متفرق رپورٹس

   
رپورٹس
۳۱ اگست ۲۰۲۴ء

اسلام آباد کا دورہ اور مولانا فضل الرحمٰن کا ضبط

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے آٹھ اگست کو اسلام آباد کا سفر کیا۔ جامع مسجد امیر حمزہ ایف ٹین ٹو میں ماہانہ تعلیمی نشست کے سلسلہ میں عصر کے بعد انہوں نے علماء کرام کی ایک کلاس کو ”قرار دادِ مقاصد“ کے تاریخی سفر اور موجودہ صورتحال کے بارے میں تفصیلی لیکچر دیا۔ جبکہ مغرب کے بعد عام نمازیوں کے سامنے فہم قرآن کے تقاضوں کے حوالے سے گفتگو کی۔

انہوں نے اس سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر اکرام الحق یاسین صاحب کے ساتھ ملاقات میں مختلف قومی امور پر تبادلۂ خیالات کیا، اور پاک چین فرینڈ شپ سنٹر اسلام آباد میں ”قومی علماء و مشائخ کانفرنس“ میں شرکت کی جس میں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل حافظ سید عاصم منیر نے خطاب فرمایا۔

بعد میں مولانا زاہد الراشدی سے چیف آف آرمی اسٹاف کے تفصیلی خطاب پر تبصرہ کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ خطاب خود جنرل صاحب محترم کے بقول ان کے نومبر ۲۰۲۳ء کے دوران راولپنڈی میں اس قسم کے اجتماع سے خطاب کا تسلسل تھا جن میں قومی اور علاقائی امور پر ان کی پالیسیوں، عزائم اور ایجنڈے کا اظہار ہوتا ہے، اس لیے اس پر کسی تبصرہ کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے، وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ خودبخود واضح ہو جائے گا۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ وزیر اعظم کی موجودگی میں قومی پالیسیوں پر چیف آف آرمی اسٹاف کا تفصیلی خطاب سن کر انہیں اپنا ایک پرانا واقعہ یاد آگیا ہے۔ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران نمک منڈی پشاور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا بہت بڑا جلسہ تھا۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ صدارت فرما رہے تھے اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ میرا خطاب بھی تھا۔ جبکہ ہم دونوں اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ”در خواستی گروپ“ اور ’’فضل الرحمن گروپ“ کے حوالہ سے قومی سیاست کے میدان میں آمنے سامنے تھے۔ ہمارے درمیان شدید سیاسی اور جماعتی کشمکش تھی لیکن باہمی رابطہ و احترام کا تعلق بھی بحمد اللہ تعالیٰ قائم تھا۔ پہلے میری تقریر تھی پھر مولانا فضل الرحمن صاحب کا آخری خطاب تھا۔ مجھے باہمی سیاسی کشمکش کے تناظر میں شرارت سوجھی اور میں نے عمداً اپنی تقریر میں وہ ساری باتیں کہہ دیں جو مولانا فضل الرحمن نے میرے خیال میں اس جلسہ میں کہنا تھیں ۔ میری تقریر کے بعد مولانا فضل الرحمن کے خطاب کا اعلان ہوا تو وہ اسٹیج پر چڑھ رہے تھے اور میں اتر رہا تھا۔ آمنا سامنا ہونے پر انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے کہا کہ ”اب میں کیا کہوں؟“ میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا کہ ”آپ میرے والی باتیں کہہ دیں“۔ وہ یہ کہتے ہوئے مائیک کی طرف بڑھ گئے کہ ”وہ میں نہیں کہوں گا“۔

(از: حافظ شاہد الرحمٰن میر ۔ سیکرٹری مالیات پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ ۔ ۸ اگست ۲۰۲۴ء)

بجلی کے بل، مہنگائی اور ٹیکس

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے آج گوجرانوالہ میں بجلی کے بلوں ،مہنگائی اور ٹیکسوں کی ہوشربا صورتحال کے خلاف تاجر برادری کے ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا اور مختلف تاجر تنظیموں کے راہ نماؤں سے ملک کے معاشی بحران کے بارے میں جدوجہد کو منتظم کرنے کے لیے صلاح و مشورہ کیا۔ مولانا جواد محمود قاسمی، مولانا حافظ نصر الدین خان عمر، مولانا حافظ شیراز نوید، مولانا عبید عمر، حافظ شاہد الرحمن میر، عبد القادر عثمان، مولانا دانیال عمر، حافظ عبد الجبار، حافظ محمد بن جمیل بھی ان کے ہمراہ تھے۔

اس موقع پر مولانا زاہد الراشدی نے تاجر برادری کی ریلی سے بھی خطاب کیا اور تاجر تنظیموں کے مطالبات کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکمرانوں سے زندہ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں۔ اس ملک کے شہریوں کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے اور اگر ان سے زندگی کا یہ حق چھیننے کی پالیسی ترک نہ کی گئی تو ایسا کرنے والے خود بھی زندگی کا حق برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ انہوں نے کہا ہم پورے ملک میں ۱۴ اگست کو یوم آزادی منا رہے ہیں اور اس حوالہ سے ہمارا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ ہم نے برطانیہ سے آزادی امریکہ کا غلام بننے کے لیے نہیں حاصل کی تھی اور ہندوؤں کی تہذیبی اور معاشی بالادستی سے نجات آئی ایم ایف کا غلام بننے کے لیے نہیں حاصل کی تھی۔ آج ہماری آزادی استعماری قوتوں اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی ہو چکی ہے اور ہم حکمرانوں سے قومی خودمختاری کی بحالی کی آئی ایم ایف کے تسلط سے نجات اور پاکستان کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل کا حق مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسجد و محراب نے ہمیشہ قوم کا ساتھ دیا ہے اور آج بھی ہم ملک کے عوام اور تاجر برادری کے ساتھ ہیں اور ان کی جدوجہد میں سرگرم کردار ادا کریں گے، ان شاء اللہ۔

(از حافظ نصر الدین خان عمر۔ امیر پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ ۔ ۱۰ اگست ۲۰۲۴ء)

دارالعلوم انوریہ نوشہرہ سانسی کی تقریب شجرکاری اور پرچم کشائی

پاکستان شریعت کونسل ضلع گوجرانوالہ کی جانب سے ۱۴ اگست ۲۰۲۴ء کے روز عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم انوریہ اجمل ٹاؤن نوشہرہ سانسی میں تقریب شجر کاری و پرچم کشائی کا اہتمام کیا گیا، جس میں مہمان خصوصی مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل نے خطاب کیا۔

حضرت مولانا صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ برطانوی استعمار سے آزادی اور پاکستان کا قیام دونوں مستقل نعمتیں ہیں، جو اللہ تعالی نے ہمیں ایک ساتھ عطا فرمائیں، مگر ہم نے ان کی قدر نہیں کی اور آج ہم قومی سطح پر جس خلفشار اور باہمی بے اعتمادی کا شکار ہیں، وہ اسی ناقدری و ناشکری کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے، تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا، لیکن اگر ناشکری کرو گے، تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہوتا ہے۔

ہماری آج کی عمومی صورت حال یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالی ہم سے راضی نہیں ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی راضی ہوں، تو ہمارا یہ حال نہ ہو؛ اس لیے ہمیں اپنی اجتماعی کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے اور قومی طور پر معافی مانگتے ہوئے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یوم آزادی کا ہمارے لیے یہی سب سے بڑا پیغام ہے۔

اس موقع پر نائب صوبائی امیر ممتاز عالم دین مولانا قاری محمد عبیداللہ عامر، مفتی غفران اللہ حامد، مولانا نصر الدین خان عمر امیر گوجرانوالہ، مولانا محمد خبیب عامر سیکرٹری جنرل کے علاوہ عبد القادر عثمان، مولانا شیراز نوید، مولانا دانیال عمر، حافظ شاہد الرحمٰن میر، حافظ عبد الجبار، مولانا محمد ثوبان، مولانا محمد صہیب عامر، مولانا طلحہ نصر اللہ، محمد زوہیب عامر، محمد زہیر عامر، اساتذہ عظام، طلباء کرام اور اہل علاقہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کا اختتام مولانا محمد عبید اللہ عامر کی دعا سے ہوا۔

(از: حافظ شیراز نوید۔ سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ ۔ ۱۴ اگست ۲۰۲۴ء)

یوم آزادی ۲۰۲۴ء کی تقریبات میں شرکت

۱۴ اگست کو یوم آزادی کے موقع پر استاد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ساتھ مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ انہوں نے بہت مصروف دن گزارا اور یوم آزادی کے سلسلہ میں مختلف مدارس کی تقریبات میں شرکت کی، قومی پرچم لہرایا، اساتذہ اور طلباء کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کا تذکرہ کیا۔ پہلی تقریب الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے مین کیمپس کو روٹانہ سے ہوا جہاں طلباء نے اردو عربی اور انگریزی زبانوں میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وطن عزیز کے استحکام سلامتی اور خود مختاری کے لیے پر جوش عزائم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر طلباء نے مختلف ترانوں کی صورت میں اپنے جذبات پیش کیے۔ ایک طالب علم طلحہ نے استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی فرمائش پر جناب انور مسعود کا یہ کلام بھی پڑھ کر سنایا:

جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے
اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے
چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پُرخطر جیسا بھی ہے
سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے
وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا انور با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے

الشریعہ اکادمی میں پرچم کشائی اور دعا کے بعد اپنے رفقاء حافظ نصر الدین خان عمر، عبد القادر عثمان، حافظ شاہد میر، مولانا عامر حبیب اور راقم الحروف کے ہمراہ استاد محترم دارالعلوم انور یہ اجمل ٹاؤن پہنچے ۔ مولانا قاری عبید اللہ عامر صاحب کی زیر نگرانی شجر کاری مہم اور قومی پرچم کشائی کے سلسلہ میں اساتذہ اور طلباء کی بھر پور نشست ہوئی۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے خصوصی خطاب کیا۔ اس کے بعد جامعہ مدینۃ العلم جناح کالونی میں اسی نوعیت کی تقریب میں خطاب کے بعد جامعہ قاسمیہ ملہی چوک میں مولانا جواد محمود قاسمی نے بھر پور تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں مولانا حافظ گلزار احمد آزاد اور دیگر علماء بھی شریک ہوئے۔

مولانا حافظ یوسف صاحب کی طرف سے ظہر کے بعد گرین ٹاؤن مدرسہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ میں اس سال انصار الحجاج کی سرپرستی میں حج ادا کرنے والے حجاج کرام کے اعزاز میں استقبالیہ دعوت کا اہتمام تھا۔ حجاج کرام کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کی اس سعادت کی بارگاہ الہی میں قبولیت کی دعا مانگی گئی اور یوم آزادی کے حوالے سے پرچم کشائی اور ملک کی سالمیت و استحکام کے لیے دعا کی گئی۔

مغرب کے بعد مرکزی جامع مسجد گھر میں یوم آزادی کے حوالے سے تقریب تھی جس میں دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ، مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ اپنے خطابات میں مولانا زاہد الراشدی نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ آزادی اور پاکستان دونوں اللہ تعالی کی بڑی نعمتیں ہیں جن کی قدر ہم نہیں کر پا رہے، ہمیں اس پر اللہ پاک کے حضور توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے اور آزادی و پاکستان کی تکمیل کے لیے از سر نو عزم کے ساتھ قومی جدوجہد کا اہتمام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کا مقصد برطانیہ کی غلامی سے نکل کر امریکہ کی بالادستی کے ماحول میں چلے جانا نہیں تھا، اسی طرح ہندوؤں کے معاشی تسلط کے خوف سے نکلنے کی غرض آئی ایم ایف کی معاشی غلامی کا تو گلے میں ڈال لینا نہیں تھا بلکہ حقیقی خود مختاری اور سیاسی و معاشی آزادی کے ساتھ اسلامی احکام و قوانین کے عملداری ہماری اصل منزل تھی جو ہم ابھی تک حاصل نہیں کر سکے، اس لیے ہمیں خود مختاری کی بحالی سیاسی و معاشی آزادی کے حصول اور اسلامی تعلیمات کی عملداری کے لیے مل جل کر از سر نو جدوجہد کرنا ہوگی تاکہ ہم آزادی اور پاکستان کے حقیقی مقاصد کی منزل حاصل کر سکیں۔

(منجانب: حافظ دانیال عمر ۔ سیکرٹری مرکز مطالعہ خلافت راشدہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ ۔ ۱۶ اگست ۲۰۲۴ء)

امام ابو جعفر طحاویؒ کا ذوق زندہ کرنے کی ضرورت

استاد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب فرماتے ہیں کہ امام ابو جعفر طحاوی، جو احناف کے سب سے بڑے وکیل ہیں اور ان کی کتاب ”شرح معانی الآثار“ ہمارے نصاب میں با قاعدہ پڑھائی جاتی ہے، انہوں نے اپنی کتاب کی وجہ تصنیف یہ لکھی ہے کہ احکام و مسائل میں فقہاء کے باہمی اختلافات میں ہر ایک کے پاس اپنے قول کے ثبوت کے لیے کوئی نہ کوئی حدیث موجود ہونے کی وجہ سے عام مسلمانوں میں یہ تاثر پھیل رہا ہے اور ملحدین اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ احادیث نبویہ میں باہمی تعارض و تناقض ہے، اس تاثر کو دور کرنے کے لیے امام طحاوی نے ہر مسئلہ میں مختلف اور بظاہر متعارض احادیث کا ایک جگہ ذکر کر کے ان میں سے ہر ایک ایک کے الگ الگ محمل کو بیان کیا ہے اور باہمی ترجیحات کی نشاندہی کی ہے تاکہ تعارض و تضاد کا شبہ دور ہو اور ملحدین کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ میرے خیال میں آج بھی اس کی ضرورت ہے بلکہ اب یہ ضرورت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ احادیث نبویہ کے بارے میں یہ تاثر پہلے سے زیادہ عام ہو رہا ہے اور ملحدین کو احادیث نبویہ کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ اس لیے امام طحاوی کے اس ذوق کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ احادیث نبویہ کی تدریس و تعلیم بلکہ ان کا عمومی بیان بھی اس انداز سے ہو کہ اس سے اختلافات کے زیادہ اجاگر ہونے کی بجائے ان میں باہمی تطبیق دے کر اور انہیں الگ الگ محل پر محمول کر کے تطبیق اور ترجیح کے پہلو کو نمایاں کیا جائے۔

(حافظ فضل اللہ راشدی۔ شریک دورۂ حدیث جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ ۔ ۱۷ اگست ۲۰۲۴ء)

حضرت مولانا انتظار الحق تھانویؒ کی وفات

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔

آج ستائیس اگست کو جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی کلاس کے دوران استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی نے تحریکِ پاکستان کے عظیم راہنما حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی دینی و قومی خدمات کا تذکرہ کیا اور ان کے فرزند حضرت مولانا انتظار الحق تھانوی کی گذشتہ روز وفات پر گہرے صدمے اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی۔ انہوں نے پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات مولانا حافظ امجد محمود معاویہ کے والد محترم کی وفات پر بھی گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت کی۔ اللہ پاک دونوں بزرگوں کو جوار رحمت میں جگہ دیں اور سب لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(از حافظ حنظلہ شاہد ۔ شریک دورہ حدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ ۔ ۲۸ اگست ۲۰۲۴ء)

اور قادیانی ڈاکٹر مسلمان ہو گیا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ۲۵ اگست اتوار کو الشریعہ اکادمی کوروٹانہ گوجرانوالہ میں ہفتہ وار نقشبندی محفل کے موقع پر استاذ جی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے یہ دلچسپ واقعہ سنایا کہ میرپور آزاد کشمیر کے ہمارے ایک بڑے بزرگ حضرت مولانا حکیم حیات علی چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ جو مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد اور مدرسہ امینیہ دہلی کے فاضل تھے۔ ان کے فرزند مولانا ڈاکٹر اختر الزمان غوری برمنگھم برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں اور برطانیہ کے بزرگ دینی راہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت حکیم صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ریاست خیرپور سندھ کے نواب صاحب کے سرکاری طبیب تھے جبکہ ان کے ساتھ سرکاری ڈاکٹر ایک قادیانی تھا۔ حکیم صاحب مرحوم نے ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا ہے کہ انہیں مالیخولیا کا مرض ہے اور وہ اس کا باقاعدہ علاج بھی کرواتے رہے ہیں۔ مالیخولیا ایک دماغی مرض ہے کہ گیس دماغ کو چڑھتی ہے تو مریض خود کو خدا رسول اور نہ جانے کیا کیا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ حکیم صاحبؒ نے قادیانی ڈاکٹر سے کہا کہ اس بیماری کو آپ بھی سمجھتے ہیں اور میں بھی سمجھتا ہوں اس لیے مرزا صاحب اپنے آپ کو کبھی خدا کبھی رسول اور کبھی کچھ کبھی کچھ سمجھتے تھے تو اس کی وجہ تو تھوڑی بہت سمجھ میں آتی ہے، آپ کو کیا ہوا ہے کہ آپ نے بھی مرزا صاحب کے دعووں کو ماننا شروع کر دیا ہے؟ ڈاکٹر غوری صاحب نے بتایا کہ ان کے والد گرامی کی یہ بات قادیانی ڈاکٹر کو سمجھ میں آ گئی اور اس نے چند روز غور کے بعد قادیانیت ترک کر کے اسلام قبول کر لیا۔ مولانا راشدی نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ قادیانیوں کو تبلیغ کرنے کے لیے گھورنا اور ہر وقت غصے سے بات کرنا ضروری نہیں، سلیقے اور آرام سے بھی بات کی جا سکتی ہے اور وہ اکثر زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔

نقشبندی محفل میں پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات مولانا حافظ امجد محمود معاویہ کے والد محترم کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور ان کی مغفرت کے لیے دعا کی گئی۔ اللہ پاک انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں، آمین یا رب العالمین۔

(از: حافظ شاہد الرحمان میر۔ سیکرٹری مالیات پاکستان شریعت کونسل گوجرانوالہ ۔ ۲۸ اگست ۲۰۲۴ء)
2016ء سے
Flag Counter