دو دن امریکی دانشور نوم چومسکی کے ساتھ

   
۴ و ۵ دسمبر ۲۰۰۳ء

میں نے عید الفطر کے دو دن امریکہ کے نامور یہودی دانشور نوم چومسکی کے ساتھ گزارے۔ عید کی تعطیلات میں معمول کا کوئی کام نہیں ہو پاتا، مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کا بیشتر عملہ چھٹی پر ہوتا ہے اور نمازیں پڑھانے کے لیے مجھے موجود رہنا پڑتا ہے۔ جبکہ بچے بھی عید کی اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے خود کو مصروف رکھنے کے لیے ایک دو کتابوں کا انتخاب کر لیتا ہوں اور دو تین روز ان کے ساتھ ہی بسر ہو جاتے ہیں۔ اس سال عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے میرے لیے جن کتابوں کا انتخاب کر رکھا تھا ان میں نوم چومسکی کے انٹرویوز کے ایک مجموعہ اور ان کی ایک کتاب کے اردو تراجم شامل تھے۔ موضوعات چونکہ میری دلچسپی کے تھے اس لیے دو دن انہی کے ساتھ گزر گئے۔

نوم چومسکی ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ۱۹۱۳ء میں روس سے ترکِ وطن کر کے امریکہ میں جا بسا تھا۔ ان کی ولادت ۱۹۲۸ء میں امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ہوئی۔ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کا شعبہ اختیار کیا، وہ لسانیات کے عالمی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور بائیں بازو کے چوٹی کے دانشوروں کی پہلی صف میں شامل ہیں۔ امریکی پالیسیوں کے زبردست نقاد ہیں اور اسرائیل کے وجود کے حامی ہونے کے باوجود اس کی جارحیت، تشدد اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی کے اَحیا و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انہیں اس میں سند کا درجہ دیا جاتا ہے۔

نوم چومسکی کے نزدیک امریکہ ایک استعماری ریاست ہے جس کی پالیسیوں کا دائرہ عالمی دہشت گردی کے گرد گھومتا ہے۔ وہ اپنے ملک کو دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست قرار دیتے ہیں اور حقائق و دلائل کے ساتھ اسے ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے ویتنام پر امریکی فوج کشی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہرین کی قیادت کی، جس پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی، افغانستان پر امریکی حملہ اور عراق پر امریکہ کی فوج کشی پر بھی انہوں نے کھلے بندوں تنقید کی اور اسے امریکہ کی استعماری پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے امریکی پالیسیوں اور اقدامات کے اصل مقاصد کو بے نقاب کیا۔

ان کی ایک مختصر کتاب کا اردو ترجمہ ’’چچا سام کیا چاہتا ہے؟‘‘ کے نام سے جناب اسلم خواجہ نے کیا ہے اور شہر زاد بی۔۱۵۵، بلاک ۵، گلشن اقبال کراچی نے ۸۸ صفحات کا یہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ اس میں انہوں نے موجودہ عالمی تناظر میں امریکہ کے کردار اور اس کی پالیسیوں کے تاریخی پس منظر اور مقاصد کی وضاحت کی ہے۔ چونکہ ان کا تعلق واضح طور پر بائیں بازو سے ہے، اس لیے ان کی تنقید و تجزیہ اور بحث و گفتگو میں بائیں بازو کے افکار و رجحانات کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ البتہ انہوں نے اس دوران جن حقائق کا انکشاف کیا ہے اور امریکی پالیسیوں کے جس تاریخی تسلسل کی نشاندہی کی ہے وہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے پڑھنے کی چیز ہے اور سیاسی و دینی کارکنوں کے لیے تو اس کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ پوری کتاب کا خلاصہ تو مشکل بات ہے، البتہ اس کے چند اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں:

★ امریکہ اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات کے تانے بانے امریکی تاریخ کی ابتدا سے ملتے ہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم ہی اس ضمن میں اہم موڑ تھی، اس لیے آئیے وہاں سے ابتدا کرتے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے ہمارے کئی صنعتی مخالفین شدید کمزور ہو گئے یا مکمل طور پر تباہ، جب کہ امریکہ نے اس جنگ سے بے انتہا فائدہ حاصل کیا۔ ہمارا ملک براہ راست حملے کا ہدف نہیں بنا اور اس دوران امریکہ کی پیداوار تین گنا بڑھ گئی۔

جنگ سے قبل نئی صدی کے آغاز سے ہی امریکہ دنیا کا سرکردہ صنعتی ملک بن چکا تھا اور یہ اس صدی کے آغاز سے ہی تھا، لیکن اب ہمیں دنیا کی دولت کا پچاس فیصد ہاتھ لگ گیا اور دونوں سمندروں بحیرہ اوقیانوس اور بحیرہ کاہل کے دونوں ساحل ہمارے زیردست تھے۔ تاریخ میں اس سے قبل کبھی بھی کسی ایک ملک کو دنیا پر اتنا کنٹرول یا اتنا زبردست تحفظ حاصل نہیں رہا تھا۔ امریکی پالیسیوں کا تعین کرنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا میں پہلی عالمگیر طاقت کے طور پر ابھرے گا، اور جنگ کے دوران اور اس کے بعد وہ انتہائی احتیاط سے منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ جنگ کے بعد کی دنیا کو کیا صورت دی جائے۔ چونکہ یہ ایک کھلا سماج ہے اس لیے ہم ان منصوبوں کو دیکھ اور جانچ سکتے ہیں جو انتہائی واضح اور دورس نتائج کے حامل تھے۔

امریکی منصوبہ ساز اس بات پر متفق تھے کہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔ ان میں محکمہ خارجہ سے لے کر خارجہ تعلقات کی کونسل سے تعلق رکھنے والے اہلکار شامل تھے۔ تاہم یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جائے؟ اس پر مختلف نقطہائے نظر ضرور تھے۔

★ جارج کینان جو ۱۹۵۰ء تک محکمہ خارجہ کے پلاننگ اسٹاف کے سربراہ رہے ہیں، امریکی پالیسی سازوں میں سب سے زیادہ ذہین اور جنگ کے بعد کی دنیا کی تشکیل کرنے والی ایک اہم شخصیت تھے۔ اگر آپ اپنے ملک (امریکہ) کو سمجھنا چاہیں تو پھر پالیسی پلاننگ سٹڈی نمبر ۲۳ کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ دستاویز کینان نے ۱۹۴۸ء میں محکمہ خارجہ میں منصوبہ ساز عملے کے لیے تحریر کی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:

’’ہمارے پاس عالمی دولت کا تقریباً نصف ہے، جبکہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا ۶.۳ فیصد ہے۔ اس صورتحال میں ہم حسد اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنے والے دور میں ہمارا اصل کام تعلقات کے ایک ایسے انداز کا قیام ہو گا جو ہمیں عدم مساوات کی یہ حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دے۔ یہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں جذباتی ہونے اور دن کو سپنے دیکھنے کی عادت ترک کرنا ہو گی اور ہر جگہ اپنی توجہ کا مرکز قومی مقاصد کو بنانا ہو گا۔ ہمیں ان مبہم اور غیر حقیقت پسندانہ مقاصد مثلاً انسانی حقوق، لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے اور جمہوری عمل کی باتوں سے دستبردار ہونا ہو گا۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں طاقت کے براہ راست تصور سے مد مقابل ہونا پڑے گا، اس لیے ہم جس حد تک آدرشی نعروں سے بچے رہیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘

ظاہر ہے کہ یہ پالیسی پلاننگ اسٹڈی نمبر ۲۳ انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے آدرشی نعروں کا طوفان اٹھانا ضروری تھا، لیکن یہاں پالیسی ساز ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ ان ہی خطوط پر ۱۹۵۰ء میں لاطینی امریکہ کے ممالک میں متعین سفیروں کی بریفنگ کے دوران کینان نے کہا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد لاطینی امریکہ میں ہمارے خام مال کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں اس خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو امریکی جاسوس رپورٹوں کے مطابق لاطینی امریکہ میں پھیل رہی ہے کہ ’’عوامی فلاح و بہبود حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہے۔‘‘

جو لوگ اس خیال کی وکالت کر رہے تھے ان کے خیالات کچھ بھی ہوں، لیکن امریکی پالیسی سازوں نے اسے کمیونزم ہی قرار دیا، چاہے وہ چرچ کے ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے گروہ تھے یا کوئی اور، بہرصورت اگر وہ اس بدعت کے حامی ہیں تو وہ بھی کمیونسٹ ہیں۔

اس کے بعد کینان ان ذرائع کا ذکر کرتے ہیں جو ہمیں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے تھے جو اس بدعت کا شکار ہو گئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ

”قطعی جواب ممکن ہے کہ نا پسندیدہ ہو۔۔۔ لیکن ہمیں مقامی حکومتوں کے ہاتھوں ہونے والے پولیس شاہی اور جبر و استبداد کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ قابلِ ندامت عمل نہیں، کیونکہ کمیونسٹ لازمی طور پر غدار ہیں۔۔۔ اس لبرل حکومت سے جس میں کمیونسٹوں کو شامل ہونے کے مواقع میسر ہوں سخت گیر حکومت بہتر ہے۔“

★ امریکہ کے منصوبہ سازوں نے ایک کے بعد ایک اعلیٰ سطحی دستاویزات میں یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ امریکی سربراہی میں نے عالمی نظام کو بنیادی خطرہ تیسری دنیا کی قوم پرستی سے ہے، جسے کبھی کبھار ’’الٹرا نیشنلزم‘‘ بھی کہا گیا ہے اور جس سے مراد ہیں ’’قوم پرست حکومتیں‘‘ جو عوام کا معیار زندگی فوراً بہتر کرنے کے عوامی مطالبے اور مقامی ضروریات کے لیے پیداوار کے مطالبے کو اہمیت دیتی ہیں۔

منصوبہ سازوں کا بنیادی مقصد جسے وہ بار بار دہراتے ہیں یہ ہے کہ اس قسم کی الٹرا نیشنلسٹ حکومتوں کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے، اور اگر ان میں سے کوئی اتفاق سے اقتدار حاصل کر بھی لے تو اسے ہٹا کر ایسی حکومت قائم کی جائے جو ملکی اور غیر ملکی سرمائے کی نجی سرمایہ کاری، برآمدی تجارت کے لیے پیداوار اور منافع بیرون ملک بھیجنے کی حمایتی ہو۔

جبر و استبداد کے شکار کسی بھی ملک میں جمہوریت اور سماجی اصلاحات کی مخالفت کو کبھی بھی عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی، سوائے اس مختصر سے ٹولے کے جو امریکی تجارت سے وابستہ ہوتا ہے اور اسے ان سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔

امریکہ طاقت پر انحصار کی توقع کرتا ہے اور فوج سے اتحاد قائم کرتا ہے۔ کینیڈی دور کے منصوبہ سازوں کا کہنا تھا کہ فوج لاطینی امریکہ میں کسی بھی سیاسی گروہ کے مقابلہ میں کم امریکہ دشمن ہے۔ چنانچہ کسی بھی مقامی عوامی گروہ کو جو ہاتھ سے نکل رہا ہو کچلنے کے لیے فوج پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔

★ امریکہ نے ہمیشہ غیر ملکی افواج سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ کسی حکومت کے ہاتھ سے نکل جانے پر اسے مٹانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ اسی طریقہ کے تحت ۱۹۷۳ء میں چلی اور ۱۹۶۵ء میں انڈونیشیا کی فوجی بغاوتوں کی بنیاد رکھی گئی۔ بغاوتوں سے قبل ہم چلی اور انڈونیشیا کی حکومتوں کے سخت مخالف تھے، تاہم انہیں اسلحہ فراہم کرنے کا عمل جاری تھا۔ اصل مقصد تھا کار آمد افسران سے تعلقات بہتر رکھنا، تاکہ وہ آپ کے لیے حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی کی ابتدا میں امریکہ کی جانب سے ایران کو اسرائیل کے ذریعے اسلحہ فراہم کرنے کے پیچھے بھی یہی دلیل کار فرما تھی۔ اس عمل میں شریک اعلیٰ اسرائیلی اہلکاروں نے اس کا اعتراف کیا اور ۱۹۸۲ء میں یہ حقائق عالم آشکارا ہو گئے۔ قرضوں کے عوض آئی ایم ایف ’’لبرلائزیشن‘‘ مسلط کرتا ہے۔ لبرلائزیشن سے مراد بیرونی مداخلت اور کنٹرول کے لیے معیشت کو کھلا رکھنا اور عوامی خدمات کی رقومات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرنا ہے۔ یہ اقدام زیادہ مضبوطی کے ساتھ طاقت اور اختیارات خوشحال طبقات اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔۔۔۔

حد سے زیادہ خوش حال طبقہ اور پھر غربت کے مارے ہوئے مصیبت زدہ عوام کا انبوہ فوجی جنتا کی جانب سے حاصل کردہ قرضے اور پیدا شدہ معاشی بحران اس بات کو یقینی بنا دیتا ہے کہ آئی ایم ایف کے اصول و قواعد کی پابندی ہو۔۔۔ ماسوائے اس امکان کے کہ عوامی قوتیں سیاسی عمل میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کریں، جس صورت میں فوج کو دوبارہ استحکام اور سلامتی برقرار رکھنا پڑتی ہے۔ برازیل کی مثال اس ضمن میں سبق آموز ہے۔ یہ ملک قدرتی وسائل سے اتنا مالا مال تھا کہ اسے دنیا کا امیر ترین ملک ہونا چاہیے تھا اور وہاں صنعتی ترقی اعلیٰ پیمانے پر ہوتی، تاہم ۱۹۴۲ء کی فوجی بغاوت کے بعد کی کوششوں کے طفیل اور انتہائی تعریف والے اقتصادی معجزے کی وجہ سے اب برازیل کے اکثر باشندوں کی حالت ایتھوپیا کے لوگوں جیسی ہے، جو مشرقی یورپ کی صورتحال سے انتہائی ابتر ہے۔

ایل سلواڈور میں ہنگامی حالات نافذ ہو چکے تھے اور عوام کے خلاف جنگ شروع ہو چکی تھی، جس کو امریکہ کی مسلسل حمایت حاصل تھی۔ پہلا حملہ ریوسمپل میں ایک بہت بڑا قتل عام تھا، جس میں ھونڈراس اور ایل سلواڈور کی افواج نے مشترکہ طور پر حصہ لیتے ہوئے ۴۰۰ افراد کو ہلاک کیا۔ معصوم بچوں کو کلہاڑیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور عورتوں کو اذیتیں دے کر دریا برد کیا گیا۔ کئی دنوں تک ان کے اعضا ندی میں تیرتے رہے۔ وہاں چرچ کے مبصرین موجود تھے، چنانچہ یہ خبر تیزی سے پھیل گئی۔ تاہم امریکی ذرائع ابلاغ نے اس واقعہ کو رپورٹ کے قابل نہیں سمجھا۔

اس جنگ کے اہم شکار کسان تھے اور ان کے ساتھ مزدور، طلبہ، مذہبی راہنما یا وہ لوگ تھے جن پر عوامی مفادات کے لیے کام کرنے کا شک تھا۔ تشدد کے آخری برس یعنی ۱۹۸۰ء میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی جو ۱۹۸۱ء کی ابتدا میں تیرہ ہزار تک جا پہنچی۔

ایل سلواڈور کی فوج کو دی جانے والی تربیت کے نتائج عیسائی پادریوں کے ایک جریدے ’’امریکہ‘‘ میں ڈینپل سینتیاگو نے وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ انہوں نے کیتھولک پادری کی حیثیت سے ایل سلواڈور میں کام کیا تھا۔ وہ ایک کسان عورت کا ذکر کرتے ہیں جو ایک دن گھر واپس آئی تو دیکھا کہ اس کے تین بچے، اس کی ماں اور بہن میز کے اردگرد بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی گردن میز پر احتیاط سے رکھی تھی اور ہاتھ سر پر اس طرح دھرے ہوئے تھے گویا یہ لاشیں سر سہلا رہی ہیں۔

سلواڈور نیشنل گارڈ کے قاتل اٹھارہ ماہ کے ایک بچے کا سر مناسب جگہ پر نہیں رکھ سکے تھے، چنانچہ اس کے ہاتھ کیلیں لگا کر جمائے گئے تھے۔ خون سے بھرا ہوا پلاسٹک کا ایک مرتبان میز کے بیچ میں نمائش کے لیے رکھا ہوا تھا۔

سنتیاگو کے ریونڈ بشپ کے مطابق وحشت کے ایسے مناظر تھے کہ ایل سلواڈور میں لوگ صرف ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ہلاک نہیں کیے جاتے تھے۔ ان کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں جو بعد ازاں خنجروں یا برچھیوں پر سجائی جاتی ہیں اور کارروائی کا لرزہ خیز منظر پیچھے چھوڑا جاتا ہے۔ ایل سلواڈور کی پولیس لوگوں کے نہ صرف جنسی اعضا کاٹتی ہے بلکہ وہ ان کے حلق میں بھی ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ نیشنل گارڈ والے نہ صرف عورتوں سے زنا کرتے ہیں، بلکہ ان کے پیٹ کاٹ کر ان کے چہرے ان ہی کی انتڑیوں وغیرہ سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ بچوں کو قتل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں آہنی تاروں پر گھسیٹا جاتا ہے تاکہ ان کا گوشت ان کی ہڈیوں سے علیحدہ ہو جائے جبکہ والدین کو یہ منظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ہند چینی خطے میں جنگوں کا یہی عمومی نمونہ تھا۔ ۱۹۴۸ء میں محکمہ خارجہ نے تسلیم کیا تھا کہ ہوچی منہ کی قیادت میں ویت کانگ کی فرانس مخالف مزاحمت ویت نام کی قومی تحریک تھی، تاہم ویت کانگ نے اقتدار مقامی حکمران طبقے کے حوالے نہیں کیا۔ انہوں نے آزادانہ ترقی کا انتخاب کیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مفادات کو نظر انداز کیا۔

تشویش کی بات یہ تھی کہ اگر ویت کانگ کامیاب ہو گئے تو یہ وائرس پورے خطے میں پھیل جائے گا۔ اگر آپ وائرس کا شکار ہوں تو کیا کریں گے؟ پہلے تو اسے تباہ کریں گے، بعد ازاں متاثرہ لوگوں کو بے ضرر بنائیں گے، تاکہ بیماری نہ پھیلے۔ بنیادی طور پر تیسری دنیا میں امریکہ کی یہی حکمت عملی رہی ہے۔ اگر ممکن ہو تو وائرس کی تباہی کا ذمہ مقامی افواج کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ یہ نہ کر سکے تو پھر آپ کو اپنی فوج بھیجنی پڑے گی۔ ویت نام ان مقامات میں سے ایک تھا جہاں ہم نے براہ راست مداخلت کی۔

★ جس وقت امریکہ ویت نام میں آزادانہ ترقی کی بیماری کو ختم کر رہا تھا تو دوسری جانب ۱۹۶۵ء میں انڈونیشیا میں سہارتو کے ذریعے فوجی بغاوت، ۱۹۷۲ء میں فلپائن میں مارکوس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ اور جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں مارشل لاء کی پشت پناہی کر کے اس بیماری کو پھیلنے سے روکا گیا۔

انڈونیشیا میں سہارتو کی فوجی بغاوت کا مغرب نے خیر مقدم کیا، کیونکہ اس نے عوامی پذیرائی کی حامل سیاسی جماعت کو تباہ کر دیا۔ کچھ ماہ کے دوران سات لاکھ لوگ قتل کیے گئے، جن میں اکثریت بے زمین کسانوں کی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے جیمز ایسٹن نے اسے ایشیا میں امید کی کرن قرار دیا اور خوشی کے مارے اپنے قارئین کو اطلاع دی کہ کامیابی میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔

★ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے حملہ اور اس کے الحاق کو جائز قرار دیا۔ آسٹریلیا مشرقی تیمور کے تیل کے ذخائر کے استحصال کے لیے یہ کہہ کر انڈونیشیا کا ساتھی بنا کہ ’’دنیا بے رحم جگہ ہے جو طاقت کے ذریعے علاقوں پر قبضے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے‘‘۔ لیکن جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اسی آسٹریلیا کی حکومت نے اعلان کیا کہ بڑے ممالک کو اپنی چھوٹی پڑوسی ریاستوں پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسے اقدام کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ گویا زہرخند اور تشکیک کی کوئی بھی حد مغرب کے اخلاق پرستوں کو پریشان نہیں کر سکتی۔

★ امریکہ نے متعلقہ مسائل پر بات کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ سفارتکاری کا مخالف تھا۔ یہ بات کویت پر حملے سے کچھ ماہ قبل واضح ہو چکی تھی جب ہلاکت خیز اسلحہ پر مذاکرات کی عراقی پیش کش امریکہ نے مسترد کر دی تھی۔ ایک اور پیش کش میں عراق نے تمام کیمیاوی اور بایولاجیکل ہتھیار تباہ کرنے کی تجویز پیش کی، بشرطیکہ علاقے کے دیگر ممالک بھی اس پر عمل کریں۔

اس وقت صدام حسین بش کا حلیف اور دوست تھا، اس لیے اسے مثبت جواب موصول ہوا۔ واشنگٹن کا کہنا تھا کہ اسے عراق کی جانب سے اپنا اسلحہ تباہ کرنے کی تجویز پسند آئی ہے، تاہم اسے مسائل یا اسلحے کے نظام کے ساتھ مشروط نہیں کرنا چاہیے۔ اسلحے کے دیگر نظاموں کا اس میں کوئی ذکر نہیں تھا اور اس کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری اسلحہ ہے (تقریبا دو سو ایٹم بم)۔ ممکن ہے اس کے پاس کیمیاوی اور بایولوجیکل اسلحہ بھی ہو، تاہم ’’اسرائیلی ایٹمی ہتھیار‘‘ ایک ایسا فقرہ ہے جو کوئی بھی امریکی اہلکار ادا نہیں کر سکتا۔ یہ فقرہ سوال اٹھائے گا کہ اسرائیل کو دی جانے والی تمام امداد غیر قانونی کیوں نہیں؟ کیونکہ ۱۹۷۷ء میں متعارف کرائے جانے والے قوانین کے تحت اس ملک کی امداد نہیں کی جا سکتی جو خفیہ طریقے سے اسلحہ تیار کر رہا ہو۔

عراق کے حملے سے قطع نظر امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں ہر اس ’’امن عمل‘‘ کو مسترد کیا ہے جس میں بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی کانفرنس یا فلسطین کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ پچھلے بیس سال سے امریکہ اپنے اس موقف پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ میں رائے شماری اس کا ثبوت ہے۔ دسمبر ۱۹۹۰ء میں خلیجی بحران کے دوران بین الاقوامی کانفرنس کے مطالبے کو ۲ کے مقابلہ میں ۱۴۴ ووٹ ملے۔ مخالفت کرنے والے ممالک صرف امریکہ اور اسرائیل تھے اور اس کا عراق اور کویت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

امریکہ نے انتہائی ڈھٹائی سے عراق کو جارحیت سے پر امن طریقے سے واپسی کی بھی اجازت نہیں دی جو بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق تھی۔ اس کے برعکس امریکہ نے سفارتی کوششوں سے کترانے کو ترجیح دی اور بحران کو تشدد کے منظر نامے تک محدود کیا۔ جس میں سپر پاور کسی رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے اپنے مخالف پر لازمی فتح حاصل کرے گا۔

سفارتکاری سے انکار کرتے ہوئے امریکہ نے خلیج میں اپنے اہم مقاصد حاصل کر لیے۔ ہماری خواہش تھی کہ مشرق وسطیٰ میں توانائی کے وسائل ہمارے کنٹرول میں رہیں اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا بڑا حصہ امریکہ اور اس کے اتحادی برطانیہ کی معیشت کا ایندھن بنے۔ امریکہ نے اپنی بالادستی والی حیثیت کو بھی مضبوط کیا اور سبق سکھایا کہ دنیا پر حکمرانی صرف طاقت کے ذریعے کی جائے گی۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن نے ’’استحکام‘‘ برقرار رکھنے کے لیے پیش قدمی کی، خلیج کے خاندانی آمریتوں والے ممالک میں جمہوری تبدیلی کے خطرے کو روک دیا اور عراق کو جنوب میں شیعوں اور شمال میں کردوں کو کچلنے کے لیے خفیہ آشیر باد دی۔

بیسویں صدی کے بیشتر حصے میں امریکہ عالمی اقتصادی طاقت اور اس اقتصادی جنگ کا حمایتی رہا ہے جس میں غیر قانونی پابندیوں سے لے کر آئی ایم ایف کے قواعد کا نفاذ شامل ہے۔ تاہم پچھلے بیس سال یا اس سے کچھ زائد عرصے میں امریکہ میں جاپان اور جرمنی کی قیادت میں یورپ کے مقابلہ میں کسی قدر زوال آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی فوجی قوت میں بھی اتنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ قطعی طور پر سربرآوردہ بن چکی ہے۔

اس کھیل میں سوویت یونین کی موجودگی تو ایک مقررہ حد تک تھی کہ امریکہ کتنی طاقت استعمال کر سکتا ہے، بالخصوص ان علاقوں میں جہاں ہماری روایتی فوجی حیثیت مستحکم نہیں ہے۔ چونکہ سوویت یونین ایک حکومتوں اور سیاسی تحریکوں کی پشت پناہی کر رہا تھا جنہیں امریکہ تباہ کرنا چاہتا تھا، اس لیے یہ خطرہ موجود تھا کہ تیسری دنیا میں امریکہ کی مداخلت ایٹمی جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔ سوویت یونین کا خطرہ ختم ہونے کے بعد امریکہ دنیا میں تشدد کے استعمال کے لیے نسبتاً زیادہ آزاد ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو پچھلے چند برسوں کے دوران امریکی تجزیہ نگاروں نے اطمینان کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔

★ آزادی کے لیے جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا کے لوگوں کو ہمارے ہمدردانہ ادراک کی ضرورت ہے اور اس سے زیادہ انہیں ہماری ضرورت ہے۔ ہم امریکہ میں تھوڑا سا شور شرابہ کر کے انہیں بقا کا پروانہ فراہم کر سکتے ہیں۔ کیا وہ اس زیادتی پر غالب آسکتے ہیں جو ہم نے ان پر مسلط کر رکھی ہے؟ اس کا زیادہ تر دارومدار اس پر ہے کہ یہاں امریکہ میں کیا ہوتا ہے۔

تیسری دنیا کے لوگوں کی بہادری حیران کن ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جنوبی مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر میں نے ان کی بہادری دیکھی ہے۔ یہ ایک لازوال اور جینے کی امنگ بخشنے والا تجربہ ہے۔

قارئین کرام! یہ ان خیالات اور تجزیوں کا مختصر خلاصہ ہے جن کا اظہار نوم چومسکی نے اس کتابچہ میں کیا ہے۔ اس سے زیادہ کی اس کالم میں گنجائش نہیں ہے، تاہم اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ مغرب اور امریکہ کے استعماری عزائم اور ان کی تکمیل کے سامراجی ہتھکنڈے کوئی مخفی راز نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جسے خود مغرب کے باخبر اور انصاف پسند دانش ور بھی تسلیم کرتے ہیں اور ضمیر اور انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں، انہیں کوئی حجاب نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی ان آوازوں کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جائے اور ضمیر اور انصاف کے پرچم کو ہر حال میں بلند رکھا جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter