مولانا سید علی میاںؒ کی یاد میں

   

نفسا نفسی کا دور ہے اور زندگی کی دوڑ نے ہمیں اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ جانے والے بزرگوں کو چند لمحے یاد کرنے کے لیے بھی اب ہمارے پاس وقت نہیں رہا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات پر ہمارے ہاں مجموعی طور پر جس بے حسی کا مظاہرہ ہوا ہے اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ بات اکا دکا تعزیتی بیانات اور اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والے چند مضامین سے آگے نہیں بڑھ سکی اور ہم اپنی نسل کو یہ نہیں بتا پائے کہ عالم اسلام کتنی بڑی علمی، دینی اور روحانی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ اس فضا میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ترجمان ماہنامہ الحق نے مولانا ندویؒ کی یاد میں ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کر کے کچھ اشک شوئی کی ہے اور جمعیت علماء اسلام جھنگ نے دو تعزیتی نشستوں کا انعقاد کر کے مولانا علی میاںؒ کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی روایت نبھائی ہے جس پر وہ بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں۔

یہ دونوں نشستیں گزشتہ جمعرات کو ہوئیں۔ ایک نشست کا اہتمام مولانا حکیم محمد یاسین نے ظہر کے بعد مدرسہ تعلیم القرآن اشرفیہ مومن پارہ جھنگ صدر میں کیا، جس کی صدارت بزرگ عالم دین مولانا مفتی ولی اللہ نے کی اور اس سے راقم الحروف کے علاوہ مولانا اقبال خان شیروانی، مولانا الیاس بالاکوٹی اور قاری عبد الشکور نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ دوسری نشست جامع مسجد تقویٰ میں مولانا حافظ بشیر احمد نے منعقد کی، جس میں راقم الحروف کو کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ ان محافل میں جو معروضات سامعین کے گوش گزار کیں ان میں سے کچھ باتیں قارئین کی خدمت میں بھی پیش کی جا رہی ہیں۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی یاد میں جمع ہونے کی غرض جہاں ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کی مغفرت و بلندئ درجات کی دعا کرنا ہے، وہاں اس حاضری کا مقصد ان کے ساتھ اپنی نسبت کا اظہار اور ان کی شخصیت اور کارناموں سے ان لوگوں کو آگاہ کرنا بھی ہے جو ان سے واقف نہیں ہیں، کیونکہ اپنے بزرگوں اور ماضی کے ساتھ تعلق قائم کر کے ہی ہم اپنے فکر و عمل کا رخ صحیح رکھ سکتے ہیں۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ آج کے دور میں مختلف علمی اور روحانی نسبتوں کا سنگم اور مجمع البحار تھے۔ ان کا خاندانی تعلق امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ سے ہے، انہوں نے تعلیم و تربیت اور پھر تدریس اور فکر سازی کے مراحل ندوۃ العلماء لکھنؤ میں طے کیے جو برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں ایک عظیم علمی تحریک کا نام ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو سنبھالنے اور ان کے ملی تشخص کی بقا و تحفظ کے لیے جن بڑے اداروں نے تحریک کے طور پر کام کیا ان میں علی گڑھ اور دیوبند کے ساتھ تیسرا بڑا نام ”ندوۃ العلماء“ لکھنؤ کا ہے۔ جبکہ روحانی طور پر انہیں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ اور حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوریؒ جیسے عظیم مشائخ سے نسبت و اجازت حاصل ہونے کے ساتھ اپنے عظیم خاندانی سلسلہ تکیہ شاہ علم اللہ رائے بریلی کی مسند نشینی کا شرف بھی حاصل ہے۔

اس کے بعد جو بات مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کو ان کے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے وہ عرب علماء اور تحریکات کے ساتھ ان کا تعلق ہے جس کا آغاز تحریک استفادہ کے تعلق سے ہوا، لیکن رفتہ رفتہ اس نے افادہ اور راہنمائی کی صورت اختیار کر لی۔ اور ایک وقت آیا کہ عرب علماء اور دانشور عربی زبان پر مولانا ندویؒ کی گرفت اور ان کی فصاحت و سلاست کا حظ اٹھاتے تھے اور علم و فکر میں ان سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اور انہی کے دور میں ندوۃ نے برصغیر کے دائرہ سے نکل کر پورے عالم اسلام کے لیے ایک رہنما ادارے کی حیثیت حاصل کر لی۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ صرف فکر و نظر اور تقریر و تحریر کے میدان کے آدمی نہیں تھے، بلکہ انہوں نے عملی زندگی میں بھی علماء ہند کی قیادت کی اور خاص طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سربراہ کے طور پر انہوں نے جس جرأت و حوصلہ کے ساتھ مسلمانانِ ہند کی ترجمانی کی وہ ہم سب کے لیے قابل رشک ہے۔ اپنی وفات سے صرف دو ماہ قبل ممبئی میں آل انڈیا کل جماعتی مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سالانہ اجلاس میں ان کی طرف سے جو خطبۂ صدارت پیش ہوا، اس میں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو نکاح، طلاق اور وراثت میں اپنے مذہبی قوانین سے دستبردار ہونے اور مشترکہ خاندانی قوانین (کامن سول کوڈ) قبول کرنے کی جو دعوت دی جا رہی ہے اسے ہم ارتداد کی دعوت سمجھتے ہیں اور اس کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جس طرح ارتداد کی دعوت کا مقابلہ ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے سب سے بڑے صوبے یوپی (اترپردیش) کے سرکاری سکولوں میں بی جے پی کی حکومت نے روزانہ تعلیم کے آغاز پر ’’بندے ماترم‘‘ کا ترانہ گانے کو لازمی قرار دیا تو مسلمان بچوں نے اس میں شرکیہ اشعار شامل ہونے کی وجہ سے اسے گانے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے پورے عزم و استقلال کے ساتھ حکومت پر یہ بات واضح کر دی کہ ہم مسلمان موت قبول کر لیں گے لیکن ہمارے بچے سکولوں میں یہ شرکیہ ترانہ نہیں گائیں گے۔ جس کے بعد حکومت کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

اسی طرح کارگل کے مسئلے پر علامہ علی میاںؒ نے بھر پور انداز میں بھارتی مسلمانوں کو مجاہدین کی حمایت کرنے کیلئے واضح موقف دیا، جس کے بعد وہاں کی ہٹ دھرم حکومت نے مولانا مرحوم کے گھر پر چھاپہ بھی مارا ۔ الغرض بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت اور ان کے جارحانہ عزائم و اقدامات کے باوجود مسلمانوں کے مذہبی خاندانی قوانین اور مسلمان بچوں کے عقائد کے تحفظ کے لیے مولانا ندویؒ نے جو عزیمت کا کردار ادا کیا وہ خاندان سید احمد شہیدؒ کے اسی عظیم چشم و چراغ کا حصہ تھا، اور ان کے بعد اب اس حوالہ سے پورے بھارت میں ان کا کوئی جانشین دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے ہمیں ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حالات اور کارناموں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے اور ان سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے کیونکہ بزرگوں کی یاد کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter