بزم شخ الہند گوجرانوالا کے زیر اہتمام ۱۷ نومبر ۲۰۲۴ء کو جامعہ اسلامیہ کامونکی ضلع گوجرانوالا میں منعقدہ حجۃ الاسلام سیمینار سے خطاب کا موقع ملا، جس کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزم شیخ الہند گوجرانوالہ کے مدیر عزیزم حافظ خرم شہزاد اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہوں کہ جنھوں نے بانی دارالعلوم دیوبند، حجۃ الاسلام حضر ت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں اس عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا۔ میں حضرت مولانا عبدالرؤف فاروقی صاحب کا بھی شکر گزار ہوں کہ جن کے ادارے (جامعہ اسلامیہ،کامونکی ضلع گوجرانوالا) میں یہ سیمینار منعقد ہورہا ہے۔ اور اسی طر ح خانوادۂ قاسمی کے عظیم چشم وچراغ حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب دامت برکاتہم کے فکر انگیز خطاب کا خیر مقدم اوران کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے ہماری اس مجلس میں معنوی شرکت فرمائی اور ہماری راہنمائی کا ہمیں ایک راستہ عطا فرمایا۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے باتیں تقریباً آپ نے سنی ہیں ،اور بہت سی کرنے کی ہیں لیکن میں مختصراً دوتین گزارشات کرنا چاہوں گا۔ایک بات تو وہی جو ہمارے بھائی پروفیسر ڈاکٹر امجد علی شاکر صاحب فرمارہے تھے کہ ماضی کے ساتھ وابستگی،یہ ہماری بنیاد ہے۔ماضی کے ساتھ وابستگی نہیں ہوگی تو(وہ) وقتی باتیں ہوں گی۔ قرآن پاک نے بھی ہمیں ماضی سے وابستہ رہنے کی ترغیب دی ہے ،اورآدم علیہ السلام سے شروع کیا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک باربار مختلف اسالیب اور لہجوں میں واقعات اتنے بیان کیے ہیں کہ کافروں نے یہ طعنہ دیا کہ ان ہٰذا الا اساطیر الاولین کہ کہانیاں ہی بیان کرتے رہتے ہو۔لیکن یہ کہانیاں ضروری ہیں۔اس کے بغیر بات بنتی نہیں ہے۔ ہمارا اصل ماضی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ ماضی سے وابستہ رہ کر مستقبل کی ضروریات کو محسوس کرکے حال میں کام کرنا یہی حکمت ودانش کا تقاضا ہے ۔ماضی پیچھے ہو، مستقبل نظر میں ہو اور حال سامنے ہو،یہ ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ایک اور بات فرمائی ہے، میں بھی اپنے انداز میں کہنا چاہوں گا کہ جو علمی وفکری تحریکیں ماضی سے کٹ کر بنتی ہیں وہ وقتی ہوتی ہیں ،اور اپنا تھوڑا سا وقت گزار کر ختم ہوجاتی ہیں ۔ایسی بیسیوں تحریکیں میرے سامنے ہیں۔میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں اپنے ماضی سے وابستہ رہنا یوں سمجھ لیجیے جیسے گیس کا کنکشن مل گیا ہو،اور وقتی تحریکیں سلنڈر کی طرح ہوتی ہیں۔سلنڈر کتنے کلو کا ہے،اپنا وقت گزارے گا ،میں نے بہت سے سلنڈ ابھرتے دیکھے ہیں ، جلتے دیکھے ہیں ،بجھتے دیکھے ہیںاور ختم ہوتے دیکھے ہیں۔یہ ماضی سے وابستگی ہمارا کنکشن ہے۔اگر کنکشن ہے تو نیٹ ورک وقتی طور پر خراب بھی ہو پھر بھی چلتا رہتا ہے۔لوڈ شیڈنگ بھی ہو تو پھر بھی بحال ہو جاتا ہے۔میں اس بات کو اپنے انداز میں یوں عرض کیا کرتا ہوں کہ وقتی فکری تحریکیں سلنڈر کی طرح ہیں، اپنا وقت ،گیس ختم ہوا تو بات ختم ہوگئی۔اور ماضی کے ساتھ وابستہ رِہ کر کام کرنا،یہ اصل کنکشن ہے جو مین پاور ہاؤس کے ساتھ ہے، اللہ کے نیک بندوں کے ذریعے اللہ پاک ہمیں اس کنکشن کے ساتھ قائم رکھے۔(آمین)
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی جدوجہد کے بیسیوں پہلوہیں ، لیکن میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس کا شاکر صاحب نے بھی ذکر کیا ہے،جس کا ذکر انھوں نے ’’میلہ خدا شناسی ‘‘اور’’ تقریر دلپذیر‘‘ کے حوالے سے کیا ہے،کہ اپنے وقت کی علمی اورفکری ضروریات کو سامنے رکھ کر وقت کی زبان میں بات کرنا۔آج اس کا دائرہ پھیل چکا ہے،میلہ خدا شناسی پہلے ایک شہر میں ہوا کرتا تھا،ایک ملک کے لوگ شریک ہوا کرتے تھے ،اب پورے ملک اور پوری دنیا میں میلہ خدا شناسی چل رہا ہے ،لوگ اس میں اپنی اپنی باتیں کررہے ہیں ۔اس میلہ خد ا شناسی سے لاتعلق رہنا ٹھیک نہیں ہے۔اللہ پر دین پر اور اسلام پر ،حق اور باطل پر بحث ہورہی ہے لہٰذا اس بحث سے لاتعلق رہنا ٹھیک نہیں ہے بلکہ اس میں شریک ہونا ہماری ذمہ داری ہے۔آج کا میلہ خد ا شناسی پوری فضا اور پوری دنیا میں ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے ۔لہٰذا فکری اور اعتقادی، کلامی اور تہذیبی اور کلچرلی مباحث جسے سیولائزیشن وار کہتے ہیں،اس سے لاتعلق رہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ہمیں میلہ خد ا شناسی میں جانا ہوگا، وہاں کی باتیں سننی ہوں گی اور اپنی باتیں کرنی ہوں گے۔
دوسری بات یہ کہ اس دائرے میں بات کرنی ہوگی،حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ میلہ خد ا شناسی میں گئے ہیں اور انھوں نے اس ماحول میں بات کی ہے، دلیل ، منطق اور لاجک کے ساتھ کی ہے اور اپنی بات منوائی ہے ۔مباحثے اور مکالمے میں شریک ہوئے ہیں۔اس بات کا دوسرا پہلو یہ ہے جو شاکر صاحب بھی فرمارہے تھے کہ حضرت نانوتویؒ نے ’’تقریر دلپذیر ‘‘میں نسل انسانی اور تمام مذاہب کو خطاب کیا ہے ۔آج بھی نسل انسانی اپنی راہنمائی کے لیے ،نسل انسانی اپنا راستہ متعین کرنے کے لیے (نہیں ، بلکہ)شاہ چارلس کے بقول متبادل سسٹم (سسٹم آف لائف)اور نظام کی تلاش میں ہیں اور وہ ہماری طرف دیکھ رہے ہیںاور ہمیں اس کا شعور اور احساس نہیں ہے۔حال کے تقاضے اور مستقبل کے امکانات کیا ہیں؟دونوں کو سامنے رکھ کر حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے 1857ء کے بعد جب ہر طرف افراتفری پھیل گئی تھی اور معاملہ بظاہر ختم ہو گیا تھا،لیکن انھوں نے مستقبل کی علمی ضروریات کا ادراک کیا اور مستقبل کی علمی ، فکری ،دینی اور تہذیبی ضروریات کو سامنے رکھ کر دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ۔ اس وقت لوگوںکو یہ بات سمجھ آرہی تھی کہ نہیں لیکن اب دنیا کو سمجھ آرہی ہے کہ کیا ہواتھا۔آج دیوبند پر دنیا میں جو بحث ہورہی ہے ،اس کے نتائج ،ثمرات اور اس کے سسٹم کی مضبوطی پر اُس وقت کے لوگوں کو سمجھ میں آئی ہو یا نہ آئی ہو لیکن آج دنیا کو سمجھ میں آرہی ہے ۔ کہ چار پانچ اللہ والوں نے بیٹھ کر مستقبل کی سوچ سامنے رکھ کر ایک نظام مرتب کیا تھا آج وہ دنیا میں کتنا مضبوط اور تناور درخت ہے۔
بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے مگر وقت میرے سامنے ہے۔ایک اور بات کرنا چاہوں گا،پہلی بات میںنے عرض کی تھی کہ ہمیں لاتعلق نہیں ہونا چاہئیے، آج کے میلہ خدا شناسی میں جانا ہوگا۔دوسری بات میں نے گزارش کی ہے کہ نسل انسانی کو خطاب کرکے بات کرنی ہوگی۔اور یہ بات ہمیں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے بھی فرمائی تھی،یہ بات حضرت نانوتوی ؒ نے بھی فرمائی تھی اور یہ بات حضرت شیخ الہند ؒ نے بھی فرمائی تھی کہ نسل انسانی کو سامنے رکھ کر بات کرو۔ آج ہمیں پوری گلوبل انسانی سماج کو سامنے رکھ کر بات کرنی ہوگی اور مستقبل کے بیسیوں امکانات اور توقعات میں سے مثال کے طور پر دو باتیں کہہ کر بات ختم کروں گا کہ مستقبل کی ضروریات کیا ہیں؟ایک اِس کیمپ کی اور ایک اُس کیمپ کی۔ وٹیکن سٹی عیسائی دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے ،سابق پاپائے روم پوم بینی ڈکٹ(شانزدہم) نے ایک کمیٹی بنائی تھی معاشی معاملات پر غور کرنے کے لیے ،اس کی رپورٹ ریکارڈ پر ہے ،وٹیکن سٹی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔کہ معیشت کے نظام کو توازن کے ٹریک پر لانے کے لیے ہمیں وہ معاشی اصول اختیار کرنے ہوں گے جو قرآن پاک نے بیان کیے ہیں۔ ابھی چند سال پہلے رشین پارلیمنٹ نے (اسی پیوٹن صاحب کے دور میں )اپنی حکومت سے درخواست کی ہے کہ روس کے نظام میں ایسی گنجائش پیدا کی جائے کہ ہم معیشت کے قرآنی اصولوں کو اڈریس کرسکیں۔میں اس میں اُن کامستقبل دیکھ رہا ہوں اور ایک بات کا اضافہ کروں گا کہ وہ تو اپنی ضروریات محسوس کررہے ہیںاور اس کا اظہار کررہے ہیں،سوال یہ ہے کہ قرآن پاک کے معاشی اصول اوریجنل سورس والے انہیں مہیا کریں گے یا وہ خود طے کریں گے؟وہ جو سمجھیں گے وہ اصول ہوں گے یا جو ہمارے ماضی کی علمی وراثت میں قرآن مجید کے معیشت کے اصول جو چلے آرہے ہیں وہ ہوں گے؟ہمارا آج کا ایک المیہ اور بھی ہے میں اسے بھی شامل کروں گا،ہمارا آج کی تعلیم یافتہ نسل کا المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن پاک ، سیرتِ رسولﷺ اور اسلامی تاریخ بھی اوریجنل سورسز کی بجائے مستشرقین سے پڑھ رہے ہیں۔ہم رسول اللہ ﷺ کی سیرت فلپ کے۔ ہٹی سے پڑھ رہے ہیں۔ہم حدیث اور فقہ گولڈ زیہر سے اور منٹگمری واٹ سے پڑھتے ہیں، لیکن میں اس بات کو چھوڑتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ وٹیکن سٹی بھی قرآن پاک کے اصولوں کی طرف واپسی کی ضرورت محسوس کررہا ہے ۔رشین پارلیمنٹ بھی اس کی ضرورت محسوس کررہی ہے ۔قرآن پاک کے معاشی اصولوں کی طرف آج کی فریکونسی میں اُن کو اُن سے متعارف کون کروائے گا؟ یا ہم اُن پر چھوڑ دیں کہ جو تم طے کر لو وہ ٹھیک ہے ؟ میرے نزدیک سب سے بڑا چیلنج یہ ہے ، کہ مستقبل کے تہذیبی اور فکری امکانات اور علمی مواقع اس پہ ہم کوئی کام کر رہے ہیں کہ نہیں ؟ میرے نزدیک حضرت شاہ ولی اللہ ،حضرت مولانا نانوتوی اور حضرت شیخ الہند رحمہم اللہ تعالیٰ کا میرے اور آپ کے نام سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مستقبل کی تہذیبی، فکری ضروریات اور تقاضوں کو محسوس کرو اور اسے پورا کرنے میں اوریجنل سورسز میں اپنا کردار ادا کرو جیسے اپنے وقت میں حضرت شاہ ولی اللہ نے کیا تھا، حضرت نانوتویؒ نے کیا تھا اور اپنے وقت میں حضرت شیخ الہند ؒ نے کیا تھا۔اللہ پاک ہمیں اس ٹریک پر صحیح رفتار سے ساتھ آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سیمینار کو اِن مقاصد کے لیے مفید اور ثمرآور فرمائے۔وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔