دینی مدارس کا نظام و نصاب اور امریکی خواہشات

   
فروری ۲۰۰۲ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی ایک خبر کے مطابق

’’امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے جدہ میں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے ایسے ’’عالمی سیاسی معاشرہ‘‘ کی تشکیل کے لیے جذباتی اپیل کی ہے جو رواداری پر مبنی ہو اور دہشت گردی کے خلاف لڑ سکے۔ انہوں نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ باقی دنیا سے رابطہ کرے اور مسلمانوں پر زور دے کہ وہ تعلیمی نظام میں جبری مسلط کیے گئے نظریات کو ختم کرنے کے لیے سکولوں کا نصاب تبدیل کریں۔ انہوں نے امام کعبہ اور جامعہ ازہر کے امام سے اپنی ملاقات کا بطور خاص حوالہ دیا اور کہا کہ یہ لوگ دہشت گردی کے خلاف آواز تو بلند کر رہے ہیں مگر یہ سلسلہ سکولوں کی تعلیم تک جانا چاہیے۔‘‘

جبکہ اسی تقریر کے حوالے سے روزنامہ جنگ لاہور ۲۱ جنوری ۲۰۰۲ء کی خبر میں کہا گیا ہے کہ

‘‘سابق امریکی صدر جناب کلنٹن نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں عقیدے کی تلقین ختم کریں۔‘‘

اس سے قبل جنگ لاہور نے ۹ جنوری ۲۰۰۲ء کو سعودی وزیر تعلیم الشیخ محمد الرشید کا بیان شائع کیا ہے جس میں

’’انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ، مغرب کی طرف سے اس تنقید پر کہ سعودی تعلیمی پروگرام انتہاپسند پیدا کر رہا ہے، تعلیمی پروگرام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک عربی اخبار کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نصابِ تعلیم ہماری ضرورتوں اور معاشرے کے تقاضوں کے مطابق اور مسلّمہ اصولوں پر مبنی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے، یا ڈکٹیٹ کرائے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی اس خبر پر بھی ایک نظر ڈال لیں جو روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۱ جنوری ۲۰۰۲ء کو شائع کی ہے کہ

’’امریکہ نے حکومتِ پاکستان سے ملک کے دینی مدارس میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ کے مکمل کوائف طلب کر لیے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں زیر تعلیم تقریباً ۴۰ ہزار غیر ملکی طلبہ کے مکمل کوائف مع تصاویر طلب کیے گئے ہیں۔ ان طالب علموں میں ۲۱ ہزار افغان، ۸ ہزار عرب، اور ۱۳ ہزار دیگر اسلامی ممالک کے طالب علم ہیں جن میں سے اکثر غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ کوائف حاصل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔‘‘

ان خبروں سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلم ممالک کے تعلیمی نظاموں، اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے دینی مدارس کے نظام و نصاب کے حوالے سے امریکہ کے عزائم و خواہشات کیا ہیں، اور وہ ان کی تکمیل کے لیے کس حد تک سنجیدہ اور سرگرم عمل ہے۔ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی استعمار کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات کی ہے کہ بہت سے مسلم ممالک پر گزشتہ دو صدیوں کے دوران مسلسل نو آبادیاتی قبضہ اور اس کے بعد عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر ریموٹ کنٹرول تسلط کے باوجود مسلمان عوام کو ان کے عقیدہ، قرآن کریم، سنتِ نبویؐ اور تہذیبی ماضی سے کاٹا نہیں جا سکا۔ عام مسلمان آج بھی مغرب کے نظام و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو قبول کرنے کی بجائے اسلامی عقائد و احکام اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ بے لچک وابستگی رکھتا ہے۔ اور اس وابستگی کے قائم رہنے کی عالمِ اسباب میں سب سے بڑی وجہ عام سطح پر قرآن و سنت کی تعلیم کی موجودگی ہے، جس میں بنیادی کردار دینی مدارس کا ہے۔

اس سے پہلے ڈیڑھ صدی قبل برطانوی استعمار نے جنوبی ایشیا پر فوجی اور تجارتی و سیاسی تسلط حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کے تعلیمی نصاب و نظام کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا، اور ایک نئے اور اجنبی نظامِ تعلیم کے ذریعے انہیں ان کے ماضی اور تاریخی تسلسل سے کاٹنا چاہا تھا، لیکن اسے اس میں ناکامی ہوئی، اور نہ صرف دینی مدارس کے ایک نئے اور متوازی نظام نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا بلکہ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اسلامیات کی تعلیم ایک حد تک باقی رکھنا مجبوری بن گیا، جس کی وجہ سے مسلمان معاشرہ کو اسلامی عقائد و احکام سے مکمل طور پر بیگانہ کرنا ممکن نہ رہا۔

یہی وہ شکایت ہے جس کا اظہار سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جدہ میں اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ اسی شکایت کے ازالہ کے لیے امریکہ اور اس کے ساتھ اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے پاکستان سمیت تمام مسلمان ملکوں پر اپنا تعلیمی نظام و نصاب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اور اسی شکایت کو رفع کرنے کے لیے دینی مدارس کو ’’ماڈرنائز‘‘ کرنے اور جداگانہ تشخص سے محروم کر کے قومی تعلیمی پالیسی کے ’’اجتماعی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کے جتن کیے جا رہے ہیں۔

امریکہ اصل میں اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ اسلام بھی شاید مسیحیت، یہودیت، ہندو مت اور بدھ مت کی طرح کا کوئی مذہب ہے جسے شخصی زندگی اور عبادت خانوں تک محدود کر کے دنیا میں مغربی فلسفہ و تہذیب کے غلبہ کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل فلسفۂ زندگی، ہمہ گیر ضابطۂ حیات، اور جامع تہذیب و ثقافت رکھنے والا دین ہے۔ جو بالکل اسی طرح انسانی سوسائٹی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرنے کا دعویٰ و صلاحیت رکھتا ہے، جس طرح مغربی فلسفہ و تہذیب کو اس کا دعویٰ ہے اور عسکری قوت اور معاشی جبر و بالادستی کے زور سے اسے دنیا بھر پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس لیے امریکی راہنماؤں کو اس غلط فہمی سے جلد نکل آنا چاہیے اور اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ جبر و استبداد کے ہتھکنڈوں سے نہ عالمِ اسلام میں دینی تعلیمات کا دائرہ محدود کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی عام مسلمان کو اس کے عقیدہ اور دینی وابستگی سے محروم کرنے کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ تہذیب و ثقافت کی جنگ اور عقیدہ و فلسفہ کی کشمکش ہے، اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی تمام تر اچھل کود کے باوجود اسلامی تہذیب و ثقافت اور عقیدہ و فلسفہ کی بالادستی بالآخر اس دنیا پر قائم ہو کر رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter