں کھڑا کرتے اور ان سے مدرسے کے لیے چندے کی اپیل کرتے۔ جہاں مدرسہ نہ ہوتا وہاں دینی درسگاہ قائم کرنے کی ترغیب دیتے اور کوشش کرتے کہ ان کی موجودگی میں ہی مدرسے کے قیام کی طرف عملی پیش رفت ہو جائے۔ ان کے ایک رفیق سفر میاں محمد عارف مرحوم واقعہ سناتے ہیں کہ قبائلی علاقہ کے سفر میں وہ ایک جگہ رکے تو لوگ ان کا نام سن کر جمع ہوئے۔ ایک صاحب حیثیت شخص نے انہیں اپنے گھر چلنے اور چائے پینے کی دعوت دی۔ اس سے پوچھا کہ یہاں کوئی دینی مدرسہ ہے؟ جواب ملا کہ نہیں۔ اس پر کہا کہ پہلے مدرسہ قائم کرنے کا وعدہ کرو پھر تمہارے گھر چلیں گے۔ اس نے وعدہ کر لیا۔ گھر پہنچے تو کہا کہ نیکی کے کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے اس لیے مدرسہ کے لیے جگہ مخصوص کر دو۔ اس نے اپنے گھر کے ساتھ اپنی زمین میں ایک ٹکڑا مخصوص کر دیا۔ حضرت درخواستیؒ نے کہا کہ اب مزید دیر کس بات کی ہے؟ دو چار اینٹیں لاؤ کہ مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے۔ وہ اینٹیں لایا اور مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا۔ اس طرح وہ دوران سفر اس جگہ تھوڑی دیر آرام کے لیے رکے تھے کہ وہاں ایک دینی مدرسے کا آغاز کر کے آگے بڑھ گئے۔

افغانستان میں روس کی مسلح افواج کی آمد کے بعد جہاد افغانستان کا آغاز ہوا تو حضرت درخواستیؒ نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقہ کا طوفانی دورہ کیا جہاں ان کے مرید اور شاگردوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جہاد افغانستان کی حمایت میں پرجوش بیانات جاری کر کے پورے علاقہ میں جہاد کے حق میں فضا گرم کر دی، جس کے اثرات مدت تک محسوس کیے جاتے رہے۔ افغان مجاہدین کے ایک سرگرم راہنما مولوی نصر اللہ منصور شہیدؒ ایک بار شیرانوالہ لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی اجلاس کے موقع پر آئے اور کہا کہ میں حضرت درخواستیؒ کی زیارت کے لیے آیا ہوں جنہوں نے قبائلی علماء اور عوام کو جہاد افغانستان کی حمایت کے لیے تیار کر کے ہمارا راستہ صاف کر دیا ہے۔ حضرت درخواستیؒ آخر وقت تک علالت، ضعف، اور نقاہت کے باوجود جہاد افغانستان کے لیے فکرمند رہے اور اس سلسلہ میں بہت سے اجتماعات میں شریک ہو کر خطاب کیا۔ایک موقع پر اسلام آباد میں افغان مجاہدین کی سات بڑی جماعتوں کے سربراہوں کو جمع کر کے انہیں آپس میں متحد رہنے اور دشمن کی سازشوں سے خبردار رہنے کی تلقین کی۔ ساتوں بڑے افغان لیڈر حضرت درخواستیؒ کے سامنے سر جھکائے بیٹھے تھے۔ لیکن جنہیں خانہ کعبہ کے اندر کیا ہوا معاہدہ متحد نہ رکھ سکا حضرت درخواستیؒ کی تلقین ان پر کیا اثر کر سکتی تھی؟

   
2016ء سے
Flag Counter