(۲۱ ستمبر کو عصر کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں نائب خطیب مولانا مفتی فضل الہادی سواتی کی صاحبزادی کے نکاح کی تقریب سے خطاب۔ ضبط و تحریر: حافظ فضل اللہ راشدی)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج اسی مجلس میں ایک نکاح کی تقریب ہے، اس مناسبت سے دو چار باتیں عرض کروں گا۔ نکاح انسانی اور سماجی ضرورت ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنتِ نبویؐ بلکہ سنن المرسلین فرمایا ہے کہ یہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و التسلیمات کی سنتِ مبارکہ ہے۔ اس کے احکام، مسائل، آداب، ضرورت، تقاضے قرآن پاک نے بھی بیان فرمائے ہیں اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمائے ہیں۔
قرآن پاک نے تو ایک مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کن عورتوں سے نکاح جائز ہے اور کن سے جائز نہیں ہے۔ "حرمت عليكم امہاتكم وبناتكم واخواتكم وعماتكم…الخ" (النساء ۲۳) جن سے نکاح جائز نہیں ہے ان کی ساری فہرست بیان کرنے کے بعد ’’واحل لكم ما وراء ذالكم‘‘ فرمایا کہ ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے، باقی کسی کے ساتھ بھی جائز ہے، لیکن تین شرطیں لگائی ہیں: ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين ولا متخذی اخدان۔ ان تین شرطوں کے ساتھ ممنوعہ فہرست کے علاوہ کسی بھی عورت سے نکاح جائز ہے۔
پہلی شرط ہے ’’ان تبتغوا باموالكم‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟ کسی عورت کے ساتھ تعلق ہوگا تو اس کا نتیجہ بھی ہوگا، خرچہ وغیرہ ہوگا، بچہ بھی ہوگا۔ ان سب کی مالی ذمہ داریاں قبول کرنی ہوں گی۔ عورت کی بھی اور میلاپ کے نتیجے میں جو اولاد ہوگی اس کی ساری مالی ذمہ داریاں قبول کرنی ہوں گی۔ اس میں مہر تو ہے ہی وہ جتنا بھی طے ہو جائے، اس کا نفقہ (خرچہ) بھی، اور اس کے بچوں کا بھی۔ نفقہ اتنا کہ اس معاشرے میں جتنے نفقہ کے ساتھ باعزت گزارا ہو جائے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ۲۰۰ پکڑا دیا، یہ خرچہ نہیں ہے۔ معروف طریقے سے اس معاشرے اس ماحول میں جتنے خرچے کے ساتھ اس کا باعزت گزارا ہو جائے وہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ ’’بالمعروف‘‘ کہہ کر نفقے کا معیار بھی طے کر دیا۔
یہاں ایک واقعہ کا حوالہ دوں گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کیس آیا، ایک خاتون حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئی کہا، یا رسول اللہ! ہم آپ کے ساتھی ہیں، صحابیؓ ہیں۔ میرے خاوند کو آپ جانتے ہیں، آپ کے رشتہ میں چچا لگتے ہیں، گھر کا خرچہ پورا نہیں دیتے، کیا کروں؟ نہ میرا گزارا ہوتا ہے نہ بچوں کا گزارا ہوتا ہے۔ یہ حضرت ہندہؓ تھیں جو حضرت ابو سفیانؓ کے بارے میں شکایت کر رہی ہیں۔ پوچھا کیا میں خاوند کی جیب ٹٹول سکتی ہوں؟ خاندان کی بات تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ٹٹول سکتی ہو لیکن اتنا کہ تجھے اور تیرے بچوں کو معروف طریقے سے کافی ہو۔ یہ معیار بھی طے کر دیا کہ اس ماحول میں جتنے خرچے کے ساتھ گزارا ہوتا ہے بیوی کا اور اس کے بچوں کا، یہ خاوند کے ذمہ حق ہے، اگر نہیں دے گا تو بیوی اپنا خرچہ پورا کرنے کے لیے خاوند کے مال سے لے سکتی ہے۔
دوسری شرط ’’محصنین غیر مسافحین‘‘ شادی خواہش پوری کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ گھر بسانے کے لیے اور ایک فیملی کا یونٹ قائم کرنے کے لیے ہو۔ محصنین مردوں کو اور محصنات عورتوں کو کہا۔ گھر بسانے والا مرد ہے اور گھر میں بسنے والی عورت ہے۔ یہ نکاح کا بنیادی مقصد بیان کیا کہ گھر بنانا مقصد ہو، ایک فیملی آباد کرنا مقصد ہو، خالی خواہش پورا کرنا مقصد نہ ہو۔
تیسری شرط ’’ولا متخذی اخدان، ولا متخذات اخدان‘‘۔ اس کا سادہ ترجمہ ہے ’’نو گرل فرینڈ، نو بوائے فرینڈ‘‘۔ یہ تعلق اوپن ہو، ریکارڈ پر ہو، خفیہ نہ ہو۔ اسی لیے نکاح ہے، گواہ ہیں، خطبہ ہے، تاکہ معاشرے کو پتہ ہو کہ یہ میاں بیوی ہیں۔
یہ تین باتیں تو نکاح کی شرائط میں قرآن پاک نے بیان فرمائی۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد نقل کر دیتا ہوں۔ ہم عام طور پر نکاح کے خطبہ میں ایک جملہ پڑھتے ہیں: ’’النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ایک لمبے واقعے کا حصہ ہے جو اس کا بیک گراؤنڈ ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے، مدینہ منورہ میں چند نوجوان صحابہ کرامؓ نے آپس میں مشورہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مجلس کے، گھر سے باہر کے معاملات تو ہمیں پتہ ہیں کہ کیا کرتے ہیں، لیکن گھر کے اندر کیا کرتے ہیں اس کا پتہ کرنا چاہیے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر حضورؐ کے معمولات کیا ہوتے ہیں، پتہ کر کے اس کی پیروی بھی کرنی چاہئے۔
اب گھر کے معمولات کون بتائے گا؟ ازواجِ مطہرات بتائیں گی۔ آپس میں پلاننگ کی کہ چلو چلتے ہیں ماؤں کے دروازے پر جاتے ہیں اور جا کر پوچھتے ہیں کہ حضورؐ گھر میں کیا کرتے ہیں؟ ایک اماں جی کے پاس گئے کہ ہم فلاں فلاں ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر کے اندر آتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟ حضور کے گھر کے معمولات کیا ہیں؟ انہوں نے کہا جو گھر کے مردوں کے معمولات ہوتے ہیں، آرام کیا، روٹی کھائی، گھر کا کام کاج کیا، گپ شپ لگائی، نفل وغیرہ پڑھے، جتنے بھی گھر کے معمولات ہوتے ہیں وہی کرتے ہیں۔
ایک کے پاس گئے، دوسری کے پاس گئے، تین چار ازواج مطہرات کے پاس گئے، جب وہ معمولات علم میں آئے ناں تو آپس میں کہنے لگے یہ تو بہت تھوڑے ہیں۔ گویا کہ انہوں نے بہت کم سمجھا، ان کا خیال یہ تھا کہ جاتے ہی مصلّے پر بیٹھ جاتے ہوں گے اور وہاں سے اٹھ کر باہر آجاتے ہونگے، گھر کے کام کاج پیغمبروں نے کیا کرنے ہیں؟ حدیث کے الفاظ ہیں ’’کانھم تقالواھا‘‘ انہوں نے بہت کم سمجھے۔ پھر بیٹھ کے مشورہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ضرورت بھی نہیں ہے کہ بخشے بخشائے ہیں، ہم تو گنہگار لوگ ہیں ہمیں کچھ نہ کچھ حیلہ بہانا کرنا پڑے گا۔
آپس میں مشورہ کیا تو ایک نے کہا میں ساری زندگی روزے رکھوں گا، کبھی ناغہ نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا میں ساری زندگی رات کو سوؤں گا نہیں، نفل پڑھوں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔ یہ باتیں حضورؐ تک پہنچ گئیں، بیویوں نے بتایا ہوگا کہ یہ پوچھتے پھر رہے تھے۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا لیا اور پوچھا، کیا کیا تم نے؟ تمہاری آپس میں کوئی کمٹمنٹ ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا، یارسول اللہ ہوئی ہے۔ سارا واقعہ سنایا، ان میں حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، ان کا خیال یہ تھا کہ شاباش ملے گی لیکن ادھر سے ڈانٹ پڑ گئی۔
آپؐ نے فرمایا ’’انا اخوفکم باللہ واتقاکم بہ‘‘ میں تم سے زیادہ خدا کا خوف رکھتا ہوں، تم سے زیادہ میں تقویٰ رکھتا ہوں، میں نے شادیاں بھی کی ہیں، روزے رکھتا بھی ہوں، نہیں بھی رکھتا، سوتا بھی ہوں، جاگتا بھی ہوں، میں تم سے زیادہ متقی ہوں، سارا کام کرتا ہوں، شادیاں بھی کیں ہیں، بچے بھی ہیں، کھاتا بھی ہوں۔ دین زندگی کے معاملات سے کنارہ کش ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ دین زندگی کے سارے کام شریعت کے مطابق کرنے کا نام ہے۔ دین اس کا نام نہیں کہ سب کچھ چھوڑ دو، نہیں نہیں یہ تو رہبانیت ہے اور ’’لارہبانیۃ فی الاسلام"۔ دین نام ہے کہ سارے کام کرنے ہیں لیکن شریعت کے حکم کے مطابق ’’ایس او پیز‘‘ کے مطابق کرنے ہیں۔ اس موقع پہ فرمایا "النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی‘‘ نکاح میری سنت ہے، انبیاء کی سنت ہے، جس نے اس کو چھوڑا، میرے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ یہ سنت ہے، انسانی معاشرے کی ضرورت ہے، ایک خاندان کی ضرورت بھی ہے۔
جبکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ نے اس پر اجر اور ثواب بھی بیان فرمایا ہے۔ ایک حدیث میں یوں فرمایا: جو گھر میں خرچہ کرتے ہو ناں بیوی بچوں، حتیٰ کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دیتے ہو، اگر مقصد اللہ کے حکم کی تعمیل ہے تو اس کا بھی ثواب ملے گا، یہ بھی صدقہ شمار ہوگا۔ تو گھر بنانا، اچھے طریقے سے چلانا یہ بھی سنتِ رسولؐ ہے۔ حضورؐ نے اچھے آدمی کی تعریف کی ہے: ’’خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی‘‘۔ تم میں سے اچھا وہ ہے جو گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں یہ سارے تعلقات، معاملات سنتِ رسول صلی اللہ علیہ کے مطابق نباہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔