صدر جنرل پرویز مشرف کے دورۂ بھارت کی تیاریاں جاری ہیں اور اس کے ساتھ ہی مختلف حلقوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مختلف فارمولے سامنے آ رہے ہیں جن میں خودمختار کشمیر سے لے کر کشمیر کی تقسیم تک کی متعدد تجاویز شامل ہیں، جس سے عوام کی تشویش مسلسل بڑھ رہی ہے۔
کشمیری عوام نصف صدی سے آزادی کی جنگ میں مصروف ہیں اور اقوامِ متحدہ نے واضح قراردادوں کی صورت میں کشمیری عوام سے دوٹوک وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں اپنی آزادانہ مرضی کے ساتھ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا۔ مگر بین الاقوامی حلقے اور عالمی قوتیں بالخصوص امریکہ مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کشمیری عوام اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھول جائیں اور نئے سرے سے ان عالمی قوتوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ملے جلے حل پر آمادہ ہو جائیں، اور یہ ساری تگ و دو اسی مقصد کے لیے ہو رہی ہے۔ ہمارے خیال میں کشمیری عوام کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں عالمی برادری کے دوٹوک وعدوں کو نظرانداز کرنا اسلامیانِ کشمیر کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے ساتھ بے وفائی ہو گی اور اس سے مسئلہ کشمیر حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائے گا۔
اس پس منظر میں روزنامہ جنگ لاہور ۱۸ جون ۲۰۰۱ء کے مطابق وفاقی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا یہ اعلان اطمینان بخش ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے اور حکومتِ پاکستان اپنے اس موقف سے قطعاً دستبردار نہیں ہو گی۔
ہمیں امید ہے کہ جنرل پرویز مشرف بھارتی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے اس اصولی موقف، اور کشمیری عوام کے آزادانہ حقِ خودارادی کے جائز اور مسلّمہ حق کے بارے میں کوئی لچک اختیار نہیں کریں گے۔